پولیس اور عوام میں محبت کے رشتے کو فروغ دینے کی ضرورت

پیر 12 جنوری 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

میاں صاحب کا شمار میرے ان چند بزرگ دوستوں میں ہے جو میرے کالموں کو با قاعدگی سے پڑھتے اوران کی فیڈ بیک بھی دیتے ہیں۔ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ،کیسے ہونا چاہئے اور کیا،یہ کیوں لکھا اور یہ کیوں نہیں ،اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کے قیمتی مشوروں سے نوازتے اور اصلاح فر ماتے رہتے ہیں۔یہ بھی بعض دوسرے حساس پاکستانیوں کی طرح ملک کے حالات اورہر جگہ کرپشن، حرام خوری اور ظلم و زیادتی کے تعفن سے بچتے ہوئے کینیڈا میں مقیم ہیں ۔


میاں صاحب بالخصوص میرے پولیس پر لکھے گئے کالموں پرملک میں جاری ”پولیس گردی“ کو جواز بناتے ہوئے مجھے ہمیشہ شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ یہ ہمیشہ مجھے پولیس کی بد معاشی،محکمے کے لوگوں کو سر تا پا کرپشن کی گنگا میں نہاتے ،رشوت لے کر بے گناہوں کو گنا ہ گاراور گنا ہ گاروں کو بے گناہ قرار دیتے،شریف شہریوں کے ساتھ انتہائی گندی زبان کا استعمال اور اپنے آپ کو زمین کا خدا تسلیم کر نے والے لوگوں کے حق میں لکھنے پر منع کرتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


میں ان کے اس اختلاف کو دل سے قبول کر تا اور عرض کرتا ہوں کہ میاں صاحب!آپ کے تمام تر اختلافا ت بجا لیکن یہ لوگ بھی ہمارے اپنے ہیں، یہ بھی اسی مٹی سے بنے ہیں جس سے میں اور
آ ٓپ تخلیق ہوئے ہیں ۔ہم ان کی اصلاح نہیں کریں گے ، ہم ان کے ساتھ محبت والا معاملہ رواء نہیں رکھیں گے تو ان کی نفرتوں میں مزید اضافہ ہو تا چلا جائے گا اور پھر میں امین وینس،حیدر اشرف اور ایاز سلیم جیسے کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ہر لالچ و حرص سے آزادہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔

جو لوگوں کی دادرسی کے لئے صبح سے شام اپنے دفتر میں موجود ہوتے ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر نے کی اپنی سی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
میں ہمیشہ انہیں حکیم لقمان  کانسخہ سناتا ہوں جب وہ اپنے شاگردوں میں موجود تھے تو فرماتے ہیں کہ میں نے ہزاروں مریضوں کا معائنہ کیا ،بے شمار لوگوں سے ملا اور اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہر شخص کی ہر بیماری کا علاج اس کو محبت کرنے اور عزت دینے میں ہے۔

محفل میں موجود ایک شاگرد نے سوال اٹھایا کہ اے استاد محترم ! اگر پھر بھی مریض کو افاقہ نہ ہو تو؟ استاد لقمان نے فر مایا کہ پھر اس دواء کی مقدار دوگنی کردو۔ لہذا میں حکیم لقمان  کے اسی نسخہ ء کیمیا پر عمل کرتے ہوئے پولیس والوں کے ہر اچھے اقدام کی تعریف کر تا اور ان کے ہر بُرے عمل کو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان کر تا ہوں ۔ میاں صاحب میری اس بات کو ایک کان سے سُنتے او دوسرے کان سے نکالتے اللہ حافظ کہتے ہوئے فون بند کر جاتے۔


گذشتہ دنوں میاں صاحب کی کال ریسیو ہوئی ، لیکن اس دن انہوں نے میرے کالم پر بات کر نے کی بجائے لاہور پولیس کے ایک ڈی۔ایس ۔پی رانا غلام عباس کے انسان دوست روئیے پر اِنکی تعریفوں کے پُل با ندھنا شروع کر دئیے۔ اپنے ایک قریبی عزیز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے اور پولیس والوں کے سلوک نے میاں صاحب کے سالوں سے پولیس والوں کے بارے منفی خیالات کو مثبت میں تبدیل کر دیا تھا۔

ان صاحب کے ساتھ پیش آنے والے واقعے جب اسے ِاس کی رپورٹ کے لئے اسے متعلقہ ڈی۔ایس۔پی رانا غلام عباس کے جا نا پڑا تو انہوں نے بغیر کسی سفارش کے کمال محبت کا مطاہرہ کرتے ہوئے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ نہ صرف ان کی بات سُنی بلکہ فوری طور پر انکے مسئلے کے فوری حل کے لئے احکامات بھی صادر کئے۔
قارئین ! ماضی کے برعکس پچھلے سالوں میں محکمہ پولیس کے نئے افسران بشمول سی۔

سی۔پی۔او لاہور امین وینس، ڈی۔آئی۔جی ڈاکٹر حیدر اشرف اور حالیہ تعینات ہو نے والے ایس ۔ایس۔ پی انوسٹی گیشن ایاز سلیم نے محکمے کی کالی بھیڑوں کو کھڈے لائن اور نیک اور ایمان دار افسران کو فیلڈ میں لگانے کی کوشش کی ہے۔محکمے کے افسران اور ملازمین کو سائلین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے اور ان کی داد رسی کر نے کے سخت احکامات جاری کرنے کے ساتھ باقاعدگی سے انسپکشن بھی کی جارہی ہے۔

تھانوں میں ایڈمن افسران کی تعیناتی،مسجدوں میں ہر جمعے کے بعد افسران کی کھلی کچہریوں،شہریوں کی درخواستوں پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے کرپٹ پولیس اہلکاروں کے خلاف ایکشن (تھا نہ لیاقت آباد کے ایس ۔ایچ۔او کی معطلی جس کا ثبوت ہے) قابل تحسین ہے۔
جرائم کے خاتمے کے لئے میں سمجھتا ہوں پورے ملک میں صرف پنجاب پولیس اور بالخصوص لاہور پولیس ہی سر گرم نظر آتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سا ل 2014میں لاہور پولیس نے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں ملوث 18خطر ناک دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا یا جبکہ 47845جرائم پیشہ افراد سے 74کروڑ45لاکھ کا مال مسروقہ اور اسلحہ برآمد کیا ہے۔
انوسٹی گیشن ونگ کا قبلہ درست کر نے کے لئے رانا ایاز سلیم جیسے متحرک شخص کی تعیناتی یقینا ایک قابل تعریف اقدام ہے ۔

مجھے امید ہے کہ یہ بہت جلد محکمہ پولیس کے ماتھے پر” کلنگ“ ملنے والے تفتیشی افسروں و اہلکاروں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرتے ہوئے یہاں بھی ایمان دار اور انسان دوست لو گوں کو تعینات کرتے ہوئے محکمے کی نیک نامی میں اضافہ کر نے کا باعث بن سکتے ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جس کے لئے عملی اقدامات بھی شروع کر دئیے گئے ہیں
قارئین محترم !ہماری طرح پولیس والوں کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے ، ان کے بھی احساسات اور جذبات ہیں، یہ بھی ہماری طرح اپنے اچھے کام پر تعریف چاہتے ہیں ۔

لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ان کے کسی اچھے اقدام پر تعریف کے دو بول بولنے کی زحمت تو گوارہ نہیں کرتے جبکہ ان کے خلاف نفرت کے ایسے ایسے جملے ان کی زبانوں سے نکلتے ہیں کہ جس کی وجہ سے پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کم ہو نے کی بجائے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ آج جبکہ دہشت گردی کی عفریت کے خلاف عوام متحد ہو چکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان ان فاصلوں کو کم کیا جائے ۔افسران اپنے ماتحتوں کو عوام کے ساتھ محبت سے پیش آنے اور معززین شہر عوام کو پولیس کے ساتھ تعاون کر نے کی مشترکہ جدو جہد کے ذریعے اس مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :