روزو شب کی تزئین

ہفتہ 3 جنوری 2015

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

ایسی ہوا چلی ہے کہ سالوں کا بوجھ مہینوں کو سہارنا پڑ رہا ہے،مہینوں کا بوجھ ہفتوں کو سہارنا پڑ رہا ہے،ہفتوں کا بوجھ گھنٹوں کو سہارنا پڑ رہا ہے اور گھنٹوں کو بوجھ منٹوں کو سہارنا پڑ رہا ہے۔مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ سالوں اور مہینوں کا بوجھ بھی منٹوں اور سیکنڈوں کو سہارنا پڑ رہا ہے۔ ہر کوئی سالوں میں مکمل ہونے والے کام کو لمحوں میں مکمل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔

اِسی وجہ سے ہم میں سے اکثر کوہ ہمالیہ اپنے سر پر اُٹھائے پھرتے ہیں یا ہماری حالت ایسی ہوتی ہے جیسے ہمارے ارد گرد بھڑیں بھیں بھیں کر رہی ہوں اور بھڑوں کے جتھے میں بچنے کے لئے ہم ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مار رہے ہوں یا جیسے کوئی گہرے پانیوں میں ڈوبنے سے پہلے اِدھر اُدھر ہاتھ پاؤں ماررہا ہو۔

(جاری ہے)

یہ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے لوگ،یہ ہانپتے ہوئے نوجوان،یہ بے صبریاں ،بے تابیاں نتائج سے پہلے نتائج کو دیکھنے کا نتیجہ ہیں۔

ایک بچہ پانچویں جماعت میں پڑھ رہا ہے ، اب اُسے افسر بننے کے لئے پندرہ سال درکار ہیں لیکن والدین کی بے تابیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے جیسے یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم رات کو سوئیں صبح جاگیں تو ہمارابیٹا افسر بنا بیٹھا ہو۔ایک آدمی کاروبار شروع کرتا ہے کاروبار چلنے تک سالوں اُسے صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے لیکن اُس کی بے تابیاں یہ ظاہر کرتی ہیں جیسے وہ لمحے میں سب کچھ پا لینا چاہتا ہو۔

بے تابیوں میں گزری ہوئی زندگی میں ترتیب اور تنظیم نہیں ہوتی، اس میں سلیقہ اور قرینہ نہیں ہوتا۔سارے کام ہی ادھورے ہوتے ہیں۔اگر ہم لمحہ موجود پر اپنی پوری توجہ اور توانائی صرف کریں تو اس لمحہ میں کیا جانے والا کام بہت احسن طریقے سے انجام پائے۔جو مسلے آج دریپش ہیں ان کو حل کرنے کی فکرآج کی جائے اور جو مسلے کل درپیش ہوں گے ان کے لئے فکر کو کل تک ملتوی کر دیا جائے تو زندگی سے بہت سے فالتو بوجھ اُتر جاتے ہیں۔

جو مسلے ہمیں کل درپیش ہونا ہوتے ہیں اُن کا حل تو ہم آج نہیں نکالتے لیکن اُن مسلوں کو اپنے کاندھوں پر آج اُ ٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں جبھی تو ہماری حالت بھونڈوں میں پھنسے ہوئے کسی شخص کی سی ہوتی ہے۔اگر کسی ٹائپسٹ کو ملازمت سے قبل ایک ایسے کمرے میں لے جایا جائے جہاں ہزاروں لاکھوں خطوط اور کاغذات کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں اور اس کو بتلایا جائے کہ یہ دورانِ ملازمت اس کو ٹائپ کرنے ہوں گے تو سوچئے کہ وہ کیا کرے گا۔

مجھے یقین ہے کہ وہ فوراِ یہی جواب دے گا۔ میں باز آیا ایسی ملازمت سے اور راہ فرار اختیار کرے گا۔لیکن تھوڑا تھوڑا کرکے یہ سب کام وہ بخوشی کر لے گا۔یہی صورتحال زندگی کی بھی ہے ہزاروں لاکھوں مسائل اور پریشانیاں ایسی ہیں جن سے ہمیں زندگی میں سابقہ پڑتا ہے اور جنہیں ہم نے حل کرنا ہوتاہے،اگر ہمیں یہ سب مشکلات اور پریشانیاں اکٹھی پڑی ہوئی کہیں نظر آ جائیں توہم یقینا بد حواس ہو جائیں۔

ہمیں زندگی ناقابلِ برداشت محسوس ہی اسی لئے ہوتی ہے کہ ہم نے آنے والے وقت اور گزرنے والے وقت کو ایک ساتھ اپنے دماغ میں لادا ہوا ہوتاہے اور اس بوجھ کی وجہ سے ہمارے سانس پھولے ہوئے ہیں۔ گزرے ہوئے کل آنے والے کل کی مشکلات کو ہر وقت سر پر لادے لادے پھرنے سے حل نکلنے کی بجائے الجھاؤ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔اصولی طور پر ایسا ہونا چاہیے کہ گزشتہ دن کی پریشانیاں تمام ہوچکیں ان سے تجربہ اور سبق حاصل کر کے انہیں فراموش کر دینا چاہیے،کل جو فیصلے کرنے ہیں وہ وقت آنے پر سوچے جائیں گے۔

جن کے سوچنے کا ابھی وقت ہی نہیں آیا ان کے لئے سوچنا اور پریشان ہونا آ بیل مجھے مار والی بات ہوگی۔ ہماری تمام تر توجہ آج کے مسائل کے حل کرنے پر ہونا چاہیے اور ان سے بہر صورت آج نمٹ لینا چاہیے۔اگرہمارا طرز عمل یہ ہو تو زندگی خوشگوار اور آسان ہو جائے گی ۔ بھرپور زندگی اپنی تمام تر پریشانیاں کے باوجود، آج ،میں ہے۔اپنی توانائیوں کو اس فکر میں ضائع کرنا کل کیا ہوگا حماقت ہے یا گزشتہ روز جو غلطیاں ہو گئیں اس کے غم میں گھلتے رہنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم فکر کرنا ضروری تصور کرتے ہیں تو جو کچھ آج ہو رہا ہے اس کی فکر کریں۔اس طرزِ عمل سے زندگی بہت آسان ہو جائے گی اور سنور جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :