آپریشن نہیں ”میجر سرجری“

جمعرات 25 دسمبر 2014

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز اس وقت اپنے قیام سے لے کر آج تک کے دور میں اس وقت سب سے مشکل دور سے گزر رہا ہے تو ہرگز بے جا نہ ہو گا۔ قیام پاکستان کے وقت لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں تک کو بے گورو کفن اس لیے چھوڑ کے پاکستان آئے کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ آزاد وطن ہی ان کی منزل ہے۔ 65ء کی جنگ میں جب بھارت نے ایک ایسی مملکت خداداد پر شب خون مارا جو ابھی تعمیری مراحل سے گزر رہی تھی تو دنیا نے دیکھا کہ اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے گئے۔

یعنی عددی برتری کو جذبہ ء ایمانی سے شکست دی گئی ۔ آزاد ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے سے تین گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی صرف 2500 سے 3000 محبانِ وطن نے شہادت کا جام نوش کیا۔ اور ان میں عام پاکستانی بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

71ء کی جنگ میں پاکستان کا نقصان زیادہ ہوا اور کم و بیش 5000 سے 9000 شہادتیں ہوئیں۔ اور کم و بیش 97ہزار جنگی قیدی بنا لیے گئے۔

اس میں بھی شہادتوں کی تعداد زیادہ اس لیے تھی کہ بھارتی حمایت یافتہ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ بھارتی تربیت یافتہ فوج مکتی باہنی کے روپ میں پاکستان کی فوج سے نبرد آزما تھی۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ ریگولر بھارتی فوج بھی ان کی حمایت میں مکمل آپریشنل تھی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ زیادتیاں دونوں طرف سے تھیں۔ لیکن پاکستان کو ظاہری دشمن کے ساتھ ساتھ کمینہ صفت چھپے دشمن سے بھی سامنا تھا۔

یہی بات نقصان کا باعث بنی۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمکش جاری رہی ۔ کارگل کی جنگ میں بھی بظاہر پاکستان کا پلڑا اس لیے بھاری رہا کہ شہادتوں کی تعداد بھارت کے مقابلے میں کافی کم بھی تھی اور لاجسٹک نقصان بھی کافی کم ہوا۔ جب کہ بھارت کو کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
2001ء میں 9/11 کے واقعے کے بعد پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا۔

یہ شمولیت ملک کے حق میں تھی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے جس پر صاحبانِ عقل و دانش لفظوں کے نشتر چلاتے رہے ہیں اور چلاتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پاکستان محتاط اندازوں کے مطابق50000سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے۔ بعض تجزیہ کار یہ تعداد ستر ہزار کے قریب بتاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں مکمل اعدادو شمار بتانا مشکل ہی نہیں تقریباً نا ممکن ہے۔

ان میں کم و بیش 6ہزار سے زائد فورسز کے جوان بھی شامل ہیں۔ یہ تعداد انتہائی محتاط اندازے کے مطابق ہے ۔ اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تعداد 10ہزار سے تجاوز کرتی ہے۔ سویلین شہادتوں میں بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو زندگی میں کسی نہ کسی ایسے مقام پر تھے کہ پاکستان کا اثاثہ شمار کیے جاتے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ نقصانات 2004 کے بعد ہوئے ۔

اس جنگ میں پاکستان کو جتنا نقصان ہوا ہو آج تک لڑی جانے والی جنگوں میں نہیں ہوا۔ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ پاکستان کو اتنا نقصان بیرونی محاذ پر نہیں ہوا جتنا اندرونی محاذ پہ ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور نقصانات کی تازہ کڑی ہے۔ 8ہزار سے زائد فورسز کے جوان زخمی ہوئے اور یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ جنگ میں زخمی ہونے والے جوانوں کے لیے باقی زندگی کس قدر مشکل ہو جاتی ہے۔

پاکستان اس وقت ایک ایسے خطے میں واقع ہے کہ اس کے چند دشمن بے نقاب ہیں تو سینکڑوں دشمن زیرِ نقاب ہیں اس لیے ان سب سے نمٹنے کے لیے اقدامات اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے بھی ہیں۔
اس قدر شدید نقصان کے بعد پاکستان کی بقاء کے لیے یہ جنگ بہت اہمیت اختیار کر گئی۔ اس سلسلے میں بہت سے آپریشنز کیے گئے۔ جس میں زیادہ اہم راہِ حق (2007) سوات، راہِ راست (2009 ) سوات،شمالی وزیر ستان میں 2004 سے جاری کشمکش،اور راہ نجات(2009) جنوبی وزیرستان ہیں۔

اس کے علاوہ سرجیکل اسٹرائیکس یعنی مطلوب افراد کے خلاف کاروائیاں بھی وقتاً فوقتاً کی جاتی رہیں۔ فورسز پر حملوں کی یہ توجیح پیش کی جاتی رہی کہ کیوں کہ فورسز دہشت گردوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں اس لیے انہیں بہیمانہ طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پشاور میں ہونے والے سانحہ ء16دسمبر میں معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کرنے سے پہلے سے جاری "ضرب عضب " میں مزید تیزی آ گئی ہے۔

کیوں کہ نہتے ، معصوم بچوں کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس پہ پوری دنیا کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ پوری دنیا معصوم بچوں کے ساتھ بر بریت پر انگشت بدندان ہے۔جو ظلم پشاور میں ان بچوں کے ساتھ کیا گیا اس کا تصور بھی اتنے دن گزرنے کے باوجود رونگٹھے کھڑے کر دیتا ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تویہ وار صرف معصوم بچوں پر نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کی ترقی پر کیا گیا اور اس وار سے یہ کوشش کی گئی کہ پاکستان کو پتھر کے دور کی طرف دھکیلا جائے۔

اس میں بظاہر تو ملوث افراد و تنظیمیں واضح نظر آ رہی ہیں۔ لیکن بادی النظر میں یہ ایک ایسی عالمی سازش نظر آتی ہے جو پاکستان کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے لے جانے کے لیے شروع کی گئی۔ پاکستان میں نہ صرف تعلیم بلکہ صحت، سیاحت، معاشی ، توانائی غرضیکہ ہر شعبے پر چن چن کر حملے کیے جا رہے ہیں۔ مالم جبہ کو تختہ ء مشق بنایا گیا۔ توانائی کے شعبے میں مصروف عمل چینی انجینئرز پر حملے سے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔

ممتاز ڈاکٹرز کو نشانہ بنایا گیا۔ قابل اساتذہ کو ہم سے جدا کیا گیا۔ اس لیے یہ جنگ شاید اب صرف دو فریقوں کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے دشمن مل کر وطن عزیز کو نہ صرف ترقی میں پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں بلکہ اس کا مقام اقوام عالم میں بھی گرانا چاہتے ہیں۔ اور اسے دنیا کا ایک غیر محفوظ ترین ملک ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ان تمام حالات میں اب سوچنا یہ ہو گا کہ کیا صرف مخصوص آپریشنز یا سرجیکل اسٹرائیکز ہی کافی ہیں؟ جیسے حالات اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں ان حالات میں آپریشن نہیں بلکہ"میجر سرجری " کی ضرورت ہے۔

کیوں کہ آپریشن صرف مخصوص خطے کو بہتر کرتا ہے۔ لیکن اس وقت پورے ملک کے حالات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ناسور شہری علاقوں تک میں اپنا رنگ پوری طرح دکھا رہا ہے۔ مدارس ہرگز برے نہیں۔ لیکن اگر 90فیصد ٹھیک مدارس پر صرف 10فیصد ایسے مدارس حاوی ہو گئے ہیں جو شدت پسندی کی ترویج کر رہے ہیں تو پورے ملک میں ایمرجنسی لگا کر سرجری کی ضرورت ہے۔ جب اقلیت کی سوچ اکثریت پر حاوی ہو جائے تو پھر صرف آپریشن کارگر نہیں ہو سکتا۔

اور ہمیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی کہ آپریشن یا سرجری صرف دہشت پسند عناصر کی ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ سرجری ملک کے ہر شعبے میں ضروری ہے۔
عدلیہ کے شعبے میں سرجری کی ضرورت ہے تا کہ بروقت فیصلے ہو سکیں اور سزاؤں پر عمل در آمد کے لیے لمبا انتظار نہ کرنا پڑے۔ ملزم سے مجرم ہونے کا عمل جتنا تیز ہو گا اتنا ہی حالات بہتری کی طرف جائیں گے ۔

شعبہء پولیس کی سرجری کر کے ملکی حالات کو بہتری کی طرف گامزن کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو تمام شعبوں اور بالخصوص پولیس کے محکمے میں رویوں کی سرجری کرنا ہو گی ۔ اس سرجری کا اثر یہ ہونا چاہیے کہ شریف النفس شہریوں کے چہروں پر ٹارچ مارنے کے بجائے انہیں ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کی تربیت دی جائے۔ اور سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ اس شعبے میں تربیت کے لیے آرمی سے مدد لی جائے۔

اس سرجری کا سب سے اہم حصہ فورسز کے عوام کے ساتھ تعلقات ہیں۔ جنگ کبھی بھی عوام کے بناء نہیں جیتی جا سکتی ۔ آپ یہ تو توقع کرتے ہیں کہ عوام اس جنگ میں آپ کا ساتھ دیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عوام کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں۔ پولیس والا جب عام آدمی کو روکتا ہے تو اسے کیڑا مکوڑا سمجھتا ہے ایسے میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ عوام ان کا ساتھ دیں گے۔

باقی فورسز کے بارے میں عوام کا تاثر نسبتاً بہتر ہے۔ لیکن اکثر وی آئی پی موومنٹ کے وقت ان کا رویہ بھی ایسا ہو جا تا ہے کہ عوام کے دل میں احترام کی جگہ غصہ لے لیتا ہے۔ لہذا سرجری کرتے وقت ایک بات ذہن نشین رکھ لیں کہ اگر یہ جنگ جیتنی ہے تو عوام کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کریں۔سرجری کرتے وقت لہجوں کو تبدیل کریں۔ عوام کو انسان سمجھنے کی تربیت دیں۔ اور اس سرجری میں بڑا حصہ عوام اور فورسز میں اعتماد کی بحالی کا رکھیں۔ تب ہی یہ سرجری بھی کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ جنگ بھی جیتی جا سکتی ہے ورنہ ہم جانوں کے نذرانے ہی دیتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :