نام نہاد بھارتی جمہوریت!

بدھ 14 جنوری 2015

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے صوبہ آگرہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت کو توتقسیمِ راشن کے نام پر ہندو ازم قبول کرنے اور مذہبی عبادات کی ادائیگی کی تقریب میں مدعو کیا گیاجہاں زبردستی انکا مذہب تبدیل کروایا گیا ۔ ان مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انکو یہ بات معلوم نہ تھی کہ انکے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے۔مبینہ طور پر مذہب بدلنے کی تقریب میں شامل ہونے والے افراد میں سے ایک رمضان شیخ کہتے ہیں کہ راشن کاردڈکی تقسیم کے نام پر انکے ساتھ دھوکہ کیا گیا ۔


دید نگر بستی سے تعلق رکھنے والی منیرا بیگم کا کہنا ہے کہ راشن کارڈ و دیگر سہولیات فراہم کرنے کا لالچ دیکرہندوں رہنماؤں نے انہیں اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ اس خاتون کے مطابق تقریب میں راشن کارڈکے نام پر بلائے گئے تمام مسلمانوں سے زبردستی ہندؤں کی مذہبی رسومات کو ادا کر وایا گیا ۔

(جاری ہے)

مثال کے طور پر ماتھے پر تلک لگایا گیا اور آگ میں گھی ڈالنا وغیرہ وغیرہ۔


مسلمانوں کے اس گروہ میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ ان سب رسومات کے بعد ہندوں رہنماؤں نے تمام مسلمانوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ ہندوں ہو چکے ہے۔بات یہیں نہیں رکی بلکہ مسلمانوں کی جماعت کے امیر کے ہاتھ میں مورتی تھما کر ثبوت کے طور پر اسکی تصویر بھی لی گئی۔اس واقعہ کے بعد مسلمانوں نے احتجاج تو کیا مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔ نہ کسی سیاسی ہندو جماعت نے مسلمانوں کا رونہ سنا تو نہ ہی کسی مذہبی گروہ کو انکی داد رسی کا خیال آیا۔


مگر قابلِ افسوس اور شرمناک بات یہ ہے کہ اس کھلم کھلی بد معاشی کے بعد بھی ہندوستانی حکومت اس طرح اکڑی بیٹھی ہے کہ جیسے انہوں نے کبھی کوئی غیر اخلاقی حرکت کی ہی نہ ہو۔انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک طرف اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت جسمے میں گزشتہ سال ۰۰۰۳ مارٹر گولے پاکستانی علاقوں میں فائر کئے گئے جو جہ ۰۷ افراد کی شہادت کا باعث بنے ۔

یہ وہ واقعات ہیں جودر اصل ہندوستان کی بیمار سوچ کے عکاس ہیں۔ اس ساری صورتِ حال کے تناظر میں یہ بات تو طے ہے کہ بھارت جمہوریت کے نام پر غنڈہ گردی کر رہا ہے اور کم از کم کاتبِ حروف کے فہم سے بالا تر ہے کہ ایک طرف ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوری طاقت ہونے کا دعویدار ہے جبکہ وسری جانب خود ہی جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑائے جا رہاہے ۔ نام نہاد ہندوستانی جمہوریت میں اقلیتی برادری کے حقوق کو جس انداز میں کچلا جا رہا ہے اس پر آمریت بھی شر ما جارہی ہے۔

کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟
اور دوسری جانب ان معاملات میں عالمی برادریکا رویہ جانب دار ہے جو کہ بھارت کی ایسی کئی حرکتوں پر خاموش بیٹھی ہے۔ اور انکی یہ مجرمانہ خاموشی انکے ارادوں کی مظہر ہے۔دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی مسلمان غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس پر تو سارے عالمی ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور ساری دنیا کے رہنماء اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

مگریہ جو ہندوستان کی جانب سے تسلسل کیساتھ بدمعا شی جاری ہے اسکا کون نوٹس کون لے گا؟رنگ و نسل، علاقہ اور مذہب کی بناء پر کب تک متعصب ڈرامہ جاری رہے گا؟
میں پوچھتا ہوں یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں؟ یہ کیسی امن پسندی ہے جسمیں اقلیتوں کیلئے دائرہ حیات تنگ سے تنگ تر ہو تا جا رہا ہے؟یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ زبردستی لوگوں کے مذاہب تبدیل کرائے جارہے ہیں؟ عالمی ادارے اس بھارتی شدت پسندی پر کیوں خاموش ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ بھارت کو اسکی مذموم حرکتوں پہ متنبہ نہیں کیا جا رہا ؟لہذا ان حالات میں یہ بات تو طے ہو چکی کہ خطے میں نقصِ امن میں بھارت اور اس کے ہم نواؤں کا پورا پورا ہاتھ ہے اور اوریاد رکھئے امن کے ان ٹھکیداروں کو یہ اب یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اگر یہی رویے رہے تو دنیا میں قیامِ امن ایک خواب بن کر رہ جائے گا ور اس ذمہ دار یہی لوگ ہوں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :