بڑا دشمن بنا پھرتا ہے

اتوار 18 جنوری 2015

Muhammad Afzal Shaghif

محمد افضل شاغف

آرمی پبلک سکول پشاور کے نہتے اور معصوم طالبعلموں کے ساتھ دہشت گردوں کی جانب سے خونی داستان رقم کیے آج ایک ماہ گزر چکا ہے۔ ملک و قوم دشمن عناصر نے ظلم و بربریت و سفاکیت میں کوئی کسر روا نہ رکھی لیکن اس کے بر عکس یہ ظالم درندے اس بہادر قوم کے جذبہ کو متزلزل نہ کر سکے۔آرمی پبلک سکول اپنی روائتی تابندگی کے ساتھ دوبارہ کھلا اور اس کے طلبہ و طالبات بھی انتہائی جوش و خروش کے ساتھ طلب ِ عِلم کے کے لیے اپنی کلاسوں میں حاضر ہوئے۔


دہشت گردی کے اس خونچکاں کھیل میں جتنے بھی افراد مارے گئے وہ تو شہداء کے رتبے پر فائز ہوئے جبکہ پاکستان آرمی نے معاشرے کے ناسوروں کو کتے کی موت مار کر اپنا فرض ادا کر دیا۔ سکول واپس آنے والے بچوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ وہ ان دہشت گردوں سے کوئی خوف و خطر نہیں رکھتے بلکہ ان کو صفحہء ہستی سے مٹا دینے کا عزم لے کر سکول آئے ہیں۔

(جاری ہے)

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بچوں کو ویلکم کرکے ان کا حوصلہ بڑھایا اور پاک فضائیہ کے طیاروں نے نیچی پروازیں کرکے طلباء کو سلام پیش کیا اور خراجِ تحسین پیش کیا۔
اللہ کے فضل و کرم سے زندگی دوبارہ اپنے معمول پر ہے۔ جن والدین نے سکول کی عمارت سے اپنے جگر گوشوں کے لاشے اٹھائے اورآج پھر سے اسی جگہ اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کے لیے بھیجا، ان کے دل گردے کی داد نہ دینا انتہا کی بخیلی ہوگی۔

ایسے بچوں کے حوصلہ کو سلام پیش کرنا چاہیے جن کی آنکھوں کے سامنے انہی کے بہن بھائیوں کا خون ہوا اور آج وہ سر زمینِ مقتل پراپنے قافلے کے ساتھ پھر سے رواں دواں ہیں۔ ہر لحظہ اور ہر جگہ انہیں اپنے پیاروں اور ساتھی طلباء کی یاد ستاتی ہوگی، کمرہ جماعت کی خالی سیٹوں کے ساتھ کتنے چہرے ان کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتے ہونگے اور ماضی کی کتنی حسین مسکراہٹیں اور شرارتیں اُن کو رہ رہ کر ستاتی ہونگی اور یقیناً آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے ہونگے۔

بقول ناصر کاظمی
خالی شاخیں بلا رہی ہیں
پھولو آؤ کدھر گئے ہو
اِن دہشت گردوں نے معصوم بچوں پر اپنے ظلم کی آگ ٹھنڈی کرکے اپنی بُزدلی کا والہانہ ثبوت دیا ہے۔اس کے مد مقابل قوم کا ذاتی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جانا ، فوجی عدالتوں کا قیام اور سزائے موت کے حکم پر عمل درآمدگی دہشت گر د تنظیموں کے لیے ایک طوفانِ بلا ہوگا، جس کے نتیجے میں بہت سے دہشت گرد اب تک پھانسی گھاٹ پر چڑھائے جا چکے ہیں۔


بارڈر کے اُس پار ہمارے دشمن ہمسایہ ملک بھارت نے ضربِ عضب میں پاکستان آرمی کی فتح اور دہشت گردوں کا صفایا ہوتا دیکھتے ہوئے کنٹرول لائن پر حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بارڈر سے وابستہ علاقوں پر گولہ باری شروع کر دی تا کہ کافی فوج بارڈر کی حفاظت پر معمور ہو جائے اور دہشت گرد بچ سکیں۔
پاکستان اس وقت ایک گھمبیر قسم کی صورتحال سے دوچار ہے جہاں دہشت گردی اور ”دشمن گردی“ بیک وقت وطن کے لیے خطرہ ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اِس وطن کے بہادر جوانوں نے مشکل وقت میں ہمیشہ اپنی قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔


حالیہ صورتحال کے مطابق دہشت گردوں نے جب اپنے خود کش حملوں کے منصوبوں کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھا تو آتشزدگی کے ذریعہ ملک اور قوم کی املاک کو نقصان پہنچا کر اپنا مقصد حاصل کرنا شروع کر دیا، جس میں ٹِمبر مارکیٹ کراچی میں بہت بڑی آتشزدگی اور نئی انارکلی لاہور میں خالد مارکیٹ میں دکانوں کا جلایا جانا سرِ فہرست ہیں۔
ایسے حالات میں ہم بحیثیت پاکستانی شہری تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتے ہیں جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد اپنا ذاتی دفاع بھی کرے۔

تعلیمی ادارے، عوامی اجتماع کے مقامات اور ایسی تنظیمیں جہاں روزانہ سینکڑوں افراد کام کرتے ہیں اپنی اپنی سکیورٹی کو فول پروُف بنائیں۔ اس سلسلے میں تمام تر ممکن اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ اپنی آنکھیں ہر وقت کھلی رکھیں اور مشتبہ افراد کی اطلاع بغیر کسی حیل و حجت فوراً اپنے قریبی پولیس سٹیشن یا حکومت کے سفارش کردہ نمبر 1717پر دی جائے۔

اگر قوم کا ہر فرد ایک ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرے تو ہمارے ارد گرد منڈلانے والے خطرات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ملک میں امن و امان کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
دہشت گردی کے سانحہ سے پاکستانی بچوں کا جوش و جذبہ بہت بلند ہو گیا ہے جس میں میڈیا پر صبح کے وقت چلائے جانے والے گیت ” بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑتا ہے “نے مزید اضافہ کر دیا ہے جس میں دہشت گردوں کے لیے ایک لعنت بھرا پیغام موجود ہے۔


وہ دن دور نہیں جب یہی ننھے منے بچے آرمی ، نیوی اور ایئر فورس کے آفیسرز بن کر ان دہشت گردوں کا صفایا کر ڈالیں گے ، ڈاکٹر بن کر اپنی قوم کے د کھوں کا مداوا کریں گے، استاد و عالِم بن کر عِلم کی نئی شمعیں روشن کریں گے اور جج بن کر ملک دشمن عناصر کے گلوں میں پھانسی کے پھندے ڈالیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :