فوج کو کیا پڑی ہے۔۔۔

جمعرات 8 جنوری 2015

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بھٹو خاندان کے باہمی اختلافات شہہ سرخیوں میں رہے۔ یا شاید یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ بھٹو زرداری خاندان کے اختلافات ۔ کیوں کہ بلاول کے نام کے ساتھ لاحقہ کا تو بھٹو کا لگا دیا گیا ہے لیکن وہ پہچانے تو ہمیشہ اپنے والد کے ساتھ ہی جائیں گے ۔ بھٹو کا لاحقہ سیاسی بقاء کے لیے بہت لازمی تھا۔ سابق صدر نے برسی کے موقع پر جو تقریر کی وہ کسی بھی طرح سے ایک سیاستدان کے شایان شان ہرگز نہیں ہے۔

بلکہ وہ ایک ناراض باپ اور ناراض پارٹی راہنما کی تقریر زیادہ تھی۔
سابق صدر کی تقریر تضادات کا مجموعہ قرار دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے حیران کن طور پر اپنا مخالف فریق تبدیل کر لیا ہے۔ اور فریق کی یہ تبدیلی ہی شاید پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنے قائدین کی قربانیوں اور نواز لیگ کی مخالفت میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کی ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بی بی نے جب NROقبول کیا تو اس کا فائدہ میاں صاحب کو بھی ہونا تھا۔ اور وقت نے ثابت کیا کہ ان کو فائدہ ہوا بھی ۔ پاکستانی قوم بہت بھولی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں ۔ قومی قیادت معائدہ کر کے اپنا مستقبل بچا لے تب بھی وہ ہمارے لیے محترم ہی رہتی ہے۔ اس بے وقوف عوام میں یہ سوال پوچھنے کی جرات بھی موجود نہیں کہ جناب ! اگر آپ کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہی ہیں اور آپ کے دل عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں تو آپ ہمیشہ اپنی جان کو بچانے اور اپنے خاندان کے مفادات کو ہی کیوں ترجیح دیتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو ذہین لیڈر تھے۔ لیکن عیار نہیں تھے۔ اگر ان میں عیاری ہوتی تو شاید وہ بھی ملک سے باہر جانے کو ترجیح دیتے۔ میاں صاحب آج تک اس بات کا برملا اقرار نہیں کرتے کہ انہوں نے کوئی معائدہ کیا تھا۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ اس بات کا اقرار ہو گا کہ انہوں نے فوجی سربراہ سے معائدہ کیا۔ اور ان کے پاس فوج کو سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کا موقع نہیں رہے گا۔

سابق صدر زرداری اور میاں صاحب کی الفت میثاق جمہوریت اور معائدہ مری کے وقت زیادہ پروان چڑھی دونوں بھائی اس بات پر متفق نظر آئے کہ مل کر کھانا ہے تو سیاست سے فوج کو دور رکھیں اور جمہوریت کا راگ الاپنا نہ چھوڑیں۔ کئی مواقع پر یاران عقل و دانش متفق تھے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے گی لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ آج بہت سے لوگ کیانی صاحب کی کمزوریاں بیان کرتے ہیں لیکن حقیقت میں کیانی صاحب کا تمام وقت فوج کا مورال بلند کرنے پہ صرف رہا۔

جو اپنوں کی تنقید ، میمو گیٹ اور میڈیا کی یلغار کی وجہ سے بہت ڈاؤن ہو چکا تھا۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنگ فوج نہیں بلکہ فوج کا جذبہ لڑتا ہے۔ اسی لیے اس جذبے کو واپس لانے میں کیانی صاحب نے اہم کردار ادا کیا۔ کیانی صاحب کا کردار عملاً ایسا رہا کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ "فوج کو کیا پڑی ہے کہ سیاسی گندگی میں چھلانگ لگا دئی" لیکن اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ جس فوج کا فریضہ سرحدوں کی حفاظت ہے عوام کی سب سے زیادہ امیدیں اسی ادارے سے ہیں۔

وہ ہر مشکل میں انہی کی طرف دیکھتے ہیں اور فوج نے بھی کبھی عوام کو مایوس نہیں کیا۔ سول اداروں کی نا اہلی سے عوام کی امیدوں کا مرکز ہمیشہ فوج ہوتی ہے۔ اور یہی امیدیں ہی ہیں جو فوج کو غیر آئینی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کر دیتی ہیں۔ یا شاید ایک موقع ایسا آتا ہے کہ آئین سے زیادہ پاکستان اور پاکستانیوں کی امیدیں اہم ہو جاتی ہیں۔ ورنہ واقعی فوج کو کیا پڑی ہے کہ خود کو گندگی میں گھسیٹ لے۔


ساسابق صدر کا خطاب بی بی کی خراج پیش کرنے کے بجائے مکمل طور پر اپنے مخالفین بلکہ صرف فوج اور کچھ حد تک پاکستان تحریک انصاف کے خلاف تھا۔ سابق صدر کے الفاظ سے یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف اور فوج ایک جیسی سوچ رکھتی ہیں ۔ ان کی تقریر کا محور و مرکز بِلا رہا۔ اس ایک لفظ سے ویسے دو مقاصد پورے ہوتے ہیں یعنی بِلا بھی اور بَلا بھی۔

اگر ان کا مطلب صرف سوچ ہی ہوتا تو کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن جس انداز سے انہوں نے بات کی اس سے انہوں نے فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کو غصہ شاید امین فہیم اور بلاول پہ تھا جو انہوں نے مشترکہ طور پرپرویز مشرف ، فوج اور کسی حد تک تحریک انصاف پہ اتارا ہے۔ جب سے امین فہیم نے پرویز مشرف سے ملاقات کی ہے۔ تب سے زرداری صاحب فوج سے خاصے نالاں نظر آتے ہیں۔

اور ان کے خیال میں سندھ میں سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اور اس کا ذمہ دار انہوں نے مشرف کو ٹھہرایا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمیشہ جب بھی مشرف کا ذکر آتا ہے ہمارے سیاستدان پوری فوج کو ملوث کر دیتے ہیں۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ فوج مشرف کو سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی کی نذر کسی صورت نہیں ہونے دے گی۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ سیاسی قیادت اگر واقعی مشرف کو سزا دلوانے میں سچ پہ ہوتی تو سب سے پہلے ان عناصر کو کٹہرے میں لاتی جو مشرف کے حواری رہے تھے۔

لیکن مشکل امر یہ ہے کہ وہ تمام حواری آج حکومت کا حصہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فوج بھی کسی نہ کسی سطح پر مشرف کوکہٹرے میں لانے کی راہ میں حائل ہو گی ۔ اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ۔ کیوں کہ اگر مشرف کے حواری سیاستدان آج دودھ کے دھلے ہو کر حکومت کا حصہ بن گئے تو پھر آخر مشرف ہی کیوں۔ لیکن یہ وضاحت شاید سابق صدر کو ہضم نہیں ہو رہی ۔ اسی لیے انہوں نے نہ صرف مشرف کو اپنی تنقید میں ہدف تنقید بنایا بلکہ تحریک انصاف کے بخیے بھی ادھیڑے ۔

ان کے بقول ان کی بات مانی جاتی تو سانحہ پشاور نہ ہوتا۔ حیران کن طور پر وہ اپنے پاس موجود امن کی گیدڑ سنگھی کا استعمال کراچی میں نہیں کرتے۔ اب یہ بات کند ذہن بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر واقعی تحریک انصاف کو فوج کا سہارا ہوتا تو وہ سڑکوں پر کیوں خواری سہہ رہے ہوتے ۔ لیکن زرداری صاحب یہ نقطہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں اس لیے وہ امین فہیم کی مشرف سے ملاقات کا غصہ اتار رہے ہیں۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ نوجوان چیئرمین ناراض ہو گئے۔ منتوں سماجتوں کے بعد بھی وہ راضی نہ ہوئے تو بیماری کا بہانہ بنانا پڑا۔ اور اس نوجوانی میں ان کو اس قدر شدید بیماری ہوئی(خدانخواستہ) کہ ڈاکٹر نے سفر سے منع کر دیا۔ ویسے بھی وہ ٹویٹر کے تو بادشاہ ہیں۔ اس لیے انہیں پاکستان آنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ سابق صدر نے ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کیا کہ ایسا نہ ہو کہ فوجی عدالتیں بنیں تو میں اور میاں صاحب جیل میں ہوں۔

خدا اگر ہمارے سیاستدانوں کو عقل دے تو وہ تھوڑا سا اپنا دماغ استعمال کر لیں کہ اگر کوئی اعتراض تھا تو اجلاس کے دوران کیوں نہیں کیا جہاں "یس سر"کی گردان کے علاوہ کوئی لفظ بولا ہی نہیں گیا شاید۔ اور اس بات کا اظہار یا تشویش برسر محفل ہی کیوں ظاہر کی گئی۔ یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس کی وضاحت ضروری ہے۔ کیوں کہ اس میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ فوج کو بھی ملوث کیا گیا ہے۔

اور فوج کو ہمیشہ یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیتی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان ہی فوج کو مواقع دیتے ہیں۔ ورنہ فوج کو کیا پڑی ہے کہ وہ سیاست کی پچ پرکھیلنا شروع کر دے ۔ اب امین فہیم جیسے سیاستدان کو زرداری صاحب کھل کر لعن طعن نہیں کر سکتے ۔ لیکن ان کی سابق آرمی چیف سے ملاقات پہ وہ تپے ہوئے ضرور ہیں اسی لیے وہ فوج پہ کچھ ڈھکے اور کچھ کھلے الفاظ میں تنقید کر رہے ہیں۔

اور جہاں تک تعلق ہے فوجی عدالتوں کا سیاسی استعمال تو اس کی فکر زیادہ ان جماعتوں کو ہی ہو گی جن کے مسلح ونگ موجود ہیں یا ایسی جماعتوں کو جن کی دال کچھ کچھ کالی ہو گی ۔ اسی لیے تو زرداری صاحب نے صر ف اپنا اور میاں صاحب کا نام لیا ہے۔ کیوں کہ شاید ان کے دل و دماغ میں کسی جگہ یہ بات نقش ضرور ہے کہ کہیں فوج میثاق جمہوریت اور خاص طور پر معائدہ مری کو تختہ مشق نہ بنا لے ۔

اور اگر ایسا ہوا تو اس میں تو یقینا پھر دو ہی نام آتے ہیں جو سابق صدر کا ڈر بن کے سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بات ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ ضرب عضب ، خیبر ون اور دیگر مسائل نے فوج کو بہت مصروف بے شک رکھا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ فوج کو کیا پڑی ہے کہ وہ سیاست میں کودے گی ۔ لیکن اس کے صبر کے پیمانے کو آزمانا بھی ایک بہت بڑی حماقت ہو گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :