خفیہ مقام پر کامیابی کا جشن!

بدھ 31 دسمبر 2014

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

نیٹو افواج نے افغانستاں میں اپنا13سالہ جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کابل کے ملٹری ہیڈ کوارٹرز میں منعقدہ ایک خفیہ تقریب میں نیٹو افواج کے کمانڈروں نے ایساف کا پرچم لپیٹ کرافغانستان میں اپنا جنگی مشن بند کرنے اور سیکیورٹی کی ذمہ داری افغان فوج کے حوالے کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں نیٹو افواج کی” کامیابی“ کا جشن سکیورٹی خدشات اور طالبان کے حملوں کے خوف سے خفیہ مقام پر منایا گیا۔

افغان حکومت کے ساتھ سمجھوتے کے تحت ساڑھے `12ہزار نیٹو فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے۔ دوسری جانب طالبان نے نیٹو کے جنگی مشن کے خاتمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں اور وہ جنگ ادھوری چھوڑ کر افغانستان سے بھاگ رہے ہیں۔

(جاری ہے)


نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے محض انتقامی جذبے سے مغلوب ہوکر دنیا میں ایک نئی ”صلیبی جنگ“ لڑنے کا اعلان کردیا اور اس جنگ کے لیے میدان افغانستان کو منتخب کرلیا گیا جہاں ایک اسلامی حکومت قائم تھی۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت کا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق آج تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن امریکا نے محض شبہے کے تحت طالبان کو مورد الزام ٹھہرا کر پہلے سے تباہ حال افغانستان کو مزید تباہی وبربادی سے دو چار کرنے کے لیے دنیا کی چالیس بہترین افواج کو لے کر یلغار کردی اور دعویٰ یہ کیا گیا کہ بہت تھوڑے عرصے میں افغانستان میں دہشت گردوں (طالبان، القاعدہ) کا خاتمہ کردیا جائے گا اور وہاں ایک حقیقی جمہوری حکومت قائم کی جائے گی۔

اس مقصد کے لیے امریکا اور عالمی طاقتوں نے اپنے تمام وسائل جھونک دیے، بعض رپورٹوں کے مطابق اب تک 3 ٹریلین ڈالرز افغانستان کی جنگ پر خرچ کیے گئے، یہ رقم اگر کسی خطے کی تعمیر وترقی پر صرف کی جاتی تو پورے براعظم افریقا کے تمام غریب اور ترقی پذیر ممالک کو یورپ کے معیار زندگی کے قریب لایا جاسکتا تھا اور متعدد وبائی امراض کا دنیا سے خاتمہ کیا جاسکتا تھا لیکن عالمی طاقتوں نے دنیا کے بہترین وسائل کو افغانستان اور عراق کی لاحاصل جنگوں میں ضایع کردیا اور نہ صرف عالم اسلام میں اپنے خلاف نفرت کی ایک فصل کاشت کردی بلکہ خود اپنی معیشت اور عالمی اقتصادیات کو بھی شدید نقصانات سے دوچار کردیا۔


امریکا اور عالمی طاقتوں نے آج سے دو تین برس اس وقت افغانستان سے بوریا بستر لپیٹنے کا فیصلہ کیا جب انہیں اندازہ ہوا کہ اس دلدل سے نکلنے کے راستے بھی مسدود ہونے والے ہیں اور پورا یورپ وامریکا مل کر بھی افغانوں کو عسکری محاذ پر شکست نہیں دے سکتے۔ چنانچہ عالمی طاقتوں نے پہلے تو افغانستان طالبان کی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کیں اور جب اس میں ناکامی ہوئی تو مذاکرات کا ڈول ڈالا جو تاحال کوئی خاص نتیجہ نہیں لا سکا ہے۔

افغانستان میں کٹھ پتلی انتظامیہ کی تبدیلی اور حالیہ عرصے میں اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو مشترک طورپر اقتدار سونپنے کے اقدام سے بظاہر تو نیٹو افواج کے لیے واپسی کا جواز مل گیا ہے تاہم افغانستان میں بر سرزمین صورت حال کیا ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ نیٹو کمانڈروں نے افغانستان میں اپنی ”کامیابی کا جشن“ خفیہ مقام پر منایا جو بجائے خودکسی لطیفے سے کم نہیں ہے۔

اس سے قبل امریکا نے طالبان رہنماؤں بالخصوص ملا محمد عمرکو نشانہ نہ بنانے کا اعلان کرکے عالمی مبصرین کو اس قیاس آرائی کا موقع فراہم کردیا کہ شاید امریکا نے طالبان سے محفوظ واپسی کا کوئی سمجھوتا کرلیا ہے۔ اب امریکا اور عالمی طاقتیں تزویراتی سازشوں اور خفیہ دسیسہ کاریوں کے ذریعے افغانستان میں مداخلت جاری رکھنے اور وہاں اپنی شکست کے تاثر کو چھپانے کی کوشش کریں گی، اس کے نتیجے میں افغانستان کے اندر ماضی کی طرح داخلی انتشار وخلفشار کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے، بنا بریں یہ افغانستان کی سیاسی قیادت بالخصوص طالبان، عمائدین اور مشران کی بصیرت پر ہے کہ وہ اپنے ملک کو مزید بے امنی اور خونریزی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

افغانستان کی تمام سیاسی قوتوں اور نسلی ولسانی اکائیوں کو اس امر کا ادراک کرلینا چاہیے کہ امریکا نے بالاخر طالبان کو ایک حقیقت تسلیم کرلیا ہے، افغان مسئلے کا پائے دار حل یہی ہوسکتا ہے کہ طالبان سمیت افغانستان کے تمام طبقات کی نمایندگی پر مبنی ایک حقیقی اسلامی حکومت قائم کی جائے اور افغانستان سے ہر قسم کی غیر ملکی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے۔ البتہ پاکستان چونکہ افغانستان کے مسئلے سے براہ راست متاثر ہوا ہے، اس لیے افغان مسئلے کے کسی بھی حل میں پاکستان کو اعتماد میں لینابہر حال ضروری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :