ارتقا ء کا سفر۔ قسط نمبر3

منگل 6 جنوری 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سوال بالکل بجا ہے۔ چین ، جاپان، انڈیا ، انڈونیشیا اور ملائیشیا یہ سب وہ ممالک ہیں جن کی عمریں تقریبا پاکستان جتنی، کچھ کم یا ذیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ممالک ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے دو ہاتھ آگے ہیں ،آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیئے آپ کو تھوڑا ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔ ہم صرف جاپان کو لے لیتے ہیں ،جاپان بیسویں صدی کے آغاز میں جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کی واحد سپر پاور تھی ۔

انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا پر مغربی سامراجیت کا راج تھا ۔ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک سامراجی طاقتوں کے زیر تسلط تھے، جاپان کو خطرہ تھا کہ اگر ان سامراجی طاقتوں کو فی الفور نہ روکا گیا تو یہ طاقتیں جاپانی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جائیں گی اور جاپان کی بادشاہت خطرے میں پڑ جائے گی۔

(جاری ہے)

دوسری طرف جاپان خود ایک طاقتور اور مضبوط ملک تھا اور مغربی طاقتوں کے توسیع پسندانہ عزائم دیکھ کر اس کی رالیں بھی ٹپک رہی تھیں۔

جاپان کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لیئے اگر خطرہ تھا تو صرف امریکی بحریہ سے جو جاپان کے قریب جزیرہ ہوائی میں موجود تھی ، جاپان نے اس خطرے سے نمٹنے کا فیصلہ بھی کر لیا اور پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکی نیوی کو تباہ کر ڈالا۔ بیسویں صدی میں جاپانی بحریہ کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ جاپانی بحریہ نے پرل ہاربر پر حملہ کرنے میں کو ئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی ۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ جاپان بیسویں صدی کے شروع سے ہی مشرق بعید کی واحد سپر پاور اور ایک خود مختار ملک تھا۔ جاپانی فوج دنیا کے بہترین اسلحے، بہترین فضائیہ اور بہترین نیوی کے ساتھ دنیا کی بہترین پیشہ ور فوج مانی جاتی تھی۔ امریکہ ،برطانیہ اور فرانس کی طرح جاپان بھی بیسویں صدی کی ایک سامراجی قوت تھی۔

ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد یہ کہنا قطعی غلط ہے کہ جاپان نے 1945کے بعد ترقی کا سفر شروع کیا ، ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی نے جاپان کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ضرور کیا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جاپان نے ترقی کے سفر کا آغازہی 1945کے بعد کیا ۔جاپان کی ترقی کی گاڑی بیسویں صدی کے شروع سے ہی اپنے سفر پر روانہ ہو چکی تھی ، اگرچہ اسے 1945میں کچھ لمحے کے لیئے رکنا پڑا لیکن اس کے بعد اس نے پہلے سے ذیادہ تیز رفتاری سے سفر شروع کر دیا۔

1945کے بعد اس سفر میں تیزی کیوں آئی اس کی کہانی بھی سن لیں ۔ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کے بعد جاپان نے گھٹنے ٹیک دیئے، فوج اور اسلحے سے توبہ کر لی ، امریکہ سے معاہدے ہوئے اور فوج، اسلحے اور دفاع کے نام پر خرچ ہونے والی ساری رقم ڈویلپمنٹ پر خرچ ہونے لگی اور یوں جاپان کی ترقی کو پر لگ گئے۔
اب ہم چین اور انڈیا کی طرف آتے ہیں ، کہنے کو چین دنیا کی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے اور کسی حد تک یہ بات سچ بھی ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں چین کا تیسرا نمبر ہے ۔

انڈیا اور صحارن کنٹریز کے بعد سب سے ذیادہ غریب چین میں رہتے ہیں یعنی دنیا کا ہر چھٹا غریب شخص چین میں موجود ہے ۔ چین کے حوالے سے ہمیں میڈیا میں جو دکھایا اور سنایا جاتا ہے وہ تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ تصویر کا دوسرا رخ اس سے کہیں ذیادہ بھیانک اور خوفناک ہے ۔ سب سے ذیادہ گداگر چین میں پائے جاتے ہیں اور آپ کو اگر چین کی سیاحت کا اتفاق ہوا ہے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ سیا حوں سے معمولی رقم لینے کے لیئے چینی باشندے کس حد تک گرے ہوئے کرتب کر کے دکھاتے ہیں، ان کرتب بازوں کا رویہ چین کے اجتماعی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔

ستر کی دہائی میں چین میں one child (صرف ایک بچہ)کی پالیسی نافذ کرنے کا واحد مقصد غربت کا خاتمہ اور بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنا تھا، اب اس پالیسی کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، چین میں صنفی توازن بگڑتا جا رہا ہے ، لاکھوں چینی باشندے صرف اس لئے شادی نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کے لیئے کو ئی لڑکی ہی موجود نہیں ۔ چین کی آزادی اور پاکستان کی آزادی میں بڑا فرق ہے ۔

کہنے کو چین 1949میں آزاد ہو اتھا لیکن یہ صرف کاغذی آزادی تھی ورنہ چین پہلے سے آزاد تھا، کیوں کہ آزادی کے بعد چین کو مسائل کے وہ دریا عبور نہیں کرنے پڑے جو دریا پاکستان نے عبور کیئے تھے۔ آزادی کے بعد پاکستان ایک ایسا ملک تھا جس کے پاس وسائل تھے نہ افراد،مشینری تھی نہ ساز وسامان ،ڈاکٹر تھے، انجینئر تھے نہ سائنسدان ،فیکٹریاں تھیں ،ملیں اور نہ کارخانے ،سڑکیں تھیں نہ ریلوے ،دفاتر تھے نہ سرکاری ملازمین ، جہاز تھے ، ایئر پورٹ اورنہ بندرگاہیں اور حد تو یہ تھی کہ ا س کے پاس اپنا کوئی آئین اور دستور بھی نہیں تھاجبکہ چین کی تاریخ یکسر مختلف تھی۔

ایک اور اہم بات یہ کہ آج ہر طرف شور مچا ہے کہ چین دنیا کی ہر مارکیٹ میں چھا چکا ہے ، ہر طرف ایک شور مچا ہے ”چائنہ آ گیا ، چائنہ چھا گیا“ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چینی لوگ صرف انہی چیزوں کو سستے داموں مارکیٹ کر تے ہیں جو پہلے مغرب مارکیٹ کر چکا ہوتا ہے گویا چینی لوگ کاپی کرنے میں ماہر ہیں اور وہ بس کاپی کرنا جانتے ہیں ، کاپی کرنا کوئی مہارت نہیں اصل چیز تخلیق کاری ہے ، اگر آپ کے پاس تخلیقی ذہن ہیں تو آپ کامیاب ہیں ورنہ آپ زیرو ہیں۔

اب آپ انڈیا کی سن لیں ، دنیا کے انتہائی غریب ترین ممالک میں انڈیا کا پہلا نمبر ہے ، انڈیا میں 1.2بلین لوگ آج بھی بجلی سے محروم ہیں ، دنیا کے ایک تہائی غریب انڈیا میں رہتے ہیں ، تقریبا 38فیصد انڈین خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں،کم عمری کی شادیوں میں انڈیا سب سے آگے ہے ،راجھستان،مدھیہ پردیش،اتر پردیش،بہار، جھاڑ کھنڈ، اڑیسہ اور مغربی بنگال انڈیا کے وہ علاقے ہیں جو دنیا کے غریب ترین خطوں میں شمار ہوتے ہیں ۔

دنیا میں سب سے ذیادہ ریپ کیسز انڈیا میں ہو رہے ہیں ۔ انڈین معاشرہ اخلاقی طور پر پاکستانی معاشرے سے بہت پیچھے ہے ، انڈین میڈیا پاکستانی میڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، پاکستانی فوج انڈین فوج سے کہیں آگے ہے ، آئی ایس آئی اور راء میں زمین آسمان کا فرق ہے ، پاکستانی پارلیمنٹ انڈین پارلیمنٹ سے ذیادہ متحرک،باشعوراور مہذب ہے ۔ بس انڈیا کی کرکٹ اور اس کی فلم انڈسٹری نے انڈیا کا اصل چہرہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے ورنہ حقیقت بڑی خوفناک ہے۔


یہ سارے حقائق ذکر کرنے کا مقصد احساس برتری کا اظہار ہے نہ اس بات کا اقرار کہ پاکستان ایک آئیڈیل ریاست ہے ، یقینا مسائل ہیں لیکن ہمیں مسائل کو ان کے اصل تناظر میں دیکھنا چاہیے ، دن رات خود کو کوستے رہنا اور ملک کی تباہی اور بربادی کے دعوے کرتے رہنا کہاں کا شعور ہے ۔آپ مریض کے سامنے بیٹھ کر اسے سناتے رہیں آپ میں یہ بھی مرض ہے یہ بھی مرض ہے اور بہت جلد آپ مر جاوٴ گے تو یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔اپنے حصے کا کام کرتے جائیں اور یقین رکھیں ایک دن یہ ملک ضرور بدلے گا ۔ارتقاء کا سفر جاری ہے اور منزل بس آنے ہی والی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :