2014کا‌کشمیر…اُمیدں بر آئیں نہ ارماں ہوئے پورے!

ہفتہ 10 جنوری 2015

Sareer Khalid

صریر خالد

کاش کہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کیGraphic Languageکسی سماج،با الخصوص جموں و کشمیر جیسے حساس و پیچیدہ علاقہ،کے زمینی حقائق کو صحیح معنوں میں بیان کر پاتی تو گئے سال کے کشمیر کو پریشانیوں کے بھنور سے نکلتے ہوئے محسوس کیا جا سکتا تھا۔اعدادوشمار کی سرکاری زُباں مگر بہر حال زمینی حقائق کی اصل عکاسی نہیں کر سکتی ہے اسلئے یہ کہنا کہ گیا سال کسی بھی طرح کشمیریوں کے لئے کوئی خاص بدلاوٴ لے آیا ہو منطقی اعتبار سے غلط قرار پائے گا۔

ہاں…تشدد کی جس اسکیل پر اس خطہٴ بد نصیب کی ”خوشحالی یا بد حالی“کو ماپے جانے کا رواج چل پڑا ہے اُس میں کسی حد تک کمی آ گئی ہے تاہم خود سرکاری اداروں کے پیش کردہ اعدادوشمار بھی اِس بات کو نکارنہیں سکے ہیں کہ خونریزی و مارا ماری کا سلسلہ جاری ہے۔

(جاری ہے)

پھر اضافی طور صدی کے بد ترین سیلاب نے اہلِ کشمیر کو اُس تباہی سے دوچار کرادیا ہے کہ جسے مٹانے کی چاہے کتنی ہی کوششیں کیوں نہ ہوں لیکن اِسکے آثار مدتوں قائم رہتے ہوئے گئے سال کی ڈراونی یادوں کو ”امر“کئے رکھیں گے۔


نئے سال کا کسی نے جشن منایا ہو یا نہیں لیکن دُنیا بھر کی دیواروں سے 2014ئکے کلینڈر اُتر کر ردی ہوگئے ہیں جبکہ اِنکی جگہ 2015ئکے نئے کلینڈر اِدیواروں کی زینت ہو گئے ہیں ۔ظاہر ہے کہ گئے سال کے ساتھ وہ اُمیدیں بھی ختم ہو گئی ہیں کہ جنکے اِسکے رہتے بر آنے کی توقع نہ جانے کتنے لوگوں کے لئے سامانِ زیست کی طرح تھا۔فطرت سے بغاوت یا انکار چونکہ ممکن نہیں ہے لہٰذا باقی دُنیا کے ساتھ ساتھ کشمیریوں نے بھی اپنی دیواروں پر نیا کلینڈر لٹکا کر اِس کے ہر ورق کے ساتھ نئی اُمیدیں قائم کر لی ہیں لیکن کیا نئے سال کے اپنے اختتام کی جانب بڑھتے رہنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی یہ Refreshedاُمیدیں بر بھی آئیں گی یہ ایک صبر آزما سوال ہے کہ جسکا جواب دینا رواں سال کے پوری طرح چھوٹ جانے تک ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔

پھر کشمیری عوام کی یہ بھی ایک مجبوری ہے کہ انہیں نئے سال کے کلینڈر کے ساتھ ساتھ گئے برسوں کی جانب سے ”وراثت“میں ملتی رہی ”خدشات و تشویش“کی وہ گٹھری بھی قبول کرنا پڑتی ہے کہ جس پر لگی گانٹھ سال کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ ڈھیلی پڑنے لگتی ہے اور عوام کے خدشات عملی طور ”خونین رقص“کرنے لگتے ہیں۔حالانکہ گئے سال کے دوران اِس سے قبل کے برسوں کی طرح کشمیر کے گلی کوچوں میں ،پہلے کی طرح،وہ خونی رقص جاری نہ رہا کہ جس کے تصور سے بھی کمزور دل رکھنے والا عام آدمی دہشت زدہ ہو جاتا ہے تاہم جب ایک عام کشمیری گئے ماہ و سال کا حساب کرنے لگتا ہے تو اسے اپنی اُن اُمیدوں میں سے بہت زیادہ پوری ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہیں کہ جنکے ساتھ وہ بیتے سال کی گاڑی میں سوا رہو چکا تھا۔


جموں و کشمیر میں پُر تشدد واقعات میں اس حد تک کمی ہونا کہ اِسکے بارے میں بات کرنے والے کو کسی تردید کا خوف نہ ستائے،اب پُرانا ہو رہا ہے اور اِس میں ہر گز کوئی نئی بات نہیں ہے۔چناچہ زائد از نصف دہائی کا وقت گذارا ہے کہ جب سے جموں و کشمیر میں ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور وہ یہ کہ ”آزادی“کے مطالبات کے اپنی جگہ بر قرار رہنے کے باوجود ”آزادی پسندوں کی بندوق“کا جارحانہ کردار بہت حد تک ختم ہو گیا ہے۔

گذشتہ کئی سال سے چلی آرہی یہ نئی صورتحال وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اور بھی زیادہ نمایاں ہوتے محسوس ہر رہی ہے اور 2013ئکی ہی طرح گئے سال بھی یہ صورتحال مزید واضح ہوتے دکھائی دی۔سرکاری حلقوں کی جانب سے ”امن کی بحالی“کے بطور مشہور کرائی جا رہی اس صورتحال کو 2008ئسے2010ئتک کی غیر متوقع اور حیرانکن عوامی مزاحمت نے یکسر بدل دیا اور پھر اتنی ہی حیرانگی کے ساتھ 2011ئکا ”پُرامن“گذر ہوا۔

سال 2012کی شروعات پر وادیٴ کشمیر کے لوگوں یا امورِ کشمیر کے ساتھ ”دلچسپی“رکھنے والوں کے سامنے یہ سب سے بڑا سوال تھا کہ آیا کئی سال کی افراتفری کے بعد جموں و کشمیر کو 2011میں جو” امن “نصیب ہوا تھا وہ اس سال بھی جاری رہ پائے گا یا نہیں۔ 2012کے اختتام پر سرکاری حلقوں کی جانب سے مذکورہ بالا سوال کے جواب میں ایک فخریہ ”ہاں“کی تشہیر کی اور اب2014ئکے بارے میں بھی اس حلقے کا کچھ اسی طرح کا گمان ہے۔

حالانکہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ آیا کشمیر کے گذشتہ چند ایک سال کی صورتحال کو امن کی اصطلاح سے بیان کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟۔بحالیٴ امن و خوشحالی کی سُریلی صداوٴں کے بیچ گذرے اِن سال ہائے رفتہ کے دوران اُبھرنے والی کشمیر کی تصویر بلا شبہ مقابلتاََ خوشنما ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس پر نہ صرف خونِ ناحق کے دبے نظر آئیں گے بلکہ یہ تصویر انسانی حقوق کی پامالی،تشددانہ واقعات،سیاسی کرپشن کی بد ترین مثالوں،مظلوموں کے آنسووٴں اور اس طرح کی دیگر بے انصافیوں کے ایسے نشانات سے بھری پڑی ہے کہ جنہیں 11/لاکھ سیاحوں کی کشمیر آمد اور پارلیمانی و اسمبلی کے انتخابات کے پُر امن انعقادسے متعلق رنگین لکیروں سے بنے گراف کے سائے میں دھندلا کیا گیا ہے۔


جموں و کشمیر میں سالِ رفتہ کے دوران ہوئے جنگجوئیانہ حملوں اور گوریلاوٴں کی دیگر سرگرمیوں کو ہی معیار بنا کر بات کی جائے تو سرکار کی جانب سے اس حوالے سے کھینچے جارہے گراف کی نمائش کے با وجود بھی2014کوپُر امن سال کہنے پر حرف آتا ہے۔خود پولس اور سرکاری فورسز کی دیگر ایجنسیوں کے بیانات و اعداد وشمار کے مطابق 2014میں102/جنگجو مارے گئے ہیں جبکہ29/فوجیوں سمیت قریب پچاس سرکاری اہلکار بھی کام آئے ہیں۔

حالانکہ عوامی بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آنے کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ گئے سال کو پُر امن قرار دینے کا جواز پاتے ہیں لیکن خود پولس اور سکیورٹی کے دیگر اداروں کا یہ کہنا بھی زیر نظر رکھنا ہوگا کہ جنگجووٴں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی ہوئی ہے ۔پھر دلچسپی کی بات یہ بھی ہے کہ جموں و کشمیر میں جنگجوئیت کے محاذ پر آئی تبدیلی نئی نہیں ہے بلکہ جنگجووٴں کی طاقت میں انتہائی درجے کی کمی کئی سال پہلے سے ایک متواتر عمل کے بطور دیکھا جا رہا ہے۔

یہاں یہ بحث مقصود نہیں ہے کہ اس صورتحال کی وجہ پاکستان کا خود دہشت گردی کا بدترین شکار ہوکراپنی ”کشمیر پالیسی“کو بدل دیناہے ،لوگوں کا تشدد سے اُکتا جانا یا پھر سرحد کی تار بندی سے لیکر سکیورٹی ایجنسیوں کی اپنائی گئی کارگر حکمتِ عملی تک کے کئی خاص اقدامات البتہ اِتنا طے ہے کہ اب کئی سال سے کشمیری جنگجووٴں پر سرکاری فورسز کو ہر طرح سے دست بالا حاصل ہے ۔

ظاہر ہے کہ اِس حوالے سے سرکار گئے سال کے دوران ہی کوئی خاص پیشرفت حاصل کرنے کا دعویٰ کرے تو یہ حقیقت کے بعید ہوگا۔بلکہ اگر خود پولس کے اِس بیان کا تجزیہ کیا جائے ،کہ جس میں اِس نے گئے سال کے دوران 102/جنگجووٴں کے مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے،تو سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب جدید ہتھیاروں سے لیس اتنے جنگجووٴں کو سال بھر میں فورسز کے دوبدو پایا جائے تو پھر امن قائم ہی کہاں ہے۔

پھر جب شمالی کشمیر کے اوڑی علاقہ میں اور جموں کے کئی فوجی کیمپوں پر ہوئے جنگجوئیانہ حملوں کو خود فوجی ماہرین”پیشہ ورانہ“قرار دے رہے ہوں تو عددی اعتبار سے حملوں کے کم ہونے کے با وجود جنگجوئیت کے خاتمہ اور امن کی بحالی کا دعویٰ کہاں تک سچ مانا جا سکتا ہے؟۔
گو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گئے سال میں سرکاری فورسز کو ہوئے جانی نقصان میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن 2013ئکے اعدادوشمار کے ساتھ تقابلی جائزہ لیا جائے تو 2014ئبہت اچھا بھی نہیں گذرا ہے۔

چناچہ 2013ئمیں بھی کم و بیش اتنے ہی سرکار اہلکار جنگجووٴں کے ہتھے چڑھ کر ہلاک ہو گئے تھے۔پھر یہ بات بھی دلچسپی سے کم نہیں ہے کہ جہاں 2013ئمیں فوج یا دیگر سرکاری فورسز کی جنگجووٴں کے ساتھ38/جھڑپیں ہوئی تھیں وہیں 2014ئمیں اِس طرح کی51/جھڑپیں ہوئی ہیں حالانکہ اِس بات کا ایک مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ سرکاری فورسز اور بھی زیادہ کامیاب رہی ہیں اور یقیناََ اس بات کا یہی مطلب نکالا بھی جاتا ہے لیکن اِسی گراف کا ایک اور مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنگجووئیت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

یعنی ابھی جموں و کشمیر سے جنگجوئیت کا خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی سکیورٹی فورسز کے لئے جنگجو تنظیموں کو ا،س حد تک تھکا دینا ہی ممکن ہو سکا ہے کہ وہ خالی ہورہی کمین گاہوں کے لئے نئی کمک کا انتظام کرنے میں دقعتیں محسوس کرتے یا اِسے سعیٴ لاحاصل مان لینے پر مجبور ہو جاتے۔فوج کے ہی ایک اور سینئر افسر،15/ویں کور کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل سبوترا سہا نے حال ہی شمالی کشمیر کے سوپور علاقہ میں ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ سر حد سے کم از کم 160/جنگجودراندازی کی تاک میں تیار بیٹھے ہیں۔

پھر خود سرکاری اداروں کا کہنا ہے کہ جنگجووٴں کو در اندازی کرانے کی غرض سے سرحدوں پر ہونے والی جنگبندی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔اِس حوالے سے فوج کی شمالی کمان کے رابطہ افسرکرنل ایس ڈی گوسوامی کا حالیہ بیان چشم کُشا ہے کہ جس میں اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بیتے سال کے دوران حد بندی لکیر اور سرحد پر جنگبندی کی خلاف ورزی کے 562واقعات پیش آئے ہیں۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ فوج اور سکیورٹی کی دیگر ایجنسیاں مُدت سے یہ کہتی آرہی ہیں کہ پاک فوج کی جانب سے جنگبندی کی خلاف ورزی کا اصل مقصد جنگجووٴں کے تازہ دم جتھوں کو جموں و کشمیر میں داخل کرانا ہوتا ہے۔ کرنل گوسوامی کا دعویٰ ہے کہ ہندوپاک کے مابین 2003ئمیں جنگبندی کا معاہدہ ہونے کے بعد 2014ئمیں اب تک کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہوئی جس میں5/جوانوں سمیت کم از کم 19/افراد مارے گئے ہیں۔

بلکہ سرحدی حفاظتی فورس یا بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل ڈی کے پاٹھک کی مانیں تو 1971ئکی جنگ کے بعد بیتے سال میں سرحدوں پر اپنی نوعیت کی شدید گولہ باری دیکھی گئی ہے۔سال 2013ئمیں اِس طرح کے محض347/واقعات ہی پیش آئے تھے جن میں 12/افراد کی موت رپورٹ ہوئی تھی۔
ریاستی پولس کے چیف کے راجندرا نے نئے سال پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بیتا ہوا سال لوگوں کو احساسِ تحفظ کرا گیا ہے لیکن انسانی حقوق کے علمبردار ادارہ کولیشن آف سیول سوسائٹیز کا دعویٰ ہے کہ گئے سال کے دوران ریاست میں کم از کم 236/افراد تشدد کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

پولس کا دعویٰ ہے کہ فورسز کی دیگر ایجنسیوں سے ملکر اِس نے جنگجووٴں کو بھیڑ بھاڑ والے علاقوں سے دور دھکیل کر اُنسے وہیں جاکر نپٹنیکی اپنی حکمت عملی کو جاری رکھا ہے تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور ”کسی“کو اِنہیں بہکا کر حالات کو خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔لیکن پولس کی اِس ”احتیاط“کے با وجود بھی سرینگر کے مضافات میں فوج کی طرفسے دو معصوم لڑکوں پر جس طرح کسی اشتعال کے بغیر گولیاں برسائے جانے کے جیسے واقعات پیش آتے رہے اُنسے ریاست میں انسانی خون کے اب بھی بہت ”سستا“ہونے اور انسانوں کو حاصل حقوق کی اصل کہانی بیان ہوتی ہے۔


چناچہ2014ئایسے حالات میں شروع ہوا تھا کہ جب پاکستان میں نواز شریف کی حکومت جنم ہی لے رہی تھی اور ہندوستان سال بھر سے عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ایسے میں کشمیر کو لیکر کسی سیاسی پیشرفت کی توقع تو نہیں تھی لیکن نریندر مودی کے وزیرِ اعظم ہو جانے اور اُنکی جانب سے اپنی تقریبِ حلف برداری میں نواز شریف کو مدعو کرنے سے دونوں ممالک کے آپسی تعلقات میں نکھار آنے کی جو اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں کشمیریوں نے نہ صرف اُن پر اوس پڑتے دیکھی بلکہ وہ اُمیدیں بُری طرح ذلیل ہوکے رہ گئیں۔

پاکستانی اسٹیٹ کی کشمیری علیٰحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت کے معمولی مسئلے پر جس طرح مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ مجوزہ مذاکرات کو منسوخ کر دیا اُس کی شائد ہی کسی نے،با الخصوص کشمیریوں نے،کبھی اُمید کی ہو۔مودی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں مسئلہ کشمیر پر پیشرفت ہونے کی اُمیدیں باندھے کشمیریوں کو 2014ئایسی کوئی پیشرفت ہوتے نہ دکھا سکا کہ جس سے اِنکے پژمردہ چہروں پر بشاشت بحال ہو پاتی۔

اُلتا دونوں ممالک کے مابین تعلقات اِس ھد تک خراب ہو گئے ہیں کہ ،فوجی افسروں کے بقول،سن71/کی جنگ کے ریکارڈ ٹوٹنے کو ہیں۔
2014ئکے کشمیر کی بات کی جائے تو اِس خطہٴ ارضی کو تباہی کے دلدل لیجا چکے سیلاب کا تذکرہ غالب رہنا چاہیئے۔چناچہ7/ستمبر کی صبح کو وادیٴ کشمیر اور جموں کے بعض علاقوں میں گویا سیلاب کا اعلان نہ ہوا ہو بلکہ قیامت کی منادی ہوئی ہو۔

صدی کے بدترین سیلاب نے وادیٴ کشمیر کے بس چند ایک علاقوں کو ہی بخشا جبکہ مجموعی طور پوری وادی تباہ ہو کے رہ گئی۔موجودہ دُنیا کی تاریخ نہ جانے کب تک لوگوں کو یہ پڑھکر انگشت بدندان کرتی رہے گی کہ سرینگر کا پاش جواہر نگر و راجباغ کا علاقہ قریب ایک ماہ تک پانی میں ڈھوبا انسانوں کے لئے نا قابلِ پہنچ رہا اور کُل ملا کر وادی کو کھربوں روپے کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا اگرچہ معجزاتی طور اُتنے زیادہ لوگ غرقاب نہ ہوئے کہ جسکااس قدر ہیبتناک اور نا قابلِ تصور سیلاب کو دیکھ کر خدشہ ہو سکتا تھا۔

چناچہ اِس تباہ کُن سیلاب نے جہاں بستیوں،بازاروں، زمینوں اور نہ جانے کس کس چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہا لیا وہیں ریاستی سرکار کو بھی نہ صرف ننگا کر دیا بلکہ اِسے اِس حد تک نکما ثابت کر دیا کہ جسکے لئے دور دُنیا تک اِسکی تھو تھو ہوئی۔2014ئکے رُخصت ہونے تک سیلاب کی پھیلائی ہوئی تباہی عیاں تھی جبکہ متاثرین کی مشکلات کم ہونے کی بجائے اپنے آپ میں بہت زیادہ اضافہ ہوتے دیکھ رہی تھیں۔


انتظامی سطح پر ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو گئے سال میں بھی کوئی کامیابی ہاتھ نہ لگی کہ جسکے بل پر وہ خود کو کشمیری عوام کے سامنے ”بڑا لیڈر“منوانے کی اپنی آرزو پوری کر پاتے۔ریاست میں تعینات فوج کو حاصل بے پناہ اختیارات (افسپا)کو واپس کرانے کو لیکر وہ گذشتہ پانچ سال سے مسلسل سیاست کرتے آرہے تھے لیکن اِنہیں کوئی کامیابی نہ ملی۔

پھر سیلاب میں عمر سرکار تقریباََ نابود ہوئی تو وہ اِس لائق بھی نہ رہے کہ افسپا جیسے ”بڑے مدعوں“پر مزید کوئی سیاست کر پاتے بلکہ لوگ یہ یقین کر بیٹھے کہ جو شخص ایک سیلاب،بھلے ہی وہ اندازوں سے بھی بدترین ہو،سے پیدا شدہ صورتحال سے نہیں نمٹ سکتا ہے وہ لوگوں کے سروں پر لٹکنے والی افسپا کی تلوار کو کیسے ہٹا سکتا ہے اور وہ بھی اِن حالات میں کہ جب دُنیا کی طاقتور ترین فوج اِس تلوار کو اپنی” آخری اُمید “کے بطور پال رہی ہو۔


2014ئکے کشمیر کی تاریخ میں پے درپے ہوئے لوک سبھا اور پھر اسمبلی کے انتخابات اہم ترین واقعات کے بطور محفوظ ہو گئے ہیں۔تمام تر خدشات کے باوجود انتہائی پُر امن انداز میں منعقد ہوئے دونوں ہی انتخابات میں لوگوں کی بھاری شرکت رہی جبکہ علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال پر کم ہی لوگوں نے کان دھرا۔جہاں لوک سبھا انتخابات میں ریاست کی کُل چھ میں سے تین سیٹیں پہلی بار بی جے پی کی جھولی میں گریں جبکہ تین پی ڈی پی کے حصے میں آکر ایک طرح سے نیشنل کانفرنس اور عبداللہ خاندان کے سیاسی سورج کے ڈھوبنے کا اعلان کر گئیں۔

اسمبلی انتخابات میں بھی نیشنل کانفرنس کو محض15/سیٹیں حاصل ہو پائی ہیں جن میں سے بیشتر اِس نے محض چند ایک سو ووٹوں کے فرق سے ہی جیتی ہیں جبکہ مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی نے 28/سیٹوں کے ساتھ معلق اسمبلی میں سب سے اونچا ،مگر پریشان کُن ،مقام پا لیا ہے۔2014ئکی خاص باتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ پُر امن انتخابات کے انعقاد کے باوجود یہ سال ریاست کو اگلے 6/سال کے لئے نئی سرکار کا تحفہ نہیں دے پایا ہے کہ معلق اسمبلی میں حکومت سازی اب بھی ایک نہ حل ہونے والے مسئلے کی طرح ہے۔


مستقبل کا مورخ2014 کے بارے میں کیا لکھے گا اور اِس کے لئے سب سے بڑی بات کیا لکھے گا،یہ دیکھنے والی بات ہوگی لیکن مُسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کے لئے2014ئمیں شائد ہی اِس سے بھی کوئی بات بڑی یا اہم رہی ہوگی کہ اِس سال ہندو فرقہ پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک طرح سے ریاست کو ”فتح“کرنے کے اپنے مشن کا آغاذ کیا ہے۔حالانکہ وادیٴ کشمیر میں پارٹی کے کُل34/میں سے33/اُمیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی ہے لیکن جموں میں37/میں سے25/سیٹوں پر پہلی بار قبضہ کرکے پارٹی کو بہر حال ریاست کی سیاست میں ایک بڑا کردار حاصل ہو گیا ہے۔

گئے سال کے اواکر میں ہوئے انتخابات کا نتیجہ بھی اِس سال کو اہم بناتا ہے کہ انتخابی نتائج جموں اور کشمیر میں ایک ایسے نظریاتی اختلاف کو سامنے لے آئے ہیں کہ جسکی پیداوار کے بارے میں سوچنے پر ریاست کی تقسیم و تباہی کے سِوا کسی بھی چیز کا گماں تک نہیں ہو پاتا ہے۔
مجموعی طور دیکھا جائے تو سال2014ء کشمیری عوام کی زندگی میں کوئی خاص بدلاوٴ لانے سے تو رہ گیا ہے اُلٹا اِس نے بعض ایسے مسائل کے بیج بو رکھے ہیں کہ جنکی” آبپاشی “ہونے سے آگے چل کر ریاست کو آہوں،سسکیوں ،مارا ماری اور خونریزی کے کئی سال دیکھنا پڑ سکتے ہیں۔

پھر ریاست کے لئے اُم المسائل کی طرح موجود مسئلہ کشمیر کا بوجھ بھی کسی کمی کے بغیر سال2014ئکے شانوں سے لڑھک کر سالِ نو کے کاندھوں پر آ بیٹھا ہے۔کیا یہ سال اختتام کو پہنچتے پہنچتے ا،س بوجھ کو ٹھکانے لگا پائے گا یا پھر رواں سال بھی اِسے نئے کلینڈر کو وراثت میں دینے کی روایت جاری رکھے گا…دیکھاجائے گا۔(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :