طریقہ ٴ واردات!!

ہفتہ 3 جنوری 2015

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ویسے تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہمیں بھارت کی کچھ غیر کنٹرول طاقتوں کی جانب سے ” جارحیت “کا سامنا ہے جو ہم پر ”جنگیں “مسلط کرکے بھی کر چکا ہے تاہم بھارت کی مودی حکومت نے تو اقتدار میں آتے ہی جارحیت کی انتہاء کر دی ہے اور وہ پرامن بقائے باہمی کے عالمی اصولوں سمیت جنگی قوانین اور اخلاقیات کو بھی ملیامیٹ کررہا ہے جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے دور حکومت میں ہی پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کی گھناؤنی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں جس کا وہ آئے روز کی ننگی جارحیت کے ذریعے ثبوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔

اسکے برعکس وزیراعظم میاں نوازشریف کو بی جے پی کے سابقہ اقتدار میں پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے واجپائی کے ساتھ ہونیوالی پیش رفت کے تناظر میں توقع تھی کہ پاکستان بھارت مذاکرات کا جو ایجنڈا اکتوبر 99ء میں حکومت پاکستان پر فوجی شب خون کے باعث ادھورا رہ گیا تھا‘ وہ اب بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے سے پیش رفت کے اگلے مراحل طے کرلے گا۔

(جاری ہے)

اسی خوش فہمی میں وزیراعظم نوازشریف بھارت پر ریشہ خطمی ہوتے رہے اور اسکے ساتھ نرم سے نرم شرائط پر تجارت اور دوستی کی راہیں ہموار کرتے رہے۔ اسی خوش فہمی میں وہ نریندر مودی کی دعوت پر انکی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کیلئے نئی دہلی گئے مگر مودی نے اگلے روز رسمی ملاقات میں بھی تمام سفارتی آداب اور مہمان نوازی کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ان پر دراندازی کے بے بنیاد الزامات کی صورت میں چڑھائی کر دی اور اپنی جانب سے الزامات کی طویل فہرست تھما کر انہیں پاکستان روانہ کیا چنانچہ مودی کے اقتدار کے آغاز میں ہی پاکستان کو واضح پیغام مل گیا تھا کہ مودی پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف اپنی جنگی جنونی ذہنیت کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان کر اقتدار میں آئے ہیں جس کیلئے انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں ہی پاکستان دشمنی کو فوکس کرکے منصوبہ بندی کی تھی۔

اس طرح مودی پاکستان کیلئے بغل میں چھری منہ میں رام رام کا عملی نمونہ ثابت ہوئے ہیں اور اپنے اقتدار کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ہی انہوں نے پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی اپنے ایجنڈے کو انتہاء تک پہنچا دیا ہے۔ اسی ایجنڈے کی بنیاد پر انہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان سے نہ صرف ملاقات سے گریز کیا بلکہ انہیں سخت پیغامات بھی دیتے رہے۔

اسی طرح دو ماہ قبل کی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ دانستہ طور پر سرد مہری کا رویہ اپنائے رکھا اور کانفرنس کے آخری روز اختتامی سیشن کے بعد میاں نوازشریف سے مصافحہ کرتے ہوئے بھی اپنی باڈی لینگویج کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں کسی بھی فورم پر اپنے پڑوسی پاکستان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

حالیہ دنوں میں شکرگڑھ سیکٹر میں فلیگ میٹنگ کیلئے بلائے گئے رینجرز کے جوانوں پر فائرنگ بھارت کا پرانا طریقہ واردات ہے ۔مذکورہ سانحہ میں پاکستان رینجرز اہلکار نائیک محمد ریاض شاکر اور نائیک محمد صفدر شہید ہو گئے۔ یہ دونوں اہلکار بھارتی فائرنگ سے زخمی ہو کر گرے تو رینجرز کے جوان انہیں اٹھانے کیلئے آگے بڑھے مگر بھارتی بی ایس ایف کے اہلکاروں نے ان پر بھی فائرنگ کر دی اور انہیں اپنے زخمی ساتھیوں کو فوری طبی امداد کیلئے اپنے ساتھ نہ لے جانے دیا جبکہ بھارتی فورسز نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور تمام دوطرفہ امن معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زخمی جوانوں تک ایمبولینس کی رسائی بھی نہ ہونے دی چنانچہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہو گئے۔

دشمن فوج کی فائرنگ کے بعد پاک رینجرز کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کی گئی۔ ترجمان پاک رینجرز کا کہنا ہے کہ بی ایس ایف لوکل کمانڈر نے فلیگ میٹنگ سے متعلق کال دی تھی‘ رینجرز افسروں کو بلا کر دھوکے سے فائرنگ کی گئی۔ بھارتی فورسز نے ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری بھی کی اور بھورے چک‘ لمبڑیال اور ٹنڈر چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔

بھارت نے مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر سیزفائر کی خلاف ورزی کا الزام بھی پاک فوج پر عائد کر دیا اور کہا کہ پاکستانی فوج کی سامبا سیکٹر پر فائرنگ سے ایک بھارتی فوجی ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا ہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع منوہر پریکر نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی طرف سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں کی صورت میں بھارت جوابی کارروائی میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریگا۔

ہمارے خیال میں ملکی سالمیت سے بڑھ کر تو ہمیں کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی اس لئے بھارتی جارحیت کا ایسا پیغام دیا جائے کہ آئندہ اسے کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف ایسی ”ننگی جارحیت“ اور پرانے طریقہ واردات مزید دہرانے کی جرات نہ ہو۔ قوم کو بہرصورت ملک کی سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے سخت تشویش ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :