غریبی کا مزا

بدھ 14 جنوری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

گاوٴں تھا، پہاڑ تھے،سرسبز کھیت تھے اور ان کھیتوں میں چرتے ہوئے خوبصورت جانور تھے ۔ہر طرف سبزہ تھا، ہری بھری فصلیں تھیں ، فصلوں کے اندر سے گزرتی، لہراتی اور بل کھاتی پگڈنڈیاں تھیں اور دور افق تک پھیلے ہوئے سر سبز کھیت تھے۔ گاوٴں دیہات انسانوں کے لیئے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں،گاوٴں دیہات کسی بھی قوم اور تہذیب کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں ، آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آج تک دنیاں میں جتنی بھی تہذیبیں ابھریں ان سب کا مرکز کوئی نہ کوئی گاوٴں یا دیہات ہوا کرتا تھا، آدھی دنیا پر حکمرانی کرنے والی تہذیبوں کا آغاز بھی کسی ایک چھوٹے سے گاوٴں یا دیہات سے ہوا کرتاتھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تہذیب دنیا پر چھاجاتی تھی۔

آج تک دنیا میں تقریبا چوبیس نامور تہذیبوں نے جنم لیاہے اور ان تمام تہذیبوں کاآغاز کسی گاوٴں یا دیہات سے ہواتھا۔

(جاری ہے)

تہذیب کیسے وجود میں آتی ہے؟ تہذیب کی ابتداء کاشتکاری سے ہوتی ہے ، دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں ابھریں سب نے کاشتکاری کی کوکھ سے جنم لیا ، پہلے زمانے میں لوگوں کا نظریہ ء رہائش خانہ بدوشوں سے ملتا جلتا تھا، قبیلے کے قبیلے ہمہ وقت سفر میں رہا کرتے تھے، جہاں پانی نظر آیا وہیں ڈیرے ڈال دیئے،خیمے لگائے،بیل جوتے پانی نکالا اور کاشتکاری شروع کر دی ،قبیلہ بڑھا ،بیاہ شادیاں ہوئیں اور آہستہ آہستہ وہیں سے ایک ملک اور ایک نئی تہذیب نے جنم لیا۔

آپ مصری تہذیب کو دیکھ لیں ،مصری تہذیب نے دریائے نیل کی وادی میں جنم لیا، کیوں ؟ کیوں کہ دریائے نیل ان کی پانی اور کاشتکاری کی ضروریات کو پورا کر سکتا تھا، سمیری،بابلی،آشوری اور کلدانی تہذیبوں نے دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان جنم لیا کیوں کہ یہ دریا ان کی پانی کی ضروریات کو پوراکر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تہذیب کے اتار چڑھاوٴمیں کسان کو اہم مقام حاصل ہوتا ہے ،کسان کسی بھی تہذیب کا پیشوا اور امام کہلاتا ہے ،آپ آج بھی دیکھ لیں آپ کو اپنی اصلی تہذیب کسانوں کے گھروں میں نظر آئے گی، آپ لاہور ،کراچی ،اسلام آباد میں اپنی تہذیب ڈھونڈنا چاہیں بھی تو نہیں ڈھونڈ سکتے لیکن آپ کسی بھی گاوٴں دیہات میں چلے جائیں اورکسی کسان کے گھر میں بیٹھ جائیں آپ کو اپنی پوری تہذیب باالکل جوان نظر آئے گی۔

آپ کو گاوٴں دیہات میں آج بھی مٹی کے برتن، دیسی گھی،دیسی غذائیں،عمارتوں کا ڈیزائن،مٹکے،دیہاتیوں کا لباس،طرز زندگی،ڈھور ڈنگر اور بغیر شلوار قمیص گلیوں میں گھومتے ہوئے بچے آپ کو آج بھی نظر آئیں گے۔ گاوٴں دیہات کی شفاف اور ترو رتازہ آب وہوا اور خالص غذائیں انسانی صحت کے لیئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں ،ہمارے ہاں یہ تصور عام ہے کہ بچوں کو پرورش کے لیئے شہروں میں بھیج دیا جاتا ہے حالانکہ ابتدائی سالوں میں بچوں کو گاوٴں میں ہی رہنا چاہئے تاکہ وہ اپنی اصل تہذیب اور ثقافت سیکھ سکیں،شاید یہی وجہ ہے کہ اماں حلیمہ بھی آپ ﷺ کو اپنے ساتھ گاوٴں لے گئیں تھیں تا کہ آپ عرب کی اصل تہذیب،ثقافت اور زبان سے آشنا ہو جائیں۔


ہم واپس آتے ہیں ، گاوٴں تھا،سر سبز کھیت تھے اور کھیتوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی ایک نہر تھی، گاوٴں کے اکثر لوگ مالدار،امیر اور جاگیر دار تھے،گاوٴں کا ہر فردبڑی بڑی جاگیروں اور حویلیوں کا مالک تھا، ہر جاگیر دار کے پاس ڈھور ڈنگر تھے، گھروں میں غلے سے بھری کو ٹھریاں تھیں، ریشمی سوٹ اور مہنگے ترین بستر تھے، زندگی کی ہر سہولت میسر تھی اور زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی ۔

اسی گاوٴں کے ایک کونے پر ایک غریب بڑھئی رہا کر تا تھاجس کے گھر میں سوائے غریبی کے اور کچھ نہیں تھا، گاوٴں کے لوگ اسے طعنے دیتے ، اس سے کام بھی لیتے اور اس کا مذاق بھی اڑاتے ، جاگیر داروں کے بیٹے جب اس بوڑھے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ، بڑھئی کے دوبیٹے تھے اور وہ بھی اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ کام میں مگن رہتے اور اپنے بوڑھے باپ کا ہاتھ بٹاتے۔

بوڑھا بڑھئی چوبیس گھنٹے کام کرنے کے باوجود بھی بمشکل اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا، غریبی نے اس کے گھر عقاب کے مضبوط پنجے گاڑ دیئے تھے جو نہ ٹو ٹتے تھے اور نہ ہی اکھڑتے تھے۔ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی، اچانک ایک دن سیلاب آگیا ، پانی نے زور پکڑا ،سارا گاوٴں سیلاب کی زد میں تھا،گاوٴں کے لوگ اپنا سامان سمیٹنے میں مشغول ہو گئے، غلہ،برتن،کپڑے ، بستر اور نہ جانے کیا کیا، گاوٴں کے سارے جاگیر دار اپنا قیمتی سامان اور کپڑے بستر سنبھالنے میں مصروف تھے، بوڑھے بڑھئی نے ایک ہاتھ میں حقہ پکڑا ، دوسرے ہاتھ سے دونوں بیٹو ں کا ہاتھ پکڑا اور چپکے سے نہر کے کنا رے چلتا ہوا گاوٴں سے نکل گیا ، گاوٴں کے سارے جاگیر دار اپنا سامان سمیٹنے میں مصروف تھے اور پانی ان کے سروں تک پہنچ چکا تھا، بوڑھا بڑھئی کنارے کنارے چلتا گاوٴں سے باہر نکلا ،واپس پلٹ کرگاوٴں کی طرف دیکھا اور ایک تاریخی جملہ کہا:”آج غریبی نے پہلی مرتبہ مزا دیا “بوڑھا بڑھئی اپنے بچوں سمیت بچ گیا تھا لیکن گاوٴں کے سارے جاگیر دار پانی کی زد میں تھے۔


ہم انسان بھی عجیب ہیں ، ہمیں اللہ جتنا بھی دے دے ہم اس پر راضی نہیں ہوتے، ہمارے پاس قارون کا خزانہ بھی آجائے تو ہم اور کی طلب میں لگ جائیں گے، ہمیں وارن بفٹ اور بل گیٹس کے سارے ڈالر بھی مل جائیں تو ہماری ہوس اور بڑھ جائے گی، ہماری ہوس کو قبر کی مٹی بھر سکتی ہے یا جہنم کی آگ۔ ہم سارادن پیسے اور دولت کے لیئے جانوروں کی طرح بھاگتے ہیں ،آپ ایک لمحے کے لیئے اپنی روز مرہ کی روٹین پر غور کریں اور پھر خود سے سوال کریں میں سارا دن گدھوں کی طرح کیوں کام کرتا ہوں ؟ہم دولت کے حصول کے لیئے دن رات پاگلوں کی طرح کام کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے دولت کتنا بڑا عذاب ہے ، جس کے پاس جتنی ذیادہ دولت ہے وہ اتنا ذیادہ بے چین ہے ، جس کو اللہ نے جنتا ذیادہ دیا ہے اس سے حساب بھی اتنا سخت ہو گا ،۔

جس بیچارے غریب کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے تو اس کا حساب بھی صرف ایک روٹی کا ہوگا۔ ہمارے ہاں اکثر گھریلوں لڑائیاں غربت کی وجہ سے ہوتی ہیں ،ہم ہر وقت غربت غربت کا رونا روتے رہتے ہیں اور ہر وقت خدا کی ناشکری کرتے رہتے ہیں حالانکہ غربت بھی اللہ کی ایک نعمت ہے ، اللہ ہمارے حالات کو ہم سے بہتر جانتا ہے ، وہ جانتا ہے کس کو کتنا دینا ہے اور کس کو کتنا، لیکن ہم ہیں کہ ہر وقت خود کو کوسنے اور اللہ کی ناشکری میں لگے رہتے ہیں ۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہر وقت غربت غربت کا رونا رونے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ میرے آقا نے فرمایا تھا میرے امت کے غریب لوگ امیروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے ، اور ایسے پانچ سو سال جن کا ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہو گا۔ بھائی میں تو اس بڑھئی کا فین ہوں جس نے نہر کنارے چلتے چلتے کہا تھا”آج غریبی نے زندگی میں پہلی بار مزا دیا ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :