27دسمبر کاگھاؤبھرنے کا راستہ!!

ہفتہ 27 دسمبر 2014

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

10اپریل 1986ء کے اکیس سال بعد 2007ء میں ایک دفعہ پھر پاکستان بھر کا محنت کش طبقہ بڑی اکثریت سے میدان عمل میں آیا۔یہ کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کے مراحل تھے۔قبل ازیں خود بے نظیر بھٹو سمیت پارٹی کی لیڈر شپ اس قسم کے استقبال کی امیدکئی برس پہلے ہی ختم کرچکی تھی۔نواز شریف کو پہلا ”بھاری مینڈیٹ“ دلانے والے1997ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بدترین شکست سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا تھا کہ پارٹی اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔

بہت سے زوال پذیر بائیں بازو کے فرقہ پرستوں کی طرح ،پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ بھی ظاہری واقعات ،بورژوا تجزیہ نگاروں اور محققین کی رائے سے متفق تھی کہ پیپلزپارٹی ہمیشہ کے لئے عوامی حمائت سے محروم ہوچکی ہے اور اسکے بعد پارٹی کو ”عالمی دوستوں“ اور فوجی بیوروکریسی کے کچھ حصوں کی طرف سے باور کرایا کہ ”بدلتے حالات کے مطابق یعنی عملیت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے“۔

(جاری ہے)

ان کے مطابق فوجی جنتا کے ساتھ ملکر شرکت اقتدار کی کوششیں ہی وقت کی ضرورت ہے ،اس ”مفاہمت “ سے ایک تو فوجی جنتا کی ”بغاوت“کوآبرومندانہ قبولیت ملے گی تو دوسری طرف پیپلزپارٹی کی قیادت پر لگے الزامات،مقدمات،سزاؤں اور بندشوں کا تدارک ہوسکے گا۔اس” سودے بازی“سے قبل دباؤ ڈالنے کے تمام حربے، نفسیاتی اور سیاسی تدابیر کواستعمال کیا گیا۔

ظاہریت پسندوں کا المیہ ہوتا ہے کہ وہ ”موجود‘ ‘حالات اور فوری واقعات کے بوجھ کو اپنے شعور پر حاوی کرکے اسکی” حقانیت “کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔یہاں بھی یہی ہوا۔امریکی سامراج کی مہیا کردہ ”مفاہمت “ کے نظریات جن کو 1984-1996تک پارٹی کے بنیادی نظریات کی ”بیخ کنی“ اور دائیں طرف جھکاؤ کے لئے استعمال کیا گیا تھاکو اب مزید گراؤٹ کے ساتھ فوجی جنتا کے ساتھ شرکت اقتدار کے لئے استعمال کیا گیا۔

اس نئے مفاہمتی فارمولے میں تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی طرح شریک اور ہمنوا تھیں۔اس ”ڈیل “ کے نتیجے میں نظر آنے والی بے نظیر بھٹو ‘اس سارے عرصے میں ”سامراجی قوتوں“اور پاکستان کی فوجی بیوروکریسی کی طاقت کو ہی فیصلہ کن طاقت سمجھنے پر مجبور رہی۔انکی ساری حکمت عملی اس ظاہری طاقت کی مطیع اور پیروکار رہی۔ مگر اس ”سچ “ کا ایک اور پہلو بھی تھا ،جس کو سارے فریقین اور” مفاہمت کندگان “نے یکسر فراموش کیا ہوا تھا۔

یہ وہ دسیوں لاکھ غریب محنت کش ،مزدور اور کسان تھے جو اپنی روائتی پارٹی اور قیادت کو کسی اور نقطہ نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔جو طبقات کے مابین کسی ”آبرومندانہ مصالحت“ کو کسی طور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔جو اپنے افلاس کو چھپانے کی بجائے اسکو مٹادینے کی خواہش رکھتے تھے،جن کو کسی ڈیل کی بجائے ایک فیصلہ کن لڑائی کا برسوں سے انتظار تھا،جو فوجی جنتا کی طاقت کو عوام کی طاقت کے سامنے کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں تھے،جنہوں نے عالمی استعمار کو اپنے جیسے نہتے اور لٹے پٹے لوگوں کے ہاتھو ں شکست کھاتے اور رسوا ہوتے دیکھا تھا۔

یہ محروم اور بے بس لوگ یکا یک اپنے گھروں سے نکلے اور اپنی روائتی قیادت کا استقبال کرنے چل پڑے۔ان کی راہوں میں ان کی مقامی قیادتوں کی طرف سے رکاوٹوں کے کانٹے نہیں تھے تو کوئی پھولوں بھری راہگزار بھی نہ تھی۔یہ لٹے پٹے کسان اور مزدور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ،ذاتی کرائے اور خرچے پر کراچی ائیرپورٹ کی طرف چل پڑے۔اس منظر کی کسی کو بھی واثق امید نہ تھی۔

چند ہزار لوگوں کے استقبال کی توقع کرنے والے جب چند لاکھ سے دس لاکھ اور پھر بیس لاکھ سے تیس لاکھ کے اعداد وشمار کی گردانیں سننے لگے تو انکے اوسان خطا ہوگئے۔سارے حساب کتاب اور ان پر استوار کی گئی سیاسی بساطوں کے مہرے الٹ کر منہ کے بل جاگرے۔خود روائتی قیادت کی آنکھیں اپنے استقبال کے مجمع کو دیکھ کر اکیس سال بعد پوری طرح کھل گئیں۔کراچی ائیر پورٹ کے گردونواح میں میل ہا میل تک پھیلے مضطرب انسانوں کے اس ہجوم بے کراں کا منظروہ نہیں تھا جو ذہین و فطین ”ماہرین“ نے ان کو باور کرایا تھا۔

اس ہجوم نے بے نظیر بھٹو اور انکے نئے ”مفاہمتی فریق“ پر دو مختلف قسم کے اثرات مرتب کئے۔بے نظیر بھٹو نے ان دسیوں لاکھ لوگوں کے ہجوم کے سحر میں ڈیل کی دھجیاں تک اڑادینے کا عزم کیا اور مفاہمتوں کی زنجیروں کو ٹوٹتے اور بکھرتے ہوئے محسوس کیا،یہ ایک خوف سے آزادی اور جراء ت و بہادری کے عزم کا عہد تھا‘ جو جان جانے کے خوف پر غالب آچکا تھا،مگردوسرے فریق پر ”خلق خدا“ کے میدان میں نکلنے اور اسکے بے نظیر بھٹو پر اثرات کے اندازوں نے خوف کا لرزاطاری کردیا۔

اسی خوف اور بدگمانی بلکہ مایوسی اور فرسٹریشن نے کارساز کے قریب بے نظیر بھٹو کے قافلے پر بموں کے حملوں کا راستہ ہموار کرایا۔وہ اپنے خوف کو پیپلز پارٹی اور بے نظیر بھٹو کی طرف منتقل کرنا چاہتے تھے۔اس حملے میں ٹوٹی ہوئی چپلوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں والے سینکڑوں سرفروشوں کے چیتھڑے اڑنے کے باوجود مجمع نہ ٹوٹا اور لوگ ڈر کر نہ بھاگے۔یہ بھی ایک نیا نفسیاتی سبق تھا جو سب سے زیادہ پھر بے نظیر بھٹو پر مرتب ہوا۔

پھر ملک گیر مہم کے دوران بے نظیر بھٹو کی تقاریر میں جو ”ریڈیکلائیزیشن“ پیدا ہوئی اور ہر مرحلے پر بڑھتی گئی اس نے ”مفاہمت اور ڈیل“ کی لکیر کے دوسری طرف کھڑے فریق پر ہوشربا نتائج مرتب کئے۔حکمران طبقے کی نظر آنے والی ”ایک اکائی“کے نیچے تقسیم درتقسیم،مفادات اور تضادات پر مشتمل مختلف قوتوں کے مابین بداعتمادی بڑھنے لگی،عالمی طاقتوں کی طرف فراہم کی گئی تحفظ کی گارنٹیاں بے معنی ہوچکی تھیں،ملک اور فوج کا سربراہ برسرعام بے نظیر بھٹو کی جان کی حفاظت کی گارنٹی دینے سے مکر چکا تھا ،اسکی طاقت دوسرے متحارب اداروں اور قوتوں کے سامنے” ہوا“ ہوچکی تھی۔

اور پھر داخلی لڑائی کے خلفشار نے 27دسمبر کے اس حملے کو ممکن بنادیا جس نے بے نظیر بھٹوکو ڈیل توڑنے کی سزادیتے ہوئے ہلاک کردیا۔مگر اس جان لیوا حملے سے سرکشی کی شمع بجھی نہیں ۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے رد عمل میں سرکشی اپنی پوری طاقت سے ابھری اور اس نے اس ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لیکر ریاست کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کا وجود عنقا ہوچکا تھا۔

ساری طاقت بپھرے ہوئے مگر غیر منظم عوام کے ہاتھوں میں تھی۔ڈیل کی دوسری طرف والوں نے اس عوامی بغاوت کو انارکی اور لوٹ مار کی طرف دھکیلنے کے لئے جیلوں کے دروازے کھول دئیے۔اپنے ایجنٹوں اور معاونین کے ہمراہ ایک طرف اس ”بے سمت اور بغیر کسی راہنمائی “ کے تحریک کو گمراہ کرنے کی سعی کی اور جلاؤ گھیراؤ کے راستے دکھائے تو دوسری طرف پیپلزپارٹی میں کسی متبادل قیادت کی عدم موجودگی اور نام نہاد” سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی“کی تاریخی نااہلیت اوربانجھ پن کو محسوس کرتے ہوئے ”زرداری اینڈ کمپنی“ کو پیپلز پارٹی پر مشکوک وصیت سمیت نازل کرادیا گیا۔

جنہوں نے خود رو تحریک کوسوگ،دعاؤں،ماتم اور ”جمہوریت بہترین انتقام ہوتی ہے “ کی مبہم لفاظی کے ذریعے مجروح کردیا۔جمہوریت کا انتقام تو لوگوں نے پچھلے پانچ سال(2008-13)تک جھیلا اور مزا چکھا اور اب نئے انداز میں مزید جھیل رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کو سالگروں اور برسیوں کی تقاریب تک محدود کردیا گیا۔بے نظیر کے قاتل تو خیر کس کو کیاملنے تھے اور کس نے ان سے بدلا لینا تھا، مگر اس کے آخری دنوں کی سوچ تک کو پارٹی میں کوئی اہمیت اور پذیرائی نہیں مل سکی۔

جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کا نام صرف نعرے بازی اور لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر بھٹوکے 1970ء کے انتخابی منشور،تاسیسی دستاویزات میں درج انقلابی پروگرام جس کو دراصل” بھٹو ازم “کہاجاتا ہے ،کے خلاف پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور بھٹوازم کے خلاف سیاست کی جاتی ہے ۔اسی طرح بے نظیر بھٹو کی ڈیل کے بعد والی گفتگو”جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے “ اور دیگر فقرے دہرائے جاتے ہیں مگر جہاں انہوں نے ڈیل کو مسترد کیا اس سوچ اور ضرورت کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔

اس فکری زوال کا نتیجہ 2008-13ء کی ناکام و نامراد حکومت کی صورت میں نکلا۔جہاں اس حکمرانی میں لوگوں کے عمومی حقوق دلوانے کی بجائے پارٹی قیادت کے تمام درجوں پر فائیز مافیا نے اپنی جیبوں کو بھرنے کو ہی ”بھٹوازم“ ،بھٹو کی فکر اور ”بھٹو کا فلسفہ “ کا تاثر دیکر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی تذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کا نتیجہ‘ الیکشن میں ذلت آمیز شکست کے علاوہ ”نئے بھٹو“ کی باربار رونمائی کی تمام کوششوں کو بری طرح ناکامی کاسامنا کرنا پڑا ہے۔

لوگ جھوٹے اور کھوکھلے نعروں،روسٹم پر ”باڈی لینگویج“ کی جعل سازی سے تنگ آچکے ہیں اور قیادت پر براجمان مافیا کے سیاسی،معاشی اور معاشرتی جرائم سے مکمل طور پرآگاہ ہوکر ان سے بے زار ہیں۔تاریخ میں پہلی دفعہ پاکستان پیپلز پارٹی کسی دبنگ اور سحر انگیز ”شخصیت “کے بغیر اپنا وقت گزار رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بنیادی پروگرام اور منشور کا تمسخر اڑانے والی قیادت پیپلز پارٹی سے باہر تو رسوا ہے مگر ان کے خلاف سب سے زیادہ نفرت اور حقارت خود پیپلز پارٹی کے اندر ہے۔

اس کی وجہ پیپلز پارٹی کو ایک ترقی پسند اور انقلابی چہرے سے محروم کرکے ایک رجعتی،دائیں بازو اور سامراج کی لونڈی بنادینے کی سازش ہے۔پارٹی کے اندر خاموش اکثریت نے اگر پارٹی کا بنیادی تشخص بحال کرانے کے لئے واضع اور باآواز بلند اپنا کردار ادا نہ کیا تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا زوال اور زیادہ گہرا ہوتا جائے گا اور بالآخر اس کے مٹ جانے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتااگرچہ یہ ایک پچیدہ اور لمبا عمل ہوگا ۔

27دسمبرکو کارکنان کو سوگ اور برسی کی تقاریب کو پارٹی کی رجعتی اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں ،سامراجی اطاعت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ذلت آمیزاور خوشامدانہ تعلقات بنانے کی خواہش کے خلاف احتجاج کے طور پر منانا چاہئے۔27دسمبرکے گھاؤ بھرنے اور 4اپریل کابدلہ لینے کے لئے،بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقاریب میں پارٹی کے بنیادی پروگرام کی بحالی کے مطالبات،سرمایہ داری ،جاگیر داری کے خاتمے،تمام ذرائع پیداوار کو مشترکہ ملکیت میں لینے،پاکستان کے محنت کش طبقے کی پیداکردہ دولت جو حکمران طبقے کی تجوریوں ،اکاؤنٹس،جائیدادوں کی شکل میں ہے ‘کو ضبط کرکے (بقول ذوالفقار علی بھٹو)عوامی دھارے میں پھیلانے،سامراجی اطاعت سے انکار،تعلیم اور علاج کے بیوپار کو جرم قراردے کر مفت فراہمی،بجلی،گیس ،پینے کا صاف پانی کی فراہمی کو پہلی ترجیح قراردیا جانا،پارٹی کی صفوں سے سرمایہ دارانہ ،جاگیردارانہ اور بنیادپرستانہ سوچ کے حاملین کا فوری اخراج جیسے مطالبات کو قراردادوں کی شکل میں پاس کرکے پارٹی کو بچانے کی تحریک کا آغاز کرنا چاہئے ورنہ پیپلزپارٹی کی تباہی میں قیادت کے ساتھ چپ رہنے والے بھی تاریخ کے مجرم ٹھہریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :