دکھ، شکوہ اور سوال

منگل 6 جنوری 2015

Muhammad Jamil Ejaz

محمد جمیل اعجاز

اسے دکھ کا چوغہ پہنایا جائے یا شکوے کی چادر، اسے سینے سے لگایا جائے یا نظر انداز کردیا جائے، بہرحال ایک سوال ہے جو کچھ دنوں سے ذہن میں کلبلاتا اور کاغذ پر اترنے کے لیے مچلتا ہے۔
پشاورمیں 145افراد کا خون بہایا جانا جتنا بڑا المناک، شرمناک، دردناک، وحشت ناک سانحہ ہے اس کے بعد آنے والے بیانات اس سے کم اشتعال انگیز نہیں ہیں۔ اس سانحے پر ہر دردمند پاکستانی کا دل پھٹ پڑا۔

وہ کون سی آنکھ ہے جو لہو لہان ننھی روحوں اور خون سے غسل کرنے والے مستقبل پر روئی نہ ہو۔ ہمارے علماء کرام نے سب سے پہلے اس سانحے کی مذمت کی جب روشن خیالی کے سب سے بڑے علمبردار جناب بلاول زرداری بھی بولے نہ تھے۔ اس ملک میں آج تک جتنے بھی سانحات ہوئے ہیں یہ ریکارڈ کا حصہ اور تاریخ کا سچ ہے کہ علماء نے ہمیشہ اسے غیر انسانی اور غیر اسلامی کہا ہے۔

(جاری ہے)

اس معاملے میں کبھی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ پی پی دور میں جب لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا تھا تب بھی انسانیت کے ناطے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔ دو سال قبل جامعہ اشرفیہ لاہور میں منعقدہ اجلاس میں ایسے حملوں کو تمام دینی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے متفقہ طور پر غیر شرعی قرار دیا گیا۔ اب بھی پشاور میں اسکول پر حملہ کرنے والوں کو مفتی اعظم پاکستان نے ظالمان کا ٹائٹل دیا ہے، کیا اس سے سخت بیان کوئی ہوسکتا ہے؟ وفاق المدارس کی طرف سے جمعہ کو ملک گیر یوم دعا منایا گیا۔

مساجد میں خطبات جمعہ کا موضوع سانحہ پشاور رہا۔ اس موقع پر رقت آمیز دعائیں بھی کی گئیں اور بچوں کی جانیں لینے والوں کے عبرت ناک انجام کو اللہ سے مانگا جاتا رہا۔ اس کے باوجود پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سب کی تان علماء کرام پر آکر ٹوٹی ہوئی ہے، صحافت کی شطرنج کے کچھ مہرے حکومت کو اکسا رہے ہیں کہ لوہا گرم ہے، مدارس پر چوٹ لگادی جائے۔

اپنے دفاتر اور اپنے مراکز کا مقدس مقامات سے بھی زیادہ تحفظ کرنے والے بعض سیاست دان مدارس گرانے کی ترکیبیں بتانے میں مصروف ہیں حالانکہ مدارس میں کبھی بے گناہوں کا خون بہانے کا درس نہیں دیا گیا۔ اگر یہی بات کسی کے خلاف کارروائی کی دلیل بنالی جائے تو القاعدہ کے تو 80فیصد لوگ مغربی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے، ان یونیورسٹیوں کے خلاف امریکا نے تو کوئی ایکشن نہیں لیا اور پاکستان میں امریکا کے ٹکڑوں پر پلنے والے مدارس ڈھانے کی باتیں کرتے ہیں۔


یہ بات جاننے اور ماننے کی ہے کہ ملک میں صرف یہی ایک سانحہنہیں ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کے بعد سے اب تک حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 50ہزار سے زاید پاکستانی دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ متعدد زخمیوں میں سے ایسے بھی ہیں جو نفسیاتی مریض بن چکے اور اب اپنی زندگی کے بقیہ دن پورے کررہے ہیں۔اس فہرست میں ہمارے وہ علماء کرام شامل نہیں جنہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

مولانا یوسف لدھیانوی سے لے کر ڈاکٹر خالد سومرو تک دینی طبقے کے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں افق کے اس پار پہنچادیا گیا۔ ان میں اکثر کی کوئی سیاسی و مذہبی جماعت سے وابستگی نہیں تھی۔ کچھ تو اتحاد بین المسلمین کی صدائیں لگاتے لگاتے بے رحم گولیوں سے بھون دیے گئے۔ مولانا اسلم شیخوپوری تو معذور تھے وہ کسی کا کیا بگاڑ لیتے مگر انہیں بھی نہ بخشا گیا۔

لوگوں کو معبود کے قریب کرنے اور بدلے میں کچھ بھی نہ لینے والے علم کے ان میناروں کا قتل چپکے سے ہضم کرلیا گیا۔ ان واقعات کے دو تین دن بعد پیش رفت کی اطلاعات آئیں مگر پھر فائل بند کردی گئی۔ قاتل گرفتار ہوئے تو مقدمات کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔ یہ سارے غم مذہبی حلقوں نے تنہا اٹھائے۔ ان کے آنسو پونچھنے کے لیے کسی سول سوسائٹی کسی این جی او نے اپنی آستینیں پیش نہیں کیں۔

اقلیتوں کے حقوق کے لیے ہر آن بے چین انسانی حقوق کمیشن نے بھی چپ سادھ لی جیسے علماء کے کوئی حقوق نہ ہوں، جیسے یہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہوں۔
سوال یہ ہے دینی طبقہ تو ہر سانحے پر دکھ بانٹنے کی خاطر اپنے کندھے آگے کردے مگر جب اس پر کوئی الم گزرے تو سول سوسائٹی ان کو اپنا غم خود منانے کا مشورہ دے کر آگے بڑھ جائے، یہ تضاد یہ منافقت کیوں؟ یہ وہ سوال ہے جسے آپ دکھ کا چوغہ پہنائیں یا شکوے کی چادر، سینے سے لگائیں یا نظر انداز کردیں، بہرحال تازہ صورتحال کے تناظر میں بڑا سوال بن کر سامنے آرہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :