تیرے ہوتے جنم لیاہوتا

ہفتہ 3 جنوری 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

جب ظلمت کے اندھیرے بڑھ رہے ہوں‘ جب بدی نیکیوں کوکھانے پر تلی ہو ‘جب اندھیروں اجالوں کادشمن بن چکاہو‘ایسے میں رب کائنات کاجلال حرکت میں آتاہے اورپھر وہ روئے زمین پرکوئی نہ کوئی ایسی ہستی کو بھیج دیتاہے جس کے معطر وجود سے ساری غلاظتیں دھل جاتی ہیں اندھیرے چھٹ جاتے ہیں‘ اورپھرہرسونیکیوں اورنیکیوکاروں کی بہار ہی بہار دکھائی دیتی ہے لیکن ذرا سوچئے تو سہی کہ وہ کیسی ہستی ہوگی کہ جس کی وجہ سے کائنات بھر کے اندھیرے راہ فرار اختیارکرنے پر مجبورہوگئے وہ عظیم ہستی جو ”بیماریوں کے گھر“ میں تشریف لاتی ہے تو پھراسے معطر معطر مدینہ بنادیتی ہے ۔

وہ ہستی کیا ہستی ہے کہ جس کانور رب اللعالمین نے اپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمایا مگر اسے انتظار تھا کہ اس وقت کا کہ جب وہ اپنے ہاتھوں سے تخلیق کردہ نور کو روئے زمین پر بھیجے تو ساری زمین روشن ہوجائے ۔

(جاری ہے)

پھر (کم وبیش )ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرروئے زمین پربھیجے تاکہ اندھیروں میں بھٹکتی مخلوق کا راستہ دکھانے کے ساتھ ساتھ اس محبوب خداکا ”چرچا“ بھی کرتے رہیں کہ جسے تخلیق توخالق کائنات نے سب سے پہلے کیا لیکن جوآیا تو”خاتم النبیبن “ بن کر ‘ یہاں یہ ایک اوردانشور کی بات بھی یاد آجاتی ہے کہ” فرماتے ہیں خدا سے شروع ہونیوالی بات محمد پرآن کر ختم ہوجاتی ہے اوردرمیان بھی ذکرہے تودونوں ہستیوں کا ‘ ایکطرف ذکر خدا ہے تودوسری جانب ذکر محبوب خدا بھی ہے “ آج بارہ ربیع النور کا وہ عظیم ایک بار پھر وہی بہاریں لیکرآیا ہے۔

ایسی بہاریں کہ جن پرخود بہاروں کو بھی رشک آتاہے کیونکہ بہاروں کو خوشبو بھی تو اسی کے طفیل ملی ہے ‘اس عظیم ہستی کا یوم ولادت منانا گویا ایک طرح سے سنت خداوند ی اداکرنے کے متراد ف بھی ہے فرمایا خالق کائنات نے ” بے شک خدا اوراس کے فرشتے آسمان اپنے محبوب پر درود وسلام بھیجتے ہیں“ سوچئے کہ وہ ہستی کہ جس پر دن رات خو د خالق کائنات درود وسلام بھیج رہاہو اس کی عظمت کااندازہ کیونکر لگایاجاسکتا ہے وہ جو کسی شاعر نے دواشعار میں ہی آپ کی سیرت یوں بیان کی تھی
حسن یوسف ‘ دم عیسیٰ ‘ ید بیضاداری
آنچاں خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
پھر کیوں نہ روئے زمین پر بسنے والی مخلوق اس عظیم محبوب کا ”چرچا “ کرے کہ جو وجہ وجود کائنات ہو ‘ جس کے طفیل اس آسمان اورزمین کورنگ ونور میسرآیا ہو ‘ جس کے طفیل آدمیت کوا نسانیت کارتبہ ملا ہو جس کے طفیل انسان کو اپنی عظمت کااندازہ ہوا ہو ‘ اس بات کوچھوڑئیے کہ جس کے طفیل خدا کے برگزیدہ پیغمبروں کی خطائیں معاف ہوئی ہوں ‘ وہ ایک ہی ہستی دنیا میں ہوسکتی ہے نہ اس سے پہلے کوئی آیا اورنہ ہی آسکتا ہے
دنیا کے بڑے بڑے شعرا نے آپ کی شان میں قصیدہ ہائے بیان کئے کسی نے نثر اختیار کی تو کوئی نظم میں کہہ رہا ہے لیکن خدا کی قسم وہ شاعری اپنی جگہ لیکن خالق کائنات نے اپنی زبان میں جس طرح سے اپنے محبوب کاقصیدہ بیان کیا ہے اسکی کوئی مثال ہے نہ ہی ہوسکتی ہے ۔

قرآن مجید فرقان حمید رب کائنات کی عظیم کتاب ‘الحمد سے لیکر والناس تک ‘ہر حرف ہرنقطہ‘ ہر سطر اورہر آیت ‘ ہررکوع ‘ہر پارہ محبوب خدا کی تعریف وتوصیف بیان کرتا دکھائی دیتاہے۔ خود اندازہ لگائیے کہ جس کی شان خود خالق کائنات بیان کرتے ہوں ‘کہ جس پر خود خالق کائنات نہ صرف درود پڑھتے ہوں بلکہ خالق کے ہرحکم کو تیار فرشتے بھی دن رات محض یہی فرض نبھارہے ہوں وہی کام اگر آج روئے زمین پر ہورہاہے توکتنی سوہنا اورسہانا منظر ہے کہ ہرسو اس کی ذات کے چرچے ہی چرچے ہیں
صاحبو! اس عظیم ہستی کے حضور گلہائے عقید ت پیش کرنے والے دراصل اپنی آخرت کی راہ ہموارکررہے ہیں ‘ وجہ وجودکائنات‘ شافع روز محشر ‘آمنہ کے لعل محبوب کبریایعنی محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگا ہ میں بے شمار لوگوں نے نذرا نہ ہائے عقید ت بیان کئے ‘وہ صرف مسلمان ہی کیوں ہندو بھی پیچھے نہ رہے ‘ پھر عیسائیوں نے دنیا کی سب سے عظیم ہستیوں کی فہرست مرتب کرتے ہوئے خالق کائنات کے محبوب کوپہلا نمبر دیا ‘ یہ کیوں تھا ؟یہ کیوں نہ ہوتا کہ خو دخالق کائنات نے فرمادیا ”ورفعنالک ذکرک“ ’بے شک محبو ب ہم نے آپ کا ذکر بلند تر کردیا ہے“ جب خالق کائنات خودکہہ رہے ہوں توپھر اس میں شک باقی ہی کیارہ گیا۔


نجانے کیوں اس عظمت والی گھڑی میں معروف دانشور اورکالم نگار حسن نثار کے وہ اشعار یاد آرہے ہیں جو انہوں نے عالم وجد میں لکھے تھے
تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
پھر کبھی جو تجھے ملا ہوتا
بچہ ہوتا یتیم بیوہ کا
تیری گود میں پلا ہوتا
ذرہ ہوتا میں تیری راہوں کا
تیرے قدموں کو چومتا ہوتا
چاند ہوتا میں آسمانوں پر
تیری انگلی سے کٹ گیا ہوتا
لڑتا پھرتا تیرے عدوؤں سے
تیری خاطر میں مر گیا ہوتا
اس نعت کا ایک ایک شعر گویا حسرت ویاس کی تصویر دکھائی دیتاہے ‘ حسن نثار تڑپتے ‘ترستے دکھائی دیتے ہیں کہ کاش میں اس دور میں ہوتا جب وجہ وجود کائنات ‘ خالق کے عظیم محبوب ہرسو روشنی بکھیر رہے تھے ‘ مدینہ کی گلیوں میں چلتے تو خوش نصیب پتھر اورمٹی کے ذرات آپ کے نعلین مبارک کو چومتے اورنہال دکھائی دیتے تھے۔

کاش اسی عظیم ہستی کے دور مبارکہ میں جنم نصیب ہوتا ‘ چاہے اس عالم کہ آپ کی راہوں کا وہ ذرہ بننا ہی نصیب ہوجاتا ۔یا پھر اس یتیم بچے جیسی ہی سعادت نصیب ہوتی کہ جس کاسر آپ کی گود میں دھرا ہواتھا۔ ہر سو حسرتیں ہی حسرتیں ہیں۔ لیکن وہ دور نہ مل سکا روگ تو ہے لیکن خوشی اس بات کی بھی ہے کہ خدانے اس پیارے محبوب کی امت میں تو پیداکردیا‘ یہ وہ نعمت ہے جو خالق کائنات کی سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :