دوغلا ماما

جمعرات 25 دسمبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

پاکستان کے لاشریک فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو پاکستان کی بڑھتی آبادی نے پریشان کرنا شروع کیا تو انہوں نے فرمان جاری کردیا تھا ” بچے کم پیدا کیے جائیں “ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں، اسی سال فیلڈ مارشل کے بیٹے کے ہاں دو جڑواں بچے ہو گئے ، بڑے خاں صاحب کا ارادہ زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کے لیے سخت قسم کی سزا نافذ کرنے کا تھالیکن اب چھوٹے خاں کو کیا کہتے ،البتہ فرمان جاری رہا واپس نہیں لیا۔

ہر آنے والے حکم ران کی کوشش رہی کہ کسی طرح بچے پیدا ہونے سے رک جائیں ، بھلا کسی کے روکے کوئی رک سکتا ہے، خیر اس وقت بچوں کی پیدائش موضوع ہے نہ بہبود آبادی والے جو بے چارے جتنا زور لگاتے ہیں ،اتنا ہی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس پر پھر کبھی بات ہو جائے گی، اس وقت یہ بات غور طلب ہے کہ بچوں کی پیدائش کے لیے تو بہت سارے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ،اگرچہ بیلنے والے بیل ہی لیتے ہیں ، کبھی کبھی پاپڑ خود بھی بل جاتے ہیں لیکن۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔
ان سوالات کا کیا جائے جو روکے نہیں رکتے ، کسی وقفے کے بغیر ہی پیدا ہوئے چلے جاتے ہیں، تنہا ہوں تب پیدا ہوتے ہیں،اور جہاں ”ساتھی“ مل جائیں وہاں تو ڈھیر ہی لگ جاتے ہیں، پتا نہیں خیالات کے اظہار پر پابندی کے متعلق قانون کیا کہتا ہے ،نہیں کہتا تو کب کہنا شروع کردے ،لیکن خیالات اور سوالات پیدا ہونے سے متعلق قانون کچھ نہیں کہہ سکتا، ہاں جس کا مخ (مغز، ذہن)ایسے سوالات کی آماجگاہ بن جائے ، جو ہر وقت سوالات ہی پیدا کرتا ہو، اس کی شامت آسکتی ہے ،اس کے مخ کو کڑی سزا کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے ، پھانسی نہ بھی دی گئی تو کسی نہ چکر میں پھانسا تو جا ہی سکتا ہے ،مگر تب تو اور زیادہ سوالات جنم لیں گے ۔

اس چھوٹے سے کالم میں چندایک سوالات کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے ہر ہر سوال خود کئی کئی انڈے بچے دینے پر مصر ہے ۔
####
# پہلاسوال میاں صاحب کی طرف سے اوباما کے نام!” ماما جی !یہ کیا دوغلی پالیسی ہے ، ہم سے کہہ رہے ہو ، اچھوں، بروں سب کے خلاف کارروائی کرو اور خود تم نے اچھے اور برے طالبان میں فرق اور تمیز شروع کر دی ،کہہ رہے ہونئے سال سے نئی امریکی پالیسی چلے گی جس کے مطابق اسی کے خلاف کارروائی ہو گی جو ہتھیار اٹھائے گا ، ملا عمر سمیت سب طالبان کے خلاف یہی پالیسی ہو گی“۔

یہی بات تو میں کہہ رہا تھا، کہ جو امن سے بیٹھا ہے اس کو ہم کیوں چھیڑیں؟
#انتہائی محفوظ علاقوں میں دہشت گرد انتہائی خطر ناک اسلحہ لے کر کیسے پہنچ جاتے ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں ریمنڈ ڈیوس کے بھانجے بھتیجے اسلحہ پہنچا دیتے ہوں اور دہشت گردوں کو بھی کوٹ کی جیبوں میں چھپا لے جاتے ہوں ، ریمنڈ ڈیوس قسم کی چیزوں کے سامنے ویسے بھی بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں نا!
#برس ہا برس ہو گئے ،امریکا زور پہ زور لگائے جا رہا ہے ،50کے لگ بھگ ممالک کو ساتھ ملانے کے باوجود دنیاسے دہشت گردی کیوں ختم نہیں کر سکا، بلکہ اب تو وہاں بھی دہشت گرد پیدا ہو گئے ہیں جہاں کبھی کسی نے کوئی دیکھا نا سنا کیسے اور کیوں؟
# سارے تجزیہ کار اور دانش ور ہر حاضر سروس چیف کے گن ہی کیوں گاتے ہیں، جانے والے کی پالیسیوں میں خامیاں کیوں نظر آنے لگتی ہیں، بڑے بڑے دانش ور پرویز مشرف کی پالیسیوں پر تنقید کررہے ہیں جو ان کے دور میں ان کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے،کیا اگلے دو چارسال بعد ہم کسی نئے چیف کے گن گا رہے ہوں گے، اور موجودہ چیف کی پالیسیوں کو بھی خورد بین لگائے دیکھ رہے ہوں گے؟
#دہشت گردوں کے پاس اتنا جدید اسلحہ کہاں سے اور کیسے آجاتا ہے ، اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ کیا یہ خود بناتے ہیں ، خود بنانے کو بھی تو کچھ نہ کچھ چاہیے نا ، وہ” کچھ“ کہاں سے لاتے ہیں، کون دیتا ہے ؟چلیں مانا کہیں نا کہیں سے لے ہی آئے ، بنا بھی لیامگر بابا یہ تو بتاؤ پھر پکڑا جانے والا اسلحہ امریکا ، اسرائیل اور بھارت کا ہی کیوں نکلتا ہے۔


#ترقیاتی فنڈ سڑکیں بنانے ، توانائی کی کمی پوری کرنے پر لگانے کی بجائے اسلحہ خریدنے ، او دہشت گردی کے خلاف لگانے کا سبق کون اور کیوں پڑھارہا ہے، وزیروں مشیروں کی عیاشی پر لگنے والی دولت کیوں نہیں خرچ کی جاتی ، نائٹ اور ٹائٹ کلبوں پہ لگنے والی دولت کیوں نہیں لگائی جاتی؟ کیا سابق صدور اور سابق چیف صاحبان اپنی مراعات پاکستان کے نام پر چھوڑ نہیں سکتے؟
# آج کا آخری سوال صدر مملکت کی طرف سے:” سزائے موت کے مجرموں کی اپیل مسترد کرنے یا قبول کرنے کا اختیار صدر کے پاس نہیں ہونا چاہیے “۔ خدا کے بندو ! صدر بنایا ہے یا صدری؟ مجھے بھی کچھ کرنے دو گے یا خود ہی سب کچھ کیے جاؤ گے ؟ خوش تھا چلو کچھ مصروفیت تو نکلی ہے ، مگر تم تو لٹھ لے کے پیچھے پڑگئے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :