دہشتگردی،خوف ہم اورہمارا کردار

جمعہ 16 جنوری 2015

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ایک فلاحی ریاست بننے کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے اور قائد کے پاکستان کے ساتھ ہم سب نے مل کر کر جو کچھ کیا ہے اس کا نتیجہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں ہمارے گھر ،محلے گلیاں بازاور سکول کہیں بھی جائے امان نہیں رہی ہاوسنگ سوسائٹیاں اور محلے جنگلے لگا کر قید خانے بنا دئے گئے ہیں اپنے گھروں میں سیکورٹی گارڈ رکھنے کے باوجود خوف کے عالم میں زندگی گزر رہی ہے، جبکہ تعلیمی اداروں کا تو بہت ہی برا حال کر دیا گیا ہے ، ان کی سیکورٹی کے نام پر ہر سکول کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ آٹھ فٹ اونچی دیوار کرنے کے بعد اس پر خار دار تاریں بھی لگائے سکول کی چھت پر مورچہ بنائے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے اور گارڈ رکھنے کے ساتھ باہر کی جانب کھلنے والی کھڑکیوں کو اینٹوں سے بند کرایا جارہا ہے بچے سہمے سہمے کلاس روموں میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی معصومیت کو خوف کے اندھیروں میں گہنایا جارہا ہے اور یہ سب دہشت گردی کے خوف کے نام پر کیا جا رہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سکولوں میں موٹیویشنل لیکچرز کا اہمتام کیا جاتا، دہشت گردی سے بچاو اور نمٹنے کی بچوں کو تربیت دی جاتی ان کے حوصلے بلند کرنے اور خوف کی فضا ء کو دور کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تفریحی سرگرمیوں کو شروع کیا جاتا اور بچوں کو خوشگوار ماحول فراہم کرنے کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کو زہنی و جسمانی طور پر تیار اور تربیت کی جانے چاہیے تھی، اس ملک کے ہر نوجوان خصوصاً بچوں کو شعوری آگاہی فراہم کرنے کے پروگرام شروع کئے جانے چاہیں تا کہ وہ اچانک رونما ہونے والے حادثات اور دہشت گردی کے واقعات سے نبرد آزما ہو سکیں، اس کے ساتھ ہی ، تمام تعلیمی اداروں میں بزم ادب جیسی غیر نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہیے ، بچوں کو دہشت گردی پیدا کرنے والے اسباب اور وجوہات بیان کی جائیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ دہشت گردی کہاں سے اور کیسے پروان چڑھتی ہے اور اس سے کیسے بچنا ہے ،،اس وقت ضرورت تو شعوری آگاہی کی تھی جب کہ یہاں تعلیمی اداروں پر خوف کی پرچھیاں ڈالی جا رہی ہیں دہشت گردی کے نام پر جو کچھ کیا جارہا ہے اس سے بچوں کے زہنوں پر منفی اثرات پیدا ہوں گے جو آگے چل کر بچوں کی بہتر نشو نما کے لئے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں ، اس بارے میں حکومت کو سوچنا چاہے کیونکہ بچوں کے اندر ہمت ، عزم اور حوصلہ پیدا کے بنا دہشت گردی کے خوف سے باہر نکلنا مشکل نظرآتا ہے ۔

(جاری ہے)

مذید براں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ،شہریوں کو اعتماد میں لینے اور انہیں ان وجوہات سے آگاہ کئے بنا جس کی کوکھ میں دہشت گردی پروان چڑھتی اور پنپتی ہے صرف پابندیوں اور مذید خوف پیدا کرنے سے کیا وہ نتائج حاصل ہو پائیں گے جس کی ملک و قوم کو اس وقت ضرورت ہے؟ دہشت گرد اور ان کے ہمائتی تو یہی چاہتے ہیں کہ یہاں سکوت مرگ طاری رہے اور خوف کا راج ہو۔

دنیا بھر میں جہاں جہاں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ،مثلاً امریکہ ،برطانیہ ،سپین ، یا کسی اور ملک میں ، دہشت گردی سے بچاو کے لئے ان ممالک کی گئی کوششوں سے راہمنائی لی جاسکتی ہے کہ کیسے شہریوں کو خوف زدہ کئے بنا انہوں نے دہشت گردی پر قابو پایا۔
حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام کے تحفظ کے لیئے سماج کو ایک قید خانے میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

ایک خوف کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ حکومت جو اقدامات اٹھا رہی ہے کیا یہ وہ بہترین ٹولز ہیں دھشت گردی کے سدباب کے لیئے یا اس سے نبرد آزما ہونے کے لیئے۔ بجائے یہ کہ قوم کے نونہالوں کی ذہن سازی ان خطوط پر کیجاتی جس سے دھشت کے تصور کو شکست دیجائے ناکہ اسکا تسلط دل و دماغ پر قائم کردیا جائے۔ خبط الحواس حکمران بدحواسی میں ایسے طرز عمل سے بیمار اور پاگل نوجوان نسل پیدا کرنے جارہے ہیں۔

جسکا تصور بھی دھشت گردی سے کہیں بدتر ہے۔ہجوم اور قوم میں یہ فرق ہوتا ہے کہ قومیں آئندہ سو برس تک کی پلاننگ کرتیں ہیں جبکہ ہجوم سامنے کے مسلے کا حل بھی تلاش نہیں کر پاتا اور مفاد عاجلہ سے آگے نہیں سوچتا۔ قوموں کی زندگی میں مشکل حالات آتے رہتے ہیں اور زندہ دل قومیں ان سے نجات بھی حاصل کرلیتی ہیں بات صرف وقت حالات کی نزاکت کو سجھنے اور مسائل کا ادراک کرنے کے بعد صیح راستے کے انتخاب کی ہے مرض کا اعلاج درست تشخیص کے بنا ممکن نہیں ہوتا۔


اگر ہم نے اپنے اس اجتماعی روئے( دوسروں کا گھر جلتا رہا اور ہم دیکھتے رہے) پر شروع دن سے ہی قابو پالیا ہوتا اور گھر کو جلنے سے پہلے بچا لیا ہوتا تو آج ہمارا گھر بھی محفو ظ ہوتا اور یہ دن بھی دیکھنا نصیب نہ ہوتا کہ ہم اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ ہم میں سے اکثر کسی بھی ایشو کو خود بخود حل ہونے کے لے چھوڑ دیتے ہیں جبکہ ضرورت تو یہ ہوتی ہے کہ اسے مل جل کر حل کیا جائے قتل و غارت کا بازار مسلک اور فرقے کے نام پر جب گرم ہوا تو نہ ہی ریاست نے پرواہ کی اور نہ ریاستی اداروں نے جبکہ عوام الناس کی سوچ وہی مرنے والا کون سے میرا عزیز تھا یوں مرنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا جبکہ ہم یہی کہتے رہے میں اور میرا گھر تو محفوظ ہے یہ سچ ہے کہ قوموں کی اجتماعی غفلت کی سزا بھی اجتماعی طور پر ملتی ہے ، اب جبکہ سانحہ پشاور نے حکومت فوج اور سیاسی جماعتوں کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد کر دیا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے انہیں نہ دھرانے کا اعادہ کیا جائے اور پاکستان کو وہ حقیقی پاکستان بنایا جائے جس کی لے لاکھوں جانوں کی قربانی دی گئی تھی گھر بار اور اپنے پرائے چھوڑے گئے تھے ایک ایسا پاکستان جس میں بسنے والے تمام افراد صرف پاکستانی ہوں جہاں امن اور انصاف ہو ہر ہر شہری خود کو دنیا بھر میں پاکستانی کہنے پر فخر محسوس کرئے ایک فلاحی پاکستان بنانے کے لے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں ناانصافی کی کوکھ سے امن پیدا نہیں ہوتا اور ظلم و جبر اور نفرت کا ماحول مذید نفرت پیدا کرتا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے دیر پا اقدامات اٹھائے جو ملک کو امن اور خوشحالی کی جانب لے کر جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :