روزگار کے اشتہارات اور بے روزگار نوجوان

بدھ 31 دسمبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

یہ رش پرنس روڑ پر واقع ایک فوٹو کاپی کے دکان کی ہے جہاں لوگوں کا جم غفیر لگا ہو اہے۔ اور اس دکان پرزیادہ تر تعداد نوجوانوں کی معلوم ہوتی ہے جو اشتہارات کے حصول کے لئے اس دکان کا رخ کرچکے ہیں اور جب سے عدالت کی جانب سے بلوچستان کے محکمہ جات کے ملازمتوں پر تعیناتی کی پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ اس دن سے مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے مختلف اخبارات میں ”روزگار کے مواقع“ والے اشتہارات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

حکومتی اس اقدامات سے فوٹو کاپی کی دکانیں اور اخبارات کے اسٹال نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اور نوجوانوں کی انہی روزگار والی اشتہارات سے دلی ہمدردی اور محبت قابل دید ہے۔ اشتہارات کا یہ حصول انہیں لائنوں میں لگے رہنے سے دوچار ہونے کے باوجود اس انتظار کا لطف لینے میں معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

دکانداروں کا کاروبار چل نکلا اخبار مالکان کو اشتہارات کی مد میں فائدہ ملنا شروع ہو گیا ۔

اور رہا سوال بے روزگار نوجوانوں کا وہ تو اس کاروبار کے اہم وسیلہ بن گئے ہیں اشتہارات کا حصول ہو یا ڈاکومنٹس کی فوٹو کاپی، اخبارات کی خریداری ہو یا ڈاکومنٹس کے نقول کے لئے دستخط و مہر کے لئے رقم کی فراہمی یا انکے ڈاک و کوریئر کا خرچے کا۔ ملازمت کے حصول کے لئے کوشاں یہ نوجوان اپنی بچی کچی جمع پونجی خرچ کرنے کو ہی تیار ہیں۔ پرنس روڑ کی یہ دکانیں ہوں یا جناح روڑ یا میزان چوک پر لگے اخبارات کے اسٹال ہوں اشتہارات سمیت اخبارات سے استفادہ حاصل کرنے والے نوجوان ہی ہیں جو نہ ہی اخبار کا پہلا صفحہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں بیک پیج سے سرو کار ہوتی ہے بلکہ وہ اخبار لیتے ہی پہلی نظر میں اشتہارات والی صفحہ کو چھان مارتے ہیں۔

اور اس صفحہ کا مطالعہ انتہائی باریک بینی سے کیا جاتا ہے جو عام اوقات ایک امیدوار جو امتحان دینے سے پہلے نقل کے مواد کو بغوت جائزے سے پڑھ لیتا ہے۔دیکھنے کے بعد چہرے پر ملی جلی کیفیت نمایاں نظر آتا ہے۔۔
بلوچستان میں وقت کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور روزگار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی کی فضاء پیدا ہو رہی ہے اور نوجوان موجودہ صورتحال میں اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں سمجھتے اور انکا اعتماد اداروں پر اٹھ چکا ہے حکومت وقت کی جانب سے بے روزگاروں کو مواقع فراہم کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر خالی آسامیوں کے اشتہارات اخبارات کی زیب و زینت ہو رہے ہیں تاہم پانچ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک ان خالی آسامیوں پر امیدوار کی تعیناتی تو دور کی بات انکے ٹیسٹ و انٹرویو کے لئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

جس کی وجہ سے امیدواروں کو طویل مدتی انتظار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور بہت سی ذرائع سے یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ انہی ملازمتوں کے لئے سیکریٹریز ،وزر اور حکومت کے اہم اراکین کے درمیان ان بن چل رہی ہے اور انکے معاملات ابھی تک طے نہیں پا سکے ہیں اور ان اداروں کی خالی آسامیوں کے لئے ہر ادارے کو ہزاروں کی تعداد میں امیدواروں کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جبکہ انکی لسٹیں بھی تیار ہو چکی ہیں لیکن انکے ٹیسٹ و انٹرویو نہ کرانا ان نوجوانوں کو مزید انتظار گاہ میں کھڑا کرکے انکے صبر کو لبریز کرنے کے مترادف ہے۔

جبکہ رواں ماہ کے دوران بہت سے اداروں نے خالی آسامیوں کے ٹیسٹ و انٹرویو کی تاریخیں کئی مرتبہ طے کرکے انہیں اخبارات میں مشتہر کی تھیں لیکن جونہی انکے ٹیسٹ و انٹرویو کی تاریخیں نزدیک آگئیں تو دوبارہ انکی منسوخی ” ناگزیر وجوہات “ والی الفاظ استعمال کرکے ملتوی کر دیئے گئے جس سے ایک ہزار یا اس سے زائد کلومیٹر کا سفر اورمالی اخراجات برداشت کرنے والے بے روزگاروں کو ٹیسٹ و انٹرویو دیئے بغیر واپس جانا پڑا اور یقینا ان اقدامات سے نوجوانوں کے پختہ عزم کو ٹھیس پہنچ رہا ہے اور کئی بار ان ٹیسٹ و انٹرویو کے لئے آنے والے نوجوان دوبارہ اسی امید کو اپنے پہلو سے باندھ کر کوئٹہ جیسے دور دراز علاقے کا رخ کرنے سے کترائیں گے۔

جو اسی کئی مرتبہ کوئٹہ آنے کی صورت میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ ایک بے روزگار کے لئے کئی مرتبہ آنے جانے کا سفری اور رہائشی اخراجات اسکی بس سے باہر کی بات ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہئے تھا کہ پہلی فرصت میں بے روزگاری جو اس معاشرے کا ایک ناسور مرض بن چکا ہے اور نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اسکے خاتمے کے لئے اہم اقدامات اٹھاتے لیکن تاحال ایسا نہیں کیا گیا بلکہ نوجوانوں کو امیدوں کے سہارے باندھنے کے لئے آئے روز اشتہارات کی بھرمار کی جارہی ہے لیکن انہیں انکا حق دلانے کے لئے ابھی تک کامیاب دکھائی نہیں دیتا گو کہ حکومتی اراکین کے درمیان ذاتی اور سیاسی اختلافات ہر دور اقتدار میں موجود رہتے ہیں اور انکا حل انکے درمیان اتفاق رائے سے طے کیا جاتا ہے لیکن اپنے انہی اختلافات کو لیکر نوجوانوں کو بے رزگاری کے آڑ میں گھسیٹنا ایک درست فیصلہ نہیں۔

گو کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی چند مخلصانہ کوششوں سے چند معاملات میں بہتری تو آگئی ہے مگر بے روزگاری ایک اہم مسئلہ ہے اس پر قابو پانے کے لئے جتنا جلد ممکن ہو سکے اقدامات اٹھانے کی اہم ضرورت ہے۔ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ آف بلوچستان کو سوموٹو ایکشن لیکر ان آسامیوں پر بے روزگار نوجوانوں کی تعیناتی عمل میں لانے کے لئے حکومت وقت کو ڈیڈ لائن دینے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔

جبکہ موجودہ صوبائی حکومت پر یہ فرض بنتا ہے کہ نہ صرف صوبے کے پوسٹوں پر نوجوانوں کی جلد تعیناتی عمل میں لائیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ وفاقی محکموں میں بلوچستان کے نوجوانوں کی تعیناتی جیسے اہم مسئلے کو زیر غور لائیں ۔۔ اسکے علاوہ جتنا ہو سکے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے ایسے اداروں کا قیام عمل میں لائیں جو حقیقی معنوں میں بلوچستان کی ترقی میں اہم مثالی کردار ادا کرسکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :