مزید سانحوں سے کیسے بچا جائے؟

ہفتہ 27 دسمبر 2014

Dr Awais Farooqi

ڈاکٹر اویس فاروقی

ہمارے ہاں اس ایک مفروضے کو بڑھ چڑھ کر بیان کیا جاتا ہے کہ قوم کی شمولیت کے بغیر جنگیں نہیں لڑی جا سکتی اورقوم کی پشت پناہی کے بغیر فوج جنگ نہیں جیت سکتی، جبکہ دنیا کی جنگوں کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو جنگیں ہمیشہ فوج نے ہی لڑی اور جیتی بھی ہیں، مسلمانوں کے دور اول میں لڑی جانے والی تمام جنگیں سپاہیوں نے ہی لڑی اور جیتیں اسی طرح باقی دنیا کی تاریخ ہے، ہاں ایک حد تک یہ بات درست ہے کہ فوج کو عوام کی مورل سپورٹ کی ضرور ہوتی ہے مگر جب جنگ شروع ہو جاتی ہے تو خود بخود اسے عوام کی ہمائت حاصل ہو جاتی ہے ویسے بھی جب قوم کو فرقہ وارریت ، کے ساتھ رنگ و نسل اور مذہب کے خانوں میں تقسیم کر کے اسے قوم ہی نہ رہنے دیا گیا ہو،قوم کے خلاف جنگ کو قومی جنگ نہ سمجھا جا رہا ہو بلکہ حکومتی سطع سے لیکر جتھوں گروہوں ، جماعتوں اور میڈیا کے زریعے کنفوژن پھیلا دی گئی ہو اور قوم کسی ایک نکتے پر متفق نہ ہو تو پھر ہجوم سے نہیں پوچھا جاتا کہ گھر کے باہر آئے ہتھیا ر بند قاتل دشمن سے مذکرات کئے جائیں یا مقابلہ کیا جائے سانحہ پشاور کے بعد ہونا تو ہ چاہے تھا کہ حکومت اجلاس بلا کر صرف یہ بتاتی ہے کہ ہم سفاک قاتلوں کے خلاف فلاں اقدامات اٹھا رہے ہیں اور جسے کوئی اعتراض ہے تو وہ اس اجلاس سے اٹھ کر جا سکتا ہے ،مگر اتنی جراء ت ہماری سیاسی اشرافیہ میں ہوتی تو آج ہم بچوں کے نوحے نہ لکھ رہے ہوتے، کسی بھی معاملے کو التوا میں ڈالنا ہو یا نہ کرنا ہو تو اس پر کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور پھر کمیٹیاں بنتی جاتی ہیں ”کھابے“ چلتے رہتے ہیں معاملہ وقت اور کمیٹیوں کی گرد میں دب جاتا ہے۔

(جاری ہے)

وائے افسوس اٹھارہ کروڑ افراد کے اس ملک میں کوئی لیڈر نہیں جو ہجوم کو قوم اور مشکلات میں گرئے پاکستان کو مسائل کی دلدل سے باہر نکال سکے ۔پشاور سانحے کے بعد یہ بات مسلسل دہرائی جا رہی ہے کہ دہشت گردی، شدت پسندی اور فرقہ واریت پر قابو پانے کیلیے ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائی جائے۔اس ہولناک حملے کے بعد سے عوامی اور سیاسی سطح پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ملک میں شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کی جائے اور اس ناسور سے ہمیشہ ہمیشہ کیلیے جان چھڑائی جائے چاہے اس کیلیے خارجہ پالیسی میں تبدیلی ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔


خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کے لئے بہت سارے اہم اقدامات اٹھانے ہونگے جن میں سر فہرست ریاست کی عملداری قائم کرنے کے لئے خود ریاستی ادروں میں کام کرنے والے افراد کو اپنے اندر سے انتہا پسندی کی سوچ اور تعصب کو ختم کرنا ہو گا جس کا شکار معاشرہ بھی ہو چکا ہے جبکہ ، ہر سطع پر انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو پھیلانے والے تمام عوامل کا خاتمہ ضروری ہے ،نصاب میں تبدیلی سے لیکر انتہا پسندی پھیلانے والے تمام لٹریچر پر پابندی اور ایسا مواد پھیلانے شائع کرنے والوں پر گرفت ، مساجد اور مدارس کی کو ریاست کے تابع لانے جیسے عمل ناگزیر دکھائی دیتے ہیں۔


دہشت گردی اور انتہا پسندی کومستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لئے ان وجوہات کا خاتمہ اوراس مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہو گا جو دہشت گردی ،انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو پھیلانے کا سبب بن رہا ہے ۔ مذہبی شدت پسندی کے جن کو حکمت کے ساتھ بوتل میں بند کرنا ہو گا گا۔طالبان کے ہمدردوں ہمائتیوں اور انہیں چندہ دینے والوں کی نشان دہی اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

مدارس جن کے بارے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ان میں دس فیصد دہشت گردی کے فروغ کا باعث اور نرسریاں ہیں۔ مدراس کے نظام میں بھی تبدیلی لانی پڑے گی مدارس میں کیا پڑھایا جا رہا ہے،طلبہ کے ذہنوں کی آبیاری کس طرح سے کی جا رہی ہے،ان سوالات پر غور کرنا ازحد ضروری ہے اور ان مٰن جدید دور کے نصاب کے مطابق تعلیم دینی ہو گی۔ایک اور فوری اقدام جو دائمی پالیسی کے تناظر میں اختیار کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ پورے ملک میں مساجد کو مسالک کی قید سے آزاد کیا جائے اور حکومت کی نگرانی قائم کی جائے۔

امام مسجد اور موذن دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا حامل ہو اور اسے حکومت تنخواہ دے اور عربی خطبہ کے علاوہ جو تقریر کی جائے وہ حکومت کے زیر انتظام اداروں سے منظور ہو نی چاہئے۔پوری دنیا ملائشیا ،انڈونیشیا میں یہی ضابطہ اور اصول ہے۔حتیٰ کہ ہمارے اسلامی برادر ممالک میں بھی کسی کو یہ آزادی حاصل نہیں کہ ممبر پر کھڑا ہوکر اشتعال انگیز باتیں کرے اور عوام کو مشتعل کرتا پھرئے۔

لاوڈ سپیکر صرف اذان اور خطبے کے لئے استعمال کیا جائے، تمام مذہبی اجتماعات کے کھلے مقام پر انعقاد کی پابندی ہو جبکہ پاکستان کو ایک سکیورٹی ریاست سے فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے ’ملک میں پرائیویٹ جہاد کی نرسریوں کو ریاستی سطح پر بند کرنا ہوگا۔‘جس طرح ریاست جہادی نظریے کو پروان چڑھانے کیلیے تمام وسائل بروئے کار لائی اسی طرح اب اس نظریے سے چھٹکارے کے لیے اتنی ہی تندہی سے کام کرنا ہوگا۔

جبکہ پاک افغان سرحد پر مسائل کو افغانسان کے ساتھ مل کر حل کرنا ہوگا۔‘اب اگر حکومت ،قوم ،اور فوج دہشت گردی ،انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے یکسو دکھائی دے رہے ہیں تواس عزم کو مذید مظبوط بنانے کی ضرورت ہے اس ملک کا نقصان دوغلی پالیسوں کی وجہ سے ہوا ہے امید کی جانی چاہیے کہ اس بار ایسا نہیں ہو گا اور اس عفریت سے ملک اور قوم کی جان چھوٹ جائے گا وقت حکمت عملی سے تمام اقدمات کو اٹھانے کی تلقین کر رہا ہے ،حکومت اور فوج کا یہ امتحان بھی ہے کہ وہ اس سانحے کے سبق کو کبھی فراموش نہ کریں اور قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلایں اگر اس بار بھی قومی سوچ کے پنپنے کے اس موقعے کو گنوا دیا گیا تو دہشت گرد مظبوط ہونگے اور سب جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک موجودہ جمہوری نظام کافرانہ نظام ہے اور وہ کسی رشتے اور ناطے کو بچوں، عورتوں اور بوڑھے افراد پر بھی رحم کرنا نہیں جانتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :