قتل یا خود کشی

ہفتہ 3 جنوری 2015

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

یہاں پر میں جس موضوع کو بیان کر رہا ہوں نہ وہ فرضی ہے نہ ہی کسی فلم کا کوئی سین ہے بلکہ یہ حقیقت پر مبنی دلخراش واقعہ ہے ایک ایسا واقعہ جسے کئی سال گزر جانے کے باوجود میں آج تک نہ بھلا پایا۔ہوا یوں تھا کہ جون 1997ء کو میرے نانی کی انتقال ہو گئی تھی اور اس وقت میں اپنے چھوٹے سے گاوٴں جس سے میری بچپن کی یادیں وابسطہ ہیں میں موجود تھا۔

اور گاوٴں کے رسم و رواج سے سب ہی واقف ہیں کہ جہاں انسان کو اپنائیت بہت زیادہ ملتی ہے اور نانی کی اس وفات نے ہمارے گھر کو سوگوار بنایا تھا جبکہ گاوٴں کے دیگر افراد دلی ہمدردی کے لئے ہمارے ہاں جمع تھے۔کہ اچانک کسی بچے نے دور سے آواز لگانی شروع کی اور سب اس آواز کی جانب متوجہ ہوئے۔ بھاگتا ہوا بچہ جسکا بھاگتے بھاگتے سانس پھولا ہوا تھا قریب آکر ایک ناخوشگوار واقعہ سنا دیا کہ فلانے کی بیٹی نے ندی کے پانی میں کھود کر جان دے دی ہے۔

(جاری ہے)

تعزیت گاہ پر موجود ماں نے جب یہ اطلاع سنی تو دھاڑیں مارتا ہوا ندی کے اس جانب دوڑے چلی گئی جہاں اسکی بیٹی کی لاش رکھی ہوئی تھی۔ پورے گاوٴں کے لوگ جو تھوڑی دیر پہلے ہمارے ہاں ہمدردی کے طور پر موجود تھے۔وہ بھی اسی جانب چل دیئے لاش ندی کے کنارے رکھی تھی۔۔ لوگوں نے لاش کو گھیر رکھا تھا۔ لاش کے قریب بیٹھی اس لڑکی کی بڑی بہن رو رہی تھی اردگرد گھیرا جمائے اس مجمع کو چھیرتا ہوا ماں اپنی بیٹی کی لاش کو دیکھ کر اپنی ہوش و حواس کھو بیٹھی اور ہجوم کے سامنے اپنی بڑی بیٹی کو لعنت ملامت کرنے لگی کہ واقعہ اسی کی وجہ سے ہوئی ہے۔

اور باپ کے شفقت سے محروم لڑکی جو اس وقت دنیا کے غموں سے بے خبر تھی لاش سے لپٹ کر رونے والی ماں بار بار بڑی بیٹی کو کوستی جا رہی تھی کہ اس واقعے کا اصل ملزم وہی ہے کہ زمہ داری دینے پر مرگی کے مرض میں مبتلا اپنی چھوٹی بہن کا خیال نہ رکھ سکی اور یہ واقعہ پیش آیا۔ احساس ندامت اور لاچارگی بڑی بہن کے چہرے سے عیاں تھی لیکن اپنی صفائی دینے کے لئے اسکے پاس الفاط نہیں تھے۔

بہت سے لوگ اپنے احساسات کو آنسووٴں کی صورت میں بہا کر اْس بوڑھی ماں سے افسوس کا اظہار کر رہے تھے جو غم سے نڈھال تھی۔ میت کو غسل دینے کے لئے گھر کی طرف روانہ کر دیا گیا تھا۔ اور پورے گاوٴں کی فضاء میں خاموشی چھا گئی تھی اور میت کو اسکی آرام گاہ تک پہنچانے کے لئے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں جبکہ مسجد سے میت کی چارپائی بھی اس گھر تک پہنچائی گئی تھی۔

آدھا گھنٹہ ہی نہیں گزرا تھا کہ اسی گھر سے رونے دھونے اور شور و غل کی آوازیں دوبارہ اٹھنے شروع ہو گئیں بس اگلی خبر آہی گئی کہ چار بچوں کی ماں بڑی بہن نے بھی خودکشی کی ہے۔۔ یہ المناک واقعے یکے بعد دیگرے سامنے آنے کی وجہ سے پورے گاوٴں والوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ جو اپنوں نے سنا یا غیروں نے سنا سب کے آنکھ اشکبار تھے۔۔ گاوٴں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس قسم کا واقعہ پورے گاوٴں کو سوگوار کر گیا ۔

ایک ہی وقت میں ایک ہی گھر سے دو جنازے اٹھ گئے۔۔ اور پورے گاوٴں میں صف ماتم بچھ گیا۔۔
دنیا میں بے شمار واقعات ہوتے ہیں لیکن بہت سے واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو انسان کے زہن پر نقش ہو کر رہ جاتی ہیں انہی واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی تھا جسکے منظر 17 سال گزر جانے کے باوجود بھی آج میرے زہن میں نقش ہے اور وہ مناظر میں آج بھی بھلا نہیں پایا۔

گو کہ اس وقت میری عمر 13برس تھی۔ اس وقت سے لیکر آج تک میرے زہن میں یہ سوال گردش کرتی رہتی ہے کہ آیا بڑی بہن کی موت ایک قتل تھی یا خود کشی۔۔ لیکن آج تک اسکا جواب مجھے نہ مل سکا۔ اور نہ ہی مل سکے گا کیونکہ اسکی سب سے بڑی وجہ جو اکثر ہمارے معاشرے کی جانب سے خاموشی کی صورت میں سامنے آجاتی ہے کہ جو واقعہ ہونا تھا ہو گیا اب تبصرہ کرنے کا کیا فائدہ۔

۔آیا اس عورت کو اقدام خودکشی پر اکسانے کے وجوہات یہ نہیں تھے کہ ایک ماں نے پورے مجمع کے سامنے جو رویہ اپنی بیٹی کے ساتھ اس وقت اپنایا جب وہ اپنی بہن کے لاش کے قریب بیٹھی رو رہی تھی۔۔ یا اس معاشرے سے جڑے وہاں موجود انسانوں کا جو اس وقت اسے بے قصور قرار دیتے اور اسکا بچاوٴ کرتے جب اس وقت اس عورت کی نگاہیں انصاف طلب کر رہی تھیں۔ جو اپنی بے قصوری ثابت کرنے کے لئے وہاں موجود ہر فرد کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ کہیں کوئی اسے بے قصور قرار دے اور دو لفظ انصاف کے اسکے حق میں بول دے۔

۔ لیکن اسے ہر نظر میں اپنی تصویر ایک مجرم کی نظر آرہی تھی۔جسکا سہارا لے کر اپنی احساس ندامت اور سوسائٹی کے سوالوں سے آزاد کرنے کے لئے ایک ہی راستہ اختیار کیا وہ تھا خودکشی کا۔۔ گو کہ ہمارے معاشرتی انسان اسے بچانے کے لئے اسے بے قصور قرار دینے کے لئے دو الفاظ بول دیتے لیکن سب نے خاموش چہروں کے ساتھ اس عورت کو مجرم قرار دینے کے لئے ماں کے الزامات کی تائید کی جس نے نہ صرف اسے خودکشی پر آمادہ کیا بلکہ گاوٴں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا۔


شاید میری سوچ غلط ہو اسلئے میرے زہن میں آج بھی سوال اٹھتے ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جس میں ہمارے سوسائٹی اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ اس میں ضرور ملوث ہے۔ ہمارے معاشرے میں اداروں اور شرفا کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے معاشرے کو درست کرنے کا بھیڑا اٹھایا ہے۔ لیکن ایسے واقعات تواتر کے ساتھ کیوں ہو رہے ہیں کیوں نہ ایسے واقعات کی کیس اسٹڈی بنا کر معاشرے میں مزید اس قسم کے اقدامات اٹھانے والوں کو روکا جا سکتا ہے۔

لیکن ایسے معاملات پر نہ انکی جانب سے بحث و مباحثہ سامنے لایا جاتا ہے اور نہ ہی اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے بلکہ اسے ماضی کا حصہ قرار دے کر اسے بھلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسکے اثرات آنے والی نسلوں پر نہ پڑیں لیکن پھر حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کا جنم دوبارہ ہو ہی جاتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :