دہشتگردی،انتہاء پسندی اور قومی ذمہ داری

ہفتہ 10 جنوری 2015

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

ملٹری کورٹس کی تشکیل سے متعلق 21ویں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی اور سینٹ سے متفقہ منظوری کے بعد وطن عزیز کی بقاء، سلامتی اور استحکام کی جنگ شروع ہو چکی ہے یہ جنگ ان دہشت گردوں کے خلاف ہے جو پچھلی ایک دہائی سے ریاست پاکستان کو اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں سے کمزور کرنے کی گھناؤنی اور مکروہ سازشوں میں مصروف ہیں قوم پر اپنی مسلّط کردہ اس جنگ میں انہوں نے تمام اخلاقی،انسانی اور مذہبی قدروں کو بھی پامال کر دیا ہے اس قراد کی جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام نے مخالفت کی ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کے اباؤ اجداد تحریک پاکستان کی جدوجہد میں ہمارے اسلاف کے مخالف سمت میں تھے اور آج یہ استحکام پاکستان کی جنگ میں ملک و قوم کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہیں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی ان جماعتوں نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کو ملک و قوم سے زیادہ دہشت گرد اور انتہا پسند عزیز ہیں قیام پاکستان کی تحریک کو ہمارے بزرگوں نے قائد اعظم  کی قیادت میں تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود منزل تک پہنچایا تھا اور استحکام وطن کی جنگ کو ہم نے بحثیت قوم متحد ہو کر جیتنا ہے کوئی جنگ کوئی معرکہ کوئی تحریک عوامی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کی جیت کا تصور کیا جا سکتا ہے وزیر اعظم نو از شریف نے کہا ہے کہ ہم دو سالوں میں ملک کو دہشت گردی کے اس گند سے صاف کر دیں گے جس سے پاکستان میں امن اور استحکام آئے گا اور ہر شہری کی جان و مال ،عزت و آبرو محفوظ ہو گی ہمارے بچے بغیر کسی خوف اور دہشت کے آزادی کے ساتھ سکول جا سکیں گے فوج کے سپہ سالار جنرل را حیل صاحب نے بھی قوم کو یقین دلایا ہے کہ ہم اس پا ک سر زمین کو دہشت گردوں ،انتہا پسندوں اور ملک دشمن طاقتوں کے نا پاک وجود سے پاک کر دیں گے لہذا ان غیر معمولی حالات میں قوم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے تما م تر اختلا فات کو بالائے طاق رکھ کر ان دہشت گردوں کے خلاف حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائے جنہوں نے قربانیوں سے حاصل کئے گئے اس پاک وطن کو معاشی ،اقتصادی اور سیاسی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جن کی خون آشام وارداتوں سے نہ کوئی گھر محفوظ ہے نہ کوئی محلّہ ،نہ کوئی شہر نہ کوئی قریہ،نہ کوئی قصبہ نہ کو ئی گاؤں ،نہ کوئی شاہراہ نہ کوئی رستہ ،نہ چوک نہ چوراہا،نہ سکول نہ کوئی مسجد ،نہ کوئی خانقاہ نہ کوئی امام بارگاہ،نہ مند ر نہ چرچ غرض وطن عزیز کا چپہ چپہ ان خونی درندوں کی وحشت و بر بریّت کی داستاں سنا رہا ہے ان انسان نما خونی بھیڑیوں نے ظلم و ستم اور وحشتّ و دہشت کی ہر شق کو پاکستان قوم پر مسلّط کر دیا ہے ہر آدمی خوف کے سائے میں زندگی بسر کر رہا ہے کسی ماں کو نہیں معلوم کہ اس کا بچہ سلامتی سے گھر واپس لوٹ آئے گا کسی بیٹے کو نہیں معلوم کہ محنت مزدوری کے لئے جانے والا اس کا باپ شام کو خیریت سے لوٹ پائے گا شہر میں ہر طرف نفرت کی بو پھیلی ہوئی ہے بارود کے ڈھیر ہیں اسلام کے ٹھیکے دار قتل کے فتوے جاری کر رہے ہیں ہر دوسرے مسلک والے کو کافر گردان کر اس کی گردن زنی کی تبلیغ ہو رہی ہے بقول جلیل حیدر لاشاری۔

(جاری ہے)


کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہر سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے
اک بارود کی جیکٹ اور نعرہ تکبیر
راستہ خلد کا آسان ہو ا پھرتا ہے
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
سولہ دسمبر کو ان کی درندگی اور سفّاکی کا نشانہ بننے والے معصوم بچوں کے غم میں انسانیّت ابھی تک سکتے کے عالم میں ہے مگر اس دردناک سانحہ کے بعد بھی ان علماء کی آتماں جاگی ہے نہ ہی ان کے مردہ ضمیر متحرک ہوئے ہیں جو ابلیس کے ان چیلوں کی متشدّدانہ کاروائیوں کو جائز ثابت کرنے کے لئے مذہبی جواز تلاش کرتے ہیں ایسے میں قوم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو جو دہشتگردی کی کسی بھی کاروائی میں ملوث ہیں اپنے سماج ،سوسائٹی اور محلے میں گھسنے نہ دیں ان علماء اور مولویوں کی حوصلہ شکنی کریں جو اسلام کے مقدس نام پر مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں جن کا منبر رسول پر خطاب اور ہوتا ہے اور منبر رسول کے پیچھے ان کا کردار اور ہو تا ہے ہمارامذہب سلامتی ،امن و آشتی،محبت ،اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے مگر اسلام کے نام پر فساد بپا کرنے والوں نے ہمیں (یعنی پاکستانیوں)اور ہمارے دین مبین کو پوری دنیا میں دہشت گرد بنا دیا ہے پوری دنیا میں پاکستان کا وقار خاک میں مل چکا ہے اب ہر پاکستانی شہری کو ان ملک دشمنوں اور قتل انسانی کے گنہگاروں کو نیست و نابود کرنے کے لئے اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہیے
خواہش سے نہیں گرتے پھول جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے ہم وطنوں ہلانا ہو گا
کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا
قوم کو یاد رکھنا ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو ہر حال میں ہمیں جیتنا ہے کیونکہ یہ جنگ ہماری آنے والی نسلوں کی بقاء ،سلامتی اور تحفظ کی جنگ ہے اس کی کامیابی میں ہی ہماری آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی نوید ہے ۔


اس امید کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں۔
امن کا سورج پھر طلوع ہو گا میرے دیس میں
مہمان ہے ظلم کی رات کچھ دیر کی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :