میاؤں۔۔۔۔!

بدھ 14 جنوری 2015

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

دہرامعیار ایسی خوب صورت چیز ہے، جسے ہر جماعت اور ہر پارٹی نے نہ صرف گلے سے لگا رکھا ہے، بلکہ سینے سے بھی چمٹا رکھا ہے، بد امنی اور لاقانونیت ختم کرنا ملک کے ہر ہر شہری کا بھی مطالبہ ہے اور پارٹیوں کے رہ نماؤں کا بھی،یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ پولیس جب ہاتھ دکھاتی ہے تو ہر پارٹی کے لوگ پولیس مقابلوں میں نشانہ بنتے ہیں جو یا تو بھاگنے کی مبینہ کوشش کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر پولیس کی تفتیش کی تاب نہ لا کر چل بستے ہیں، یا تو یہ ضابطہ ہونا چاہیے کہ پولیس کو اس طرح کے مقابلے بھی معاف ہیں اور اس قسم کی تفتیش بھی، ملزم بچ کر عدالت پہنچ جائے تو اس کی قسمت اور پہلے ہی ڈھیر ہو جائے اتو اس کا مقدر،یا پھر یہ ضابطہ ہو کہ ایسی ہر موت پولیس کے گلے پڑے گی اور متعلقہ اہل کاروں کو جواب دینا پڑے گا۔

(جاری ہے)


ہر لیڈر یہی چاہتا ہے، اس کے تمام مخالف پولیس مقابلوں میں ہی ڈھیر ہو جائیں تا کہ ان کے بچنے کے امکانات ہی نہ ہوں اور اس کے اپنے سارے کارکن پھولوں کی طرح محفوظ رہیں اور گل دستے میں سجا کر عدالت میں پیش کیے جائیں اور عدالت اس گل دستے کے ہر پھول کو خوب صورت اور خوش بو دار قرار دے کر قوم کے گلے ہار بنا ڈالے ، چوں کہ ایسا نہیں ہو رہا لہذا ہم احتجاج کریں گے ، ہڑتال کریں گے ۔

کراچی آپریشن جب بھی ہوتا ہے اس کے ہونے پر سب متفق ہوتے ہیں لیکن آپریشن کے نتائج کسی کو قبول نہیں ہوتے ، سبھی گلہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے متحدہ قومی مومنٹ ہی کیوں احتجاج کرتی ہے ، باقیوں کے لوگ نشانہ نہیں بنتے یا وہ اتنے قانون پسند ہیں کہ انہیں قانون نافذ کرنے والوں کی لاقانونیت بھی قبول ہے ، اس بابت واقفان حال کا دعوی ہے کہ متحدہ کراچی کی اکثریتی جماعت ہے جب اس کے حامی زیادہ ہیں، اس کو ووٹ زیادہ ملتے ہیں تو اس سے تعلق رکھنے والے ملزم بھی زیادہ سامنے آتے ہیں اور چو ں کہ یہ لوگ د ذراد دبنگ واقع ہوئے ہیں،اس لیے احتجاج کرتے ہیں کھل کھلا کے ،باقی پارٹیاں چھوٹی چھوٹی، ان کے لوگ کم ، ملزم بھی کم پھر اتنی جان نہیں کہ کھل کر احتجاج کرسکیں اور احتجاج کرتے بھی ہیں تو بے چارا احتجاج پدی کے شوربے کی طرح اتنا کم ہوتا ہے کہ اس پرنظر ہی نہیں پڑتی۔


####
دہرا معیار حکومت کی بھی من بھاتی چیز ہے ، حکومت سر چارج کے نام پر، ٹیکس کے نام پر فیول چارج کے نام پر یا کسی بھی من پسند نام پر عوام کی جیبوں سے کھربوں روپیا اڑا لے وہ تو قانونی چیز بنے، اس لیے کہ بھینس اسی کی، لاٹھی جس کی ،لیکن بے چارہ کوئی چھوٹا موٹا ہاتھ مارے، ہو غریب ہوکر کسی امیرکی جیب پر ہاتھ صاف کرتا پایا جائے اسے اس کی اجازت نہیں، اس لیے کہ اس کے پاس لاٹھی نہیں ، جس کے لاٹھی ہو اس کے ملزم کو مجرم کہنے کی جسارت بھی کوئی نہیں کرتاسزا تو دور کی بات ہے ،اس کو سب پر بھاری قرار دے کر عزت دی جاتی ہے، اس سے مشورے لیے جاتے ہیں، مشوروں کی فیس دی جاتی ہے۔


####
جرم اور دہشت گردی بھی دہرے معیار کی ہے گزشتہ چند دنوں میں کتنے لوگ پولیس مقابلوں میں مرے ، کتنے لاپتا اور غائب ہوئے لیکن ان کی بابت کسی کو بات کرنے اور پوچھنے کا بھی حق نہیں اس لیے کہ ان پر دو حرفی لفظ لاگو ہوتا ہے ، وہ ”دہشت گرد“ ہیں کس رو سے ، کس نے کہا ؟ ثبوت کیا ہے؟ اچھا آپ ثبوت بھی مانگیں گے، اس کا مطلب ہے آپ بھی دہشت گردوں کے حامی ہیں، کیوں نہ آپ کے ساتھ بھی پولیس مقابلہ ہو جائے،ذرا پتا تو چلے آپ کتنے پانی میں ہیں۔


کچھ لوگوں کا کہنا ہے: ”جو بھی قانون ہاتھ میں لے اس کو سزا ملنی چاہیے، چاہے کوئی بھی ہو کیسا بھی ہو“ کیوں بھئی آپ ہوتے کون ہیں مشورے دینے والے، آپ کو بھلا یہ حق کس نے دیا ہے ، یاد رکھیں یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے کہ کس کو ملزم کہا جائے کس کو مجرم مانا جائے ، کس مجرم کو سزا دی جائے اور کس کو تاج پہنائے جائیں ۔
کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں پھانسی کی بابت دہرا معیار نہیں ہو سکتا ؟ بڑے ہی بھولے بھالے لوگ ہیں ایسا سوچنے والے، ٹھیک ہے پھانسی کی سزا عدالت نے جس کو بھی سنائی ہو لیکن پھانسی دینا حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے ، اس نے طے کرنا ہے کس کو پھانسی دی جائے اورکس کو فقط پھانسا جائے ،کس مخالف کواعزاز دیا جائے اور کس اتحادی کو بس جھانسا دیا جائے، یہ امور مملکت ہیں ان کو ہر ایرا غیر نہیں سمجھ سکتا، اس وقت یہ اسی کی سمجھ میں آئے گا جو ”میاؤں میاؤں “ کرے گا ، کبھی ہر چیز بے نظیر ہوتی ہے کبھی ہر چیز میاؤں کی ہوتی ہے، اگر آپ میاؤں ہی نہیں کر سکتے تو اور کیا تیر ماریں گے بھلا، آپ تو فارغ ہیں سائٹ پہ ہوجائیں یا سائڈ پہ۔

بیچوں بیچ رہیں گے تو مارے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :