ایسے ہوتے ہیں قائد

جمعرات 25 دسمبر 2014

Rauf Uppal

رؤ ف اُپل

کلاس روم میں سناٹا طاری تھا،طلباکی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف،استاد کے سوال کا جواب کسی طالب علم کے پاس نہیں تھا، سوال تھا ہی ایسا،استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پرایک لمبی لکیر کھینچ دی،پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا،" تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے۔

۔ ؟" یہ نا ممکن ہے ۔ ۔ کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ۔ لکیر کو چھوٹا کرنے کے لئے اسے مٹانا پڑے گااور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کررہے ہیں۔ ۔ باقی طلبا نے بھی اس کی تائید کی۔ ۔استاد نے گہری نظروں سے طلباکو دیکھااور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑی لکیر کھینچ دی۔

(جاری ہے)

۔سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پہلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردیا۔

۔طلبا نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھ لیا۔ ۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کئے بغیر ،ان سے حسد کئے بغیر، ان سے الجھے بغیر،ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا۔
محمد علی جناح نے سیاسی زندگی کا آغازکانگرس کے پلیٹ فام سے کیااور برصغیر کے لوگوں کے لئے اپنے سیاسی توانائیاں وقف کر دیں ، اس وقت موہن داس کرم چند گاندھی کانگریس کے مرکزی رہنما تھے۔

۔گاندھی کی شخصیت اس وقت سیاست میں بہت قد آور مانی جاتی تھی۔ ۔ جب کہ محمد علی جناح نے گاندھی کی موجودگی میں ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر ، حسد کئے بغیر ، اپنی ذات کو نہ صرف منوایا بلکہ بہتر لیڈر ہونے کا ثبوت دیا۔ ۔ جب آپ نے دیکھا کہ کانگریس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہیں ہو سکتی ۔ ۔ کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی ۔

۔ کانگرس سے علیحدگی سے پہلے ہی آپ مسلم لیگ جوائن کر چکے تھے اور کانگرس چھوڑنے سے پہلے تک ہندو ،مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ ۔ پھر آپ نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے برصغیرکے مسلمانوں کے لئے وہ کچھ کر دکھایا جو ناں صرف مشکل تھا بلکہ گاندھی جی کی منافقانہ سیاست کے جواب میں ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ ۔گاندھی نے انگریزوں کے ساتھ مل کر متحدہ ہندوستان کی کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھر پور کوششیں کیں ۔

۔اس سلسلے میں انہوں نے انگریزوں کو ہندوستان کی نئی حکومت میں بڑے بڑے عہدے آفر کئے ۔۔ ہندؤ پاکستان اور مسلمانوں کے وجود کے دشمن تھے، اس دشمنی کو انہوں نے 1937 کے الیکشن کے نتیجے میں جس میں کانگرس نے اکثریتی پارٹی کے طور پر وزارتیں قائم کیں اور اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیا کہ دو قومی نظریہ ہی مسلمانوں کے وجود اور بقا کی ضمانت ہے۔۔

اس صورتحال میں قائد آعظم محمد علی جناح کو دو دو محاذوں پر لڑنا پڑا۔ ۔ ایک تھا انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا جومسلمانوں، ہندوؤں ،اور دیگر مذاہب کی مشترکہ جدوجہد تھی اور دوسرا ۔ ۔ دو قومی نظریہ تھا۔ ۔جس کا تصور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے 1930 میں خطبہ آلہ آباد میں پیش کیا، اب قائدآعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے حقوق کے لئے، مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کو ایک جنڈے تلے جمع کیا۔

۔ 1940میں قرار داد لاہور جسے بعد میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا پیش کردی گئی اور مسلمانوں نے باقاعدہ ایک پلیٹ فارم سے آزادی کے سفر کا آغاز کردیا ۔ ۔ برصغیر کے مسلمان قائدآعظم کے جھنڈے تلے جمع ہوتے گئے۔ ۔ مسلمان دیوانہ وار قائداعظم سے محبت کرنے لگے۔ ۔ ناخواندہ مسلمان بھی قائد آعظم کی انگریزی میں کی گئی تقریروں میں اس طرح دلچسپی لیتے جیسے ان کو سب سمجھ آرہی ہو۔

۔ کیونکہ مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ یہ انگریز ٹائپ مسلمان لیڈر جھوٹ بولے گا ناں فریب کرے گا۔سب مل کر چلے اور کارواں بڑھتا گیا۔ ۔ سردار عبدالرب نشتر نے اپنی کتاب " قائد آعظم بحیثیت گورنرجرنل " میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے " جب ہم مانکی سے رخصت ہورہے تھے تو قائدآعظم آگے آگے تھے اور پیر صاحب مانکی شریف سمیت پیران اِن کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔

قائدآعظم موٹر میں بیٹھ گئے تو میں بھی ساتھ بیٹھا اور موٹر روانہ ہوگئی تو میں نے کہا قائدآعظم مجھے ہنسی آتی تھی لیکن میں نے ضبط کرلی۔ ۔ پوچھا کیوں ؟۔۔میں نے کہا جب ہم ان پیروں کے پاس جاتے ہیں تو بہت عزت اور احترام کے ساتھ ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، لیکن آج تمام پیرآپ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے تو مجھے ہنسی آرہی تھی، فرمانے لگے تمہیں معلوم ہے اور اِن کو بھی معلوم ہے کہ میں متقی ، پرہیز گار،اور زاہد نہیں ہوں، میری شکل وصورت زاہدوں کی سی نہیں ہے، مغربی لباس پہنتا ہوں لیکن اس کے باوجودیہ لوگ میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کرتے ہیں۔

۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کویہ یقین ہوگیا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق میرے ہاتھ میں محفوظ ہیں اور میں اپنی قوم کو کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں کرسکتا " ۔
ہندو رہنما وجے لکشمی پنڈت قائد آعظم محمد علی جناح کے بارے میں کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ " اگر مسلمانوں کے پاس سو(100) گاندھی ہوتے اور ہمارے پاس ایک جناح ہوتا توپاکستان نہیں بن سکتا تھا" ۔


ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا۔ ۔ ۔ ۔" جناح کو ڈرایا اور خریدا نہیں جا سکتا" ۔
ایک موقع پرگاندھی نے قائدِآعظم کو مخاطب کرکے سوال کیا۔ ۔ میں ایک بڑی پارٹی کا لیڈر ہونے کے باوجود ٹرین میں سفر کرتاہوں اور آپ ایک چھوٹی پارٹی کے لیڈر ہونے کے باوجود جہاز یا موٹر کار پر۔ ۔گاندھی جی کے اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا۔ ۔ آپ پارٹی کے خرچہ پہ سفر کرتے ہیں اور میں اپنے ذاتی خرچہ پر سفر کرتاہوں۔

۔۔۔پاکستان بننے کے بعد آپ کے آفس کے لئے جب سٹیشنری لائی گئی تو آپ نے چند ایک چیزوں کے علاوہ باقی سارے سامان کے لئے پیسے اپنی جیب سے اداکئے۔ ۔ ۔ ۔پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں چائے پیش کرنے کے سوال پر آپ غصے سے پھٹ پڑے اور کہا جسے چائے پینی ہے گھر سے پی کے آئے یا واپس گھر جاکر پئے ، قوم کا پیسہ قوم کی امانت ہے اور قوم پر ہی خرچ کیا جائے گا۔
ایسے ہوتے ہیں قائد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ قائدآعظم زندہ باد۔ ۔ پاکستان پائندہ باد۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :