یہ چالیس ممالک!

جمعہ 16 جنوری 2015

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

یہ نوے کی دہائی کا آغاز ہے۔ ادھر کویت پر عراق کا قبضہ ہوجاتا ہے، ادھر دنیا کے چالیس ممالک کی افواج خلیج میں آ موجود ہوجاتی ہیں اور کویت کو صدام حسین سے نجات دلانے کے نام پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے اور دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمان بالواسطہ یا بلاواسطہ اس جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
ادھر مشرقی تیمور سے عیسائی اقلیت کی جانب سے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک سے بغاوت اور علیحدگی کی تحریک شروع ہوجاتی ہے، ادھر دنیا کے چالیس سے زائد ممالک بھاگے بھاگے آتے ہیں اور اقوام متحدہ میں جمع ہوکر مشرقی تیمور کو آزادی دلاکر دم لیتے ہیں۔


ادھر افغانستان میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوتی ہے اور ادھر دنیا کے چالیس سے زائد ممالک سلامتی کونسل کا اجلاس بلاتے ہیں اور اقوام متحدہ کی چھتری تلے امارت اسلامیہ افغانستان کا اقتصادی محاصرہ کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


ادھر نائن الیون کے پراسرار واقعات رونما ہوجاتے ہیں اور امریکی صدر بش ٹی وی پر آکے ”صلیبی جنگ“ کا اعلان کرتے ہیں اور ادھر دنیا کے چالیس سے زائد ممالک اپنے تمام تر لاوٴلشکر کے ساتھ افغانستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔

بی باون طیاروں کے ذریعے کارپٹ بمباری کرکے افغانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ بستیاں الٹ دی جاتی ہیں۔ شہروں کو تاراج کردیا جاتا ہے اور شادی کی تقریبات اور مساجد تک کو نہیں بخشا جاتا۔
ادھر بدنام زمانہ امریکی ایجنسی سی آئی اے کا یہ ”انکشاف“ سامنے آتا ہے کہ صدام حسین نے عراق میں بڑے پیمانے پر کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیار جمع کررکھے ہیں، ادھر ایک بار پھر سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا جاتا ہے اور دنیا کے چالیس سے زائد ممالک ایک بار پھر آنکھیں بند کرکے عراق پر ٹوٹ پڑتے ہیں، وہاں ایک بار پھر کشت وخون کا بازار گرم کردیا جاتا ہے، مزید لاکھوں انسانوں کا خون بہادیا جاتا ہے اور مزید لاکھوں کو خانہ جنگی کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے۔

جن کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیاروں کی تلاش میں یہ مہم شروع کی گئی تھی، ان کا کہیں سراغ ہی نہیں ملتا اور بڑی معصومیت کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ سوری! سی آئی اے کی رپورٹ ہی غلط تھی!
ادھر ڈنمارک کا ایک دریدہ دہن جریدہ جیلاند پوسٹن انسانیت کے سب سے بڑے محسن سرور دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین وتضحیک پر مبنی غلیظ خاکے شائع کرکے دنیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مذہبی جذبات واحساسات کو پامال کرتا ہے اور ادھر دنیا میں تہذیب وشرافت اور رواداری واحترام مذاہب کا دعویٰ کرنے والے چالیس سے زائد مغربی ممالک اس شرمناک اشتعال انگیزی، دہشت افروزی اور نفرت خیزی پر مذکورہ جریدے اور اس کے پس پردہ کارفرما عناصر کی فہمائش کرنے کی بجائے الٹا ان عناصر کے ساتھ جاکھڑے ہوجاتے ہیں اور ان ممالک کے دیگر اخبارات بھی مذکورہ خاکے شائع کرکے دنیابھر کے مسلمانوں کو دعوت مبارزت دے دیتے ہیں۔

خاکے شائع کرکے نفرت پھیلانے والوں کو آزادیٴ اظہار کے نام پر مزید ہلاشیری دی جاتی ہے اور مسلمانوں کو صرف یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے ایمان وعقیدے کی اساس پر ہونے والے حملوں پر ”برداشت “اور” رواداری“ کا مظاہرہ کریں۔
جب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر آزادیٴ اظہار کا فلسفہ اتنا ہی مقدس ومحترم ہے تو پھر ہولوکاسٹ کے افسانے پر سوالات اٹھانے پر متعدد مغربی ممالک میں کیوں پابندی ہے اور فلسطینی بچوں پر اسرائیلی مظالم کو اجاگر کرنے پر صحافیوں کو ملازمتوں سے کیوں نکالا جارہا ہے؟ تو اس پر کسی لب کشائی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔


اور اب فرانس میں مسلسل اور ڈھٹائی کے ساتھ خاکے شائع کرنے والے جریدے کے دفتر پر حملہ ہوجاتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک کے حکمران اپنی تمام تر مصروفیات چھوڑکر پیرس میں جمع ہوجاتے ہیں اور بیک زباں اعلان کردیتے ہیں کہ ہم سب ”چارلی“ ہیں۔ گویا یہ ان کی جانب سے ایک بار پھر اس بات کا اظہار ہے کہ مغربی ممالک کا ہر حکمران اور شہری پیغمبراسلام صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں وہی ذہنیت رکھتا ہے جو ”چارلی ہیبڈو“ کے غلیظ ،بد طینت کارٹونسٹ رکھتے تھے۔


اگر ان سربراہان کی جانب سے چارلی ہیبڈو پر حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس جریدے اور دیگر مغربی اخبارات کی جانب سے دنیا میں مذہبی منافرت پھیلانے کی بھی مذمت کر لی جاتی تو کسی حد تک یہ کہنے کا جواز بن سکتا تھا کہ یہ ممالک تشدد اور نفرت کے خلاف ہیں۔ مگر انہوں نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں پر چھریاں چلانے والے بد بختوں کی یکطرفہ حمایت کرکے امت مسلمہ کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں ہے۔


یہاں غورطلب امر یہ ہے کہ آخر وہ کیا بات ہے جو ان چالیس سے زائد مغربی ممالک میں مشترک ہے، جس کی بناپر یہ محض ایک اعلان پر اپنے تمام تر اختلافات کو چھوڑکر اکٹھے ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں کوئی بڑا فیصلہ کرنے کے لیے بہت دفعہ کوئی سربراہی اجلاس بلانے یا غوروفکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی؟
میرے ملک کا دانشور تو مجھے یہ سمجھاتا ہے کہ مغربی ممالک نے اس لیے ترقی کی ہے کہ وہاں ریاست کا کوئی مذہب اور نظریہ نہیں ہوتا۔

یورپ اور امریکا کے لوگ نظریے اور عقیدے کی بنیاد پر نہیں سوچتے۔ وہاں صرف معاشی وانتظامی مفادات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو پھر یہ چالیس سے زائد ممالک کیسے ”صلیبی جنگ“ کے الفاظ سن کر یکدم ”میدان عمل“ میں کود پڑتے ہیں۔ وہ کون سی چیز ہے جو انہیں ”امارت “اور” خلافت “کے نام سے شروع کی گئی کسی بھی تحریک کا فوری قلع قمع کرنے کے لیے متحد ہونے پر مجبور کرتی ہے اور آخر وہ کون سی مجبوری ہے جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے مقابلے میں مٹھی بھر شرپسند عناصر کی پشت پناہی پر انہیں آمادہ کرتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ دنیا تہذیبوں کے خطرناک تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ القاعدہ موجودہ عالمی نظام کے خلاف ایک انتہا پر کھڑی ہے، یہ بات بہت حد تک درست ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد مغرب بھی دوسری انتہا پر جاکھڑا ہوا ہے ۔ اب اس کے نتیجے میں دنیا میں جو تباہی ہوسکتی ہے، کیا اس کا کسی نے تصور کیا ہے؟ مغربی ممالک نے گستاخانہ کارٹون شائع کرکے دنیا میں مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کی غیرمشروط حمایت کرتے ہوئے اور” ہم سب چارلی ہیں“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کیا اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ اگر اسلامی دنیا کے نوجوان ”ہم القاعدہ ہیں“ کے نعرے لگاتے ہوئے میدان میں آگئے تو کیا ہوگا؟ مسلمانوں کے پاس تو کھونے کو زیادہ کچھ نہیں ہے۔

مغرب کی شروع کردہ صلیبی جنگ کے نتیجے میں ہمارے شہر تو پہلے ہی تخریب کاری و دہشت گردی کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں، اب اگر یہ عفریت مغربی ممالک کے ترقی یافتہ شہروں میں بھی پہنچ گیا اور پیرس جیسے واقعات دیگر مغربی شہروں میں بھی رونما ہونے لگے جیساکہ خود یورپی یونین نے اس کا خدشہ ظاہر کیا ہے، تو کیا ہوگا…؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :