اب اس بے حسی کو ختم کر نا ہو گا

جمعرات 25 دسمبر 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

”تھر “ کے لوگ کن حالات سے گذر رہے ہیں ،کن کن مشکلات حالات کا ان کو سامنا ہے ،تھر میں کنو ؤں کی تنصیب اور یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کر نے کی سعی میں مصروف ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی تھر کے حالات پر لکھی گئی کتاب ”تھر،پیاس اور پانی“ جو دراصل قحط،بھوک اور بیماری سے سسکتی انسانیت کی پکار پر عزم و ہمت اور ایثار کے سفر کی داستان ہے کو پڑھتے ہوئے اپنے انسان ہو نے پر شر مندگی ہو رہی تھی کہ ہمارے ملک کے ایک حصے میں کس طرح لوگ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں ، یہاں کی خواتین کن کن مسائل سے دو چار ہیں اور پھر میڈیا پر چلنے والی خبریں جس میں روز بچوں کی ہلاکت میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے ۔

اس کتاب کو پڑھنے ، میڈیا پر یہاں کے بچوں کو مرتے دیکھتے ، سند ھ حکومت کے ناخداؤں کے انتہائی گھٹیا بیانات کو پڑھتے اور وفاقی حکومت کی بے حسی کو دیکھتے طبیعت میں اضطراب کا زہرگُھل رہا تھا ۔

(جاری ہے)

قارئین ! میں ابھی اپنوں کے بارے میں اپنوں کی بے حسی کے بارے سوچ رہا تھا کہ ٹیلی ویژن سکرین پر پشاور میں بر پا” کر بلا “کی چیختی چلاتی بر یکنگ نیوزنشر ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔

دو، دس، بیس ، پچاس، اسی ،سو اور پھر ایک سو پینتیس بچوں کی شہادت المناک خبر کسی نشتر کی طرح سینے میں پیوست ہو کے روح و جسم کو زخمی کرتی جارہی تھی۔گولیوں سے چھلنی سکول کی دیواریں،زمین پر بکھرے معصوموں کے بے گناہ لہو کے چھینٹوں،بکھری کتابوں ،پھٹے صفحوں،ٹوٹی پینسلوں ،گولیوں اور لہو سے بھرے فر نیچر،گولیوں کی تڑ تڑاہٹ، اپنے جگر گوشوں کی لاشوں سے لپٹی ماؤں کے نوحیں، زخمی بچوں کی چیخ و پکار ، دہشت میں ڈوبی فضا ء کو دیکھتے نا چاہتے ہوئے بھی آنکھوں سے آنسوؤں کی بر سات جاری ہو گئی تھی۔

اپنے بچوں کو دیوانہ وار ڈھونڈتی مائیں اور ان کی زبان سے نکلنے والے جملے”میرا لخت جگر یونیفارم پہن کر گیا تھا ،تابوت میں واپس آیا“ کلیجے کو پھاڑ رہا تھا۔ہسپتال کا سخت دل عمل بھی ان پھولوں کے جسموں سے رِستے خون پر سسکیاں لیتے ہوئے دکھائی دے رہا تھا۔پانچ دن ہوتے ہیں اس قیامت خیز منا ظر کو بھولنے کی تما م تر کوششوں کے بعد بھی اس کیفیت سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ۔


قارئین محترم !ایک رپورٹ کے مطا بق پاکستان میں دہشت گر دی کا نشانہ بننے والوں کی تعدادپوری دنیا سے زیادہ ہو گئی ہے۔اعداد و شمار کی روشنی میں گذشتہ 6سالوں کے دوران مجمو عی طور پر 12409پاکستانی شہید جبکہ31345زخمی ہوئے ہیں ۔لیکن ہماری حکومتوں نے اس کے خلاف اٹھا ئے جانے والے اقدامات کی بجائے صرف زبانی دعووں کے تما م تر ریکارڈ تو ڑیں ہیں۔

کیا ہی اچھا ہو تا کہ حکو مت وقت نے ان اٹھارہ مہینوں میں دہشت گردی کے جن کوقابو کر نے کے لئے کوئی حقیقی اقدامات کئے ہو تے تو ہمیں اپنے بچوں کے خون آلود چہرے دیکھنے کو نہ ملتے۔
قارئین !ابھی سا نحہ پشاور میں شہید ہو نے والے معصوم نو نہالوں کا غم، تھر میں روزانہ بھوک ،افلاس اور بیماریکی وجہ سے درجن کے حساب سے مر نے والے بچوں کا درد کچھ کم نہ ہوا تھا کہ شہر لاہور میں کڑوڑوں روپے سے تعمیر ہو نے والے آزادی فلائی آور سے چھلانگ لگانے والے ندیم کی خود کشی کی خبر نے اک دفعہ پھر اضطراب کی کانٹوں دار وادی کا مسافر بنا دیا تھا۔

شہر کی گلی کوچوں میں ریڑھی لگا کے روزی کمانے والا 29سالہ ندیم جس کی 4سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی جو اپنے دو بچوں اور بیوی کا واحد سہارا تھااور گذشتہ کئی دنوں سے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جاری ناجائز تجاوزات کی آڑ میں غریبوں کو تنگ کر نے اور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے” ناجائز آپریشن کی وجہ سے کام نہ ہو نے کی وجہ سے کافی پریشان تھا۔دسمبر کی سخت سردی سے اپنے جسم کو چھپانے کی خاطر جب بچوں نے اپنے باپ سے جر سی کا مطالبہ کیا تو اس کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ اپنے بچوں کی معصوم خواہش کو پو را کر سکتا۔

ندیم نے رشتہ داروں سے ادھا ر رقم مانگنے کی کوشش کی لیکن کسی نے اس کی داد رسی کی زحمت گوارہ نہ کی۔لہذا گھر میں کئی دنوں سے جاری فاقوں اور بچوں کو ظالم سردی میں ٹھٹھرتا دیکھ کر ندیم دلبرداشتہ ہو گیااور اپنے ”خادم اعلیٰ “کی انتھک محنت اور ریکارڈ وقت میں تعمیر ہو نے والے آزای فلائی آور سے کو د کے گھر کے فاقوں اور بچوں کی خواہشوں سے آزاد ہو گیا۔

بھوک و افلاس سے تھر میں مرتے چھوٹے چھوٹے بچوں، حکمرانوں کی آپسی چپقلش اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں دہشت گردوں کی گولیوں سے چھلنی والے قوم کے معماروں کی ہلاکت اور پھر ندیم کی خود کشی یہ ظاہر کرتی ہے کہ نہ صرف حکمرانوں، اشرافیہ بلکہ عام آدمی نے بھی اپنی آنکھوں پر بھی بے حسی کی کا لی پٹی باند ھ رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمار ا پو را معاشرہ اجتماعی بے حسی کا شکار ہے جس کی وجہ سے امن، انصاف، سکون ناپید ہو تا جا رہا ہے ۔

لیکن یاد رہے کہ اگر ہم نے آج بھی اپنی آنکھوں سے اس پٹی کو اتار کے نہ پھینکا تو خدا نخواستہ وہ وقت قریب ہے جب ہمارے گلی محلے تھر کا سماں پیش کریں گے اور ہمارے گھروں سے بہت سے ندیم حالات سے تنگ آکے اربوں روپوں سے تعمیر ہو نے والے فلائی آورز سے کود کے اپنی زندگیوں کو ختم کر لیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :