دھوبی

ہفتہ 3 جنوری 2015

Hussain Jan

حُسین جان

تمام اخبارات پڑھے ،مختلف کالم نگاروں کی تحریروں کو چھانامگر کہیں کوئی ایسی خبر سننے یا دیکھنے کو نہیں ملی جس سے عوام کے چہرئے پر کچھ مسکراہٹ بِکھرجائے،تو سوچا کچھ ایسا لکھوں جس سے لوگوں کا سٹریس کچھ کم ہو ،یہ سوچا ہی تھا کہ دل میں اپنے ایک جاننے والے دھوبی کا خیال آیا ،ابھی یہ خیال آیا ہی تھا کہ موصوف خود بھی ٹپک پڑئے اور بولے کہ صاحب کپڑئے لا دیں لے جاؤں ،دل نے کہا کیوں نہ اس سے کچھ گفتگو کی جائے ،ویسے بہت سے ایسے جملے ہیں جو ہمیشہ جناب کی زبان میں رہتے ہیں مثال کے طور پر آپ اُن کو کہیں یارملک میں دہشت گردی کیسے ختم کی جائے تو فورا جواب دے گا لو جی اس میں کون سا منتر پڑھنا پڑتا ہے۔

جیسے میں سارا سارا دن اپنے کھوتے کو مارمار کر سیدھا کرتا ہوں ایسے ہی ان کھوتوں کو بھی سیدھا کیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)


خیر میں نے پوچھا اور سناؤ آجکل کیا مصروفیات ہیں تو جھٹ سے بولا کہ سب سے پہلے تو وہی کہ کپڑئے لے آؤ پھر ان کو دھونے بیٹھ جاؤ پھر ایک دم سے اُسے کچھ یاد آیا تو بولا یار اے سالی بتی کا مسلہء کب حل ہونا ہے۔ میں نے کہا کچھ تم ہی تجویز کر دو کے کیسے حل کیا جائے اس مسلے کو تو جناب نے عجیب سا منطق پیش کیا کہنے لگا اے کیڑی سائنس اے۔

تین چار پڑھے لکھے بندے لبو او خود ہی بتی بنا لیں گے۔ پھر بولا پر نہیں اس ملک وچوں تین چار چنگے بندے وی تے نہیں لبدے۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد فرمانے لگا کہ آج صبح صبح میری گھر والی کے ساتھ اچھی خاصی جنگ ہوئی ہے میں نے پوچھا وہ کیوں تو کہنے لگا میں نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ بھلی مانس مجھے ناشتہ بنا دے تاکہ میں کام پر نکل سکوں تو آگے سے بولی ناشتہ بنانے کے لیے آگ کہاں سے لاؤں ،میں تو ترس گئی ہوں کے گیس کی شکل دیکھوں گھر میں جو لکٹریاں تھیں وہ سب جلا ڈالی ہیں اب تمہیں ہی بطور انیدھن استعمال کروں گی۔

اور پھر ہو گئی شروع میرے باپ دادا کے دادا کو کوسنے کہ کس منحوس سے شادی ہو گئی ہے ۔بندہ پوچھے اس میں میرا اور میرے اباؤاجداد کا کیا قصور گیس ہم نے تھوڑی نہ بند کی ہے۔ میرے باپ دادا تو بیچارے ساری زندگی بھوک ننگ سے ہی لڑتے لڑتے مر کھپ گئے ۔
اتنی دیر میں چھوٹا نظر آیا تو اُسے پوچھا کہ سکول کیوں نہیں گیا تو کہنے لگا ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ سکولوں میں بم چلنے شروع ہو گئے ہیں اسی لیے کچھ دیر گھر میں ہی رہواور اپنی امی کے آس پاس ہی رہا کرو،یہ سن کر چچا دھوبی کو بہت غصہ آیا کہ الو کے پٹھے کو کھلاتا میں ہوں اور گن گاتا ہے دھوبن کے۔

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک دھماکے کی آواز آئی باہر جا کر دیکھا تو پتا چلا کے ایک غیر قانونی ایل پی جی والے کی دُکان میں سلنڈر پھٹ گیا تھا،یہ تو شکر ہے اللہ کا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دُکان والے سے پوچھا بھائی تمیں کسی نے یہ غیر قانونی کام کرنے سے روکا نہیں تو بولا کہ کسی نے نہیں ہاں کچھ لوگ مہنے کے مہنے آکر کچھ پیسے لے جاتے ہیں کہ جیسے مرضی آئے گیس بچتے رہو۔


خیر ہم نے کہا چلو کوئی بات نہیں صرف ایل پی جی ہی نہیں اور بھی بہت سی دوسری چیزیں اس ملک میں غیر قانونی طریقے سے بک رہی ہیں ہمیں اُس سے کیا لینا،تو چچا دھوبی ایک دم غصے میں لال پیلا بلکہ کالا سیا ہو گیا اور اپنی دھوتی کو اُوپر اُٹھا کر بولا پتر تم ابھی بچے ہو تمہیں پتا نہیں ہم نے یہ ملک کیسے حاصل کیا ہے۔ کتنی قربانیاں دی ہیں تم لوگوں نے صرف کتابوں میں تقسیم پاکستان پڑھ رکھی ہے جبکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس ملک کو بنتے دیکھا اور ایسے ایسے قربناک مناظر دیکھیں کہ تم لوگ دھنگ راہ جاؤ۔

یہ سالے آج کے لونڈے اس ملک کو کیا چلائیں گے جن کو اپنا پچھواڑا بھی ٹھیک سے دھونا نہیں آتا۔ اگر اسی طرح کے غیر قانونی دھندے ہوتے رہے تو ایک وقت آئے گا جو ملک بچ رہا ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ چچا مزید غصے سے بولا کہ جب ہم چھوٹے تھے ایک تھانیدار پورے پورے علاقے کو بندے کا پتر بنا کر رکھتا تھا۔ تب وہ تھانیدار نہ خود رشوت لیتا تھا نہ کسی اور کو لینے دیتا ایک مجرم پکڑنے کے لیے کئی کئی سو میل کا فاصلہ بیچارا اپنے خرچ پر کرتا مگر مجال ہے جو مجرم چھپ پائے ۔

اب تو سالے بڑئے بڑئے پھڑاڈ ہو رہے ہیں کسی کو پتا ہی نہیں چلتا۔
ابھی ہم یہ باتیں کر رہی رہے تھے کے جناب کے فون پر انہتائی بے ڈھنگی سی گھینٹی بجی تو میں اک دم چونک گیا،چچا کے فون سننے کا انداز بھی نرالہ تھا ہمیشہ موبائل کو اُلٹی طرف سے پکڑتا تھا۔ خیر فون پر بولا کون ہے تو دوسری طرف سے کسی گاہک کی آواز آئی کہ میرے کپڑئے ابھی تک کیوں نہیں پہنچے تو چچے نے جھٹ سے جواب دیا لارہا ہوں صاب جی کبھی صبر کا دامن بھی پکڑ لیا کرو۔

پھر چچا میری طرف متوجہ ہوا بولا ایک بات بتاؤں پتر یہ آج کے نو دولتے بھی بہت منہوس شے ہیں سالوں کے پاس نئی نئی دولت آگئی ہے تو کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ ابھی کل کی بات ہے میں ایک کوٹھی میں کپڑئے دینے گیا تو سالوں نے ایک لمبا چھوڑا کتا مجھ پر چھوڑ دیا وہ تو اللہ بھلا کرئے اُس نے مجھے کاٹا نہیں پر ایک دفعہ میرا لہو خشک ہو گیا تھا۔

صاحب نے اپنے کتے کو اپنی طرف بلا لیا میں نے کہا یہ سب کیا ہے تو بولے بس یار تیرے نال مذاق کر رہے سی بندہ پوچھے تیری اپنی شکل وی اس کتے ورگی ہے تو انسانوں کو خود ہی ڈرا لیا کر ویسے بھی غریبوں کے مال سے تیرا پیٹ کسی کتے سے کم تھوڑی نہ ہے۔
پھر میں نے پوچھا چچا یہ بتاؤ ملک میں سے غربت مہنگائی کیسے ختم ہو گی تو چچا دھوبی کا جواب سن کر میں سکتے کی سی کفیت میں آگیا بولا پتر اگر اس ملک میں سے غربت و افلاس کو ختم کرنا ہے تو امیروں کو ختم کردو۔

میں نے کہا چچا یہ کیا بات کر رہے ہو غریبوں کی زندگی بنانے کے لیے امیروں کا قتل کہاں کا انصاف ہے تو چچا بولا او میرے کھوتے پتر میں نے کب کہا کہ ان کو قتل کر دو میں تو کہ رہا ہوں ان امیروں کو ختم کردو مطبل یہ کہ ان سے دو نمبر کا سارا پیسہ لے کر غریبوں میں بانٹ دو امیر بھی ختم ہو جائیں گے اور غریب بھی۔ پھر میں نے کہا چچا لوگوں کو علاج کے لیے کیا کرنا چاہیے چچا پھر بولا کہ پتر جتنے ڈاکٹر ملک سے باہر جا رہے ہیں ان کے پرمٹ(لاسینس) ختم کردو۔

اور یہ جو وزیر مشیر ہیں نہ ان کے بیماروں کو زبردستی سرکاری ہسپتالوں میں داخل کروا دو دیکھنا کیسے ملک میں اچھے اچھے ہسپتال بن جائیں گے اور غریبون کا بھی بھلا ہو جائے گا۔
پھر چاچے پر اک دم فلاسفی کا دورا پڑا بولا دیکھ پتر دُنیا چار دن دی ہے کسی نے ایتھے سدا نہیں رہنا تے کیوں نہ ایسا کم کر کے دُنیا تو جائیے کہ دُنیا میں نام بھی رہے اور لوگ دعاؤں میں بھی یاد رکھیں اگر ہم ایک دوسرئے کا خیال رکھیں امیر جو چیز اپنے بچے کے لیے خریدتا ہے وہی چیز اپنے نوکر کے بچے کو بھی خرید دے۔

جس سکول میں اُس کے بچے جاتے ہیں وہاں اپنے نوکروں کے بچوں کو بھی داخل کروا دے ۔ جس ہسپتال سے خود کا علاج کرواتا ہے وہاں اپنے نوکروں کا بھی کروا دے۔ تو اس ملک کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ اگر ہم اپنی بے حسی کو ختم کر کے زندہ دلوں کی طرح چینا سیکھ جائیں تو ہمارا ملک وی امریکہ ورغا بن جائے گا۔ یہاں بھی کوئی بھوک سے نہیں مرئے گا۔ بڑئے بڑئے ہیلی کاپٹر چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی گاڑیوں میں آجائیں تو ملک کو سنورنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اچھا پتر میں ہن چلنا میرے کم دا ٹیم ہو گیا ہے۔ اللہ اس ملک تے اور اس ملک کے رہنے والوں تے رحم کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :