توانائی۔گیس بحران کی شدت میں مبتلا عوام!!!

ہفتہ 3 جنوری 2015

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

مسلم لیگ کی موجودہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 10سے 67فی صد اضافے کا فیصلہ کیا ہے جس کااطلاق نئے سال کے پہلے مہینے سے ہوگا۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا جارہا ہے جب ٹرانسپورٹ کے لئے سی این جی بند کی جاچکی ہے،سلنڈر میں ملنے والی ایل پی جی گیس 130روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 280روپے فی کلو گرام بیچی جارہی ہے اور گھریلو صارفین کو زبردست لوڈشیڈنگ اور پریشر میں کمی کا سامنا ہے۔

لاہور،ملتان ،فیصل آباد میں گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں اور دیگر شہروں میں لوگ تنگ آکر کسی بھی وقت گھروں سے نکل کر احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں۔ گیس کا بحران ،بجلی،تیل،پینے کے پانی،صحت،تعلیم،امن وامان اور دھشت گردی،زوال پذیر معیشت اور سماجی زندگی کی پستی کے بحرانوں میں شامل ہوکر بحران زدہ حکومت کے سامنے ایک چیلنج کی شکل میں کھڑا ہے۔

(جاری ہے)

مسلم لیگ کی حکومت اپنی پیش رو حکومت کی ناکامی کے بعد بلند وبانگ دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی کو الیکشن 2013میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ لوگ اس حکومت کے عوام دشمن رویے سے بہت تنگ تھے۔ بد اعمالیوں ،بدانتظامی اور بدترین کرپشن کے ساتھ ساتھ بہت سے اداروں اور شعبہ ہائے زندگی میں عوامی خواہشات کے برعکس تکلیف دہ حالات کی وجہ سے لوگ ”عوامی حکومت“ سے سخت نالاں تھے۔

اشیاء ضروریات کی گرانی اور بجلی اور گیس کی بدترین لوڈ شیڈنگ اور تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت کو عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مدمقابل پاکستان مسلم لیگ نے اپنی انتخابی مہم میں پیپلزپارٹی کی حکومت پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لوگوں کوتمام مسائل حل کرنے کے وعدے کے ساتھ ووٹ دینے کی اپیل کی۔

دائیں بازو کی رجعتی نواز حکومت نے اپنے دعوں کے برعکس اقتدار سنبھالنے کے بعد جو کچھ بھی کیا اس سے عام آدمی کی حالت تو کیا بدلنا تھی مگر پہلے سے موجود بحرانوں میں شدت بڑھ کر ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کرنے والوں نے سردیوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ گرمیوں جتنا کردیا ہے۔ موجودہ حکومت کے بجلی پیدا کرنے والے تمام حل اور منصوبہ جات پچھلی حکومت سے بھی زیادہ مہنگے،مشکوک اور انکی ذاتی منفعت کا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں۔

پہلے سے موجود بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو چالو کرنے کی بجائے نئے منصوبے ان کی بدنیتی اور عوام دشمنی کا کھلا ثبوت ہیں۔بجلی کا بحران تو اپنی جگہ شدت سے موجود ہے مگر اس سال سردیوں میں گیس کا بحران چھوٹے شہروں سے بڑھ کر بڑے شہروں کے گھریلو صارفین تک بھی پہنچ چکا ہے۔ پچھلے سالوں میں گھریلو صارفین کو گیس کے پریشر کا مسئلہ درپیش تھا مگر اب ہفتے میں دودنوں کی بندش سے ہفتے کے سارے دنوں میں پریشر اور بندش کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

گزشتہ ہفتے فیصل آباد،لاہور،ملتان اور دوسرے شہروں میں گھریلو صارفین نے گیس کی بندش کے خلاف سڑکوں پر آکر حکومت کی ناکامی اور اپنی مشکلات کے خلاف احتجاج کیا۔ ایک طرف ملک بھر میں بجلی کی 8-10گھنٹے کی طویل لوڈ شیڈنگ جاری ہے تو دوسری طرف توانائی کے دوسرے بڑے ذریعے کا بحران پورے ملک کو مفلوج کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔پچھلے ہفتے 1900ملین کیوبک فیٹ کی کمی کا سامنا تھا۔

اسی دوران بلوچستان میں ایک بڑی پائپ لائین کو اڑا دیاگیا۔بلوچستان میں اس قسم کی مشکوک کاروائیاں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ کبھی کبھی تو بلوچ چھاپہ مار ایسے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور بہت سے واقعات پراسرار انداز میں رونما ہوتے ہیں۔ظاہر ہے الزام تو چھاپہ ماروں کی طرف ہی جاتا ہے جو گاہے بگاہے ایسے دھماکے کرتے رہتے ہیں۔اگرچہ ان دھماکوں کا جاری رہنا کچھ اداروں اورانکے ارب پتی ہوجانے والے اہلکاروں کی ضرورت بھی بن چکی ہے۔

گیس کے موجودہ بحران میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ماضی میں پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی گاڑیوں کو پیڑول او رڈیزل سے سی این جی میں تبدیل کرنے کی مہم نے سارے توازن کو خراب کردیا۔سی این جی کے کاروبار میں بے پناہ منافع کی وجہ سے چند سالوں میں ہزاروں نئے سی این جی پمپ لگ گئے ہیں۔دوسری طرف ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے نہ صرف ذاتی کاریں سی این جی پر منتقل ہوگئیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک قابل ذکر حصہ سی این جی پر چلا گیا۔

پیٹرول کے ساتھ ڈیزل گاڑیاں بھی مقامی تکنیکی تبدیلی کے بعد سی این جی ۔ڈیزل میں تبدیل ہوگئیں۔ بڑی بسوں میں 800کلومیٹر کی ضرورت کے حساب سے سلنڈر نصب ہوگئے۔ قدرتی گیس پر چلنے والی گاڑیوں سے متعلق ایک عالمی تنظیم IAINGVکے مطابق دسمبر 2008تک پاکستان دنیا میں گیس سے چلنے والے وھیکلز کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔اس تبدیلی کا ایک مثبت پہلو بھی تھا کہ سستی گیس کی وجہ سے نہ صرف درآمدی تیل کی ضرورت کم ہوئی تھی جس سے برآمدی ادائیگیوں میں بچت ہوئی تھی مگردوسری طرف جانچ پڑتال کے موثر نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے فرسودہ سلنڈروں کی تنصیب کی وجہ سے المناک حادثات کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں تلف ہوئی۔

اس کے ساتھ ہی گھریلو اور صنعتی گیس صارفین کو لوڈ شیڈنگ کے دھانے تک پہنچنا پڑا۔ صنعتی بحران کی وجہ سے پاکستان کے مانچسٹر کہلوانے والے فیصل آباد میں ہزاروں چھوٹے بڑے ٹیکسٹائل سے متعلق کارخانے بند ہوچکے ہیں اور اسکی وجہ سے لاکھوں مزدوربے روزگار ہوچکے ہیں۔ پچھلی حکومت کے خلاف شہبازشریف کی قیادت میں مظاہرے ،دھرنے اور احتجاج کرنے والی مسلم لیگ ن نے اپنی حکومت کے بننے بعد پہلے موسم سرما میں توانائی بحران پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بدترین ریاستی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تشددکیا اور مظاہرین کو جیل بھیجا۔

اسی طرح بغیر کسی دھشت گردی،بچوں کے قتل عام اور ملٹری کورٹ کے پاورلومز کے بے روزگار مظاہرین کو قید کرکے انکو 250سال فی قیدی سزادی گئی۔ اس سزا پر اقوام متحدہ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پاکستان میں انسانی حقوق کے ہمہ قسم دعوے دار چپ سادھے ہوئے ہیں۔صنعتوں کی بندش کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں گارمنٹس اور ٹیکسٹائل مصنوعات کے سودوں کی تکمیل ہونا ممکن نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک بار پھر گارمنٹس کا شعبہ بحران کی زد میں آئے گا اور یورپین یونین کی پابندیاں ہٹ جانے کے باوجو دپوری صنعت کو شدید دھچکا لگے گا۔

پاکستان میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائیر ہیں مگر ان کو نکالنے کی راہ میں ایسی ہی رکاوٹیں ہیں جیسے پانی سے سستی( ایک لاکھ میگاواٹ )بجلی بنانے کے راستے میں رکاوٹیں ہیں اور سستی کی بجائے مہنگی بجلی بنانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ روہڑی سے بہاولپور تک اور سارے چولستان میں تیل اور گیس کے ذخائیر ہیں مگر قادر پور اور ماڑی پورگیس فیلڈز کے علاوہ نئے منصوبوں کا آغاز تک نہیں کیا گیا ہے۔

جبکہ صادق آباد کے قریب ٹلو بنگلہ کے قریب ایک آئل فیلڈ کی کھدائی کے کام کا آغاز کیا گیا ہے یہ شائد پچیس سال کی تاخیر سے ڈرلنگ کی جار ہی ہے۔کوہلو بلوچستان میں2500کلومیٹر کے وسیع رقبے میں گیس کے ذخائیر ہیں ۔اسی طرح حیدر آباد کے قریب ،اسلام آباد،پختون خواہ کے کئی علاقوں، گوادر،پسنی اور پنجاب کے کئی علاقوں میں 22ٹریلین کیوبک فیٹ کے موجود ذخائیرکے فائنل سروے ہوچکے ہیں‘جس کو نکالنے سے موجود 29ٹریلین کیوبک فیٹ گیس کے ذخائیر کو دگنا کیا جاسکتا ہے جو ملکی ضروریات سے زائد ہے کو ،شرط یہ ہے کہ اس گیس کو نکالا جائے۔

دوسری طرف عالمی سامراجی ممالک کی طرف سے ایران ۔پاکستان گیس لائین کو روک دیا گیا ہے۔سعودی عرب اور امریکہ کی طرف سے بندشوں کی وجہ سے سستی گیس کی درآمد کے امکانات مخدوش ہوچکے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب کی قطر کے ساتھ شدید محاذ آرائی کی وجہ سے قطر سے مائع گیس کے معاہدے بھی عمل درآمد کے مراحل سے دور ہوچکے ہیں ۔اسی طرح تاجکستان۔افغانستان۔

ایران۔ پاکستان اور بھارت گیس لائین کے منصوبے پر عمل ہونے کے عملی امکانات مخدوش ہوچکے ہیں۔تھر کے کوئلے کے ذخائیر سے گیس بنائی جاسکتی ہے مگر اس منصوبے پر بھی کوئی ایسی حکومت کام کرسکتی ہے جو ”کمیشن مافیا“ نہ ہواور سامراجی ایجنڈوں کے مطابق ملکی پالیسیاں تشکیل نہ دیتی ہو۔ چین کے ساتھ انرجی پراجیکٹ کے معاہدہ جات میں کوئلہ سے بننے والی بجلی حالیہ مضر صحت اور فرسودہ قسم کے کول انرجی پراجیکٹ کے لئے بھی کوئلہ پاکستان کی بجائے چین سے مہنگے دامے درآمد کرنے کی پالیسی ظاہر کرتی ہے اس سے بننے والی بجلی کتنی مہنگی ہوگی اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کتنی محب وطن اور عوام دوست ہے۔

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز(IMF)کی ہدایات پر گیس کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ گیس کے صارفین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔کل گیس کا چالیس فی صد گھریلو صارفین استعمال کررہے ہیں۔لوڈ شیڈنگ اور کم پریشرگیس کی وجہ سے گھروں کے اندر بحران سرائیت کرچکا ہے۔کھانا پکانے کا کام مسئلہ بن چکا ہے۔ لکڑیاں واپس آگئی ہیں۔گھریلو صارفین ہوٹلوں سے کھانا کھانے پر مجبور۔

چھوٹے شہروں میں سارا سال گیس کی لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے۔ ہفتے میں تین دن گیس کی مکمل بندش رہتی تھی ۔اب تقریباََ دوہفتوں سے گیس بالکل بند ہے۔عام طور پر کم پریشر کی وجہ سے گھریلو صارفین ہیٹ گن،کمپریسر لگا کر کچھ گیس کھینچ پاتے ہیں ۔جس سے گیس کا بل سردیوں میں 270روپے سے 7500تک تجاوز کرجاتا ہے۔گیس کے ساٹھ فی صد نرخ بڑھنے سے گیس کے بل کہاں پہنچ جائیں گے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال کا تدارک ایک ایسے نظام میں ہونا ناممکن نظر آتاہے جس میں صارفین اور عام آدمی کی بجائے کمپنیوں کے مفادات اور بنکوں کے منافعوں کو ترجیح دی جاتی ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :