پاکستان میں جب خواتین کو بھی اہمیت ملی

جمعرات 25 دسمبر 2014

Tariq Ghouri

طارق غوری

پا نی آ نکھ میں بھر کے لا یا جا سکتا ہے۔۔ ااب بھی جلتا شہر بچا یا جا سکتا ہے ۔۔۔آ شا ئیں ۔۔۔
22دسمبر 2010 کا تا ریخی دن تھا ۔یقیناوہ شا م بہت سہا نی تھی کیو نکہ اس شا م اس وقت کے صدر پاکستا ن آصف علی زرداری صا حب خوا تین کو کا م کر نے کی جگہ پر جنسی طو ر پرہرا سا ں کرنے کے خلا ف بل پر دستخط کر نے والے تھے جس کے بعد اس بل نے قا نو ن بن جا نا تھا۔

ایوا ن صدر میں خصو صی طور پر ایک پر وقار تقریب کا اہتما م کیا گیا اس تقریب میں اس وقت کی سپیکر قومی اسمبلی محتر مہ فہمیدہ مرزا۔۔۔۔۔کے علا وہ مختلف شعبہ ہا ئے زند گی سے تعلق رکھنے والی 1000خواتین خصو صی طو ر پر شر یک ہو رہی تھیں۔اور پھر وہ تا ریخی لمحہ آ ہی گیا چند تقا ریر کے بعدصدر مملکت نے اس بل پر دستخط کر دےئے وہا ں پر مو جو د تما م خواتین کی خو شی کی انتہا دیدنی تھی وہ اپنی نشستو ں پر کھڑے ہو کر تا دیر تا لیا ں بجاتیں رہیں۔

(جاری ہے)

۔ کچھ خوا تین کے فرحتِ جذبا ت سے آنسو بھی چھلک پڑے۔۔۔لیکن اس وقت اس تقر یب میں مو جو د شا ید ہی کو ئی شخص ایسا ہو گا جو اس قانو ن سا زی کی محر ک ڈا کٹر فو زیہ سید کے جذبا ت اور کیفیت کاانداازہ لگا سکتا ہو،وہ جسما نی طو ر پر اس تقر یب میں مو جو د ہو تے ہو ے بھی ما ضی کے بیتے لمحا ت میں غلطا ں تھیں ۔۔
ان کو شروع دن جب سے کہ خو د ان کے سا تھ اور ان کے سا تھ کا م کر نے وا لی سا تھی خواتین کے سا تھ ہرا سیت کے واقعایا ت پیش آئے اور انہو ں نے ہرا سیت کے خلا ف قا نو نی جنگ لڑ نے کافیصلہ کیا تھا، ابتدا ء میں نا کا م ہو نے ، دفتر میں سو شل با ئی کاٹ،دھمکی دھو نس اوربد نا می کا سا منا کر نا پڑا لیکن ان سب خوا تین نے ہمت نہ ہا رنے اور خوا تین کو حقو ق دلا نے کے لئے تحر یک کا بیڑہ اٹھا یا تھا۔

یہ تما م منا ظران کے ذہن کی کینوس پر ایک ایک کر کے آتے جا رہے تھے۔۔۔
UNDPمیں کا م کر نے والی ایک خا تو ن اپنے سا تھ کا م کر نے والی اپنی سا تھی ڈا کٹر فو زیہ سید کے پاس آ ئیں ۔وہ بہت بے سکو ن ، پر یشا ن تھی ، کا فی دیر تک ڈا کٹر فو زیہ کے پا س گم سم ۔۔بنا کچھ کہے بو لے بیٹھیں رہیں۔جب کچھ دیر کے بعد اوسا ن بحال ہو ئے تو انہو ں نے سہمے ہو ئے دبے دبے لفظو ں میں با ت شرو ع کی مگر اتنی دیر کے بعد بھی وہ ٹھیک طو ر اپنا مد عہ بیا ن نہیں کر پا رہی تھیں۔

ڈا کٹر صا حبہ نے صو رت ِ حا ل کا ادرا ک کر تے ہو ئے اپنی سا تھی کو حو صلہ دیا اور کہا کہ آپ اپنی با ت تسلی سے مجھے بتا ؤ گھبرا ؤ مت ہمت سے کا م لو ۔۔ یو ں حو صلہ پا نے پر انہو ں نے بتایا کہ ہما رے ہی ادارے کا مسٹر, چ،مجھے بہت دنو ں سے ہرا سا ں کر رہا ہے،وہ مجھے اکثر مختلف بہا نو ں سے اپنے پا س بلاتا ہے پھر پر سنل ہو نے کی کو شش کرتا ہے، کبھی چا ئے کبھی کھا نے کی دعوت اور پھر عجیب للچا ئی ہو ئی نظرو ں سے مجھے دیکھتا ہے۔

۔۔معنی خیز با تیں کر تا ہے۔۔جو میرے لئے سو ہا ن رو ح ہیں۔
ڈاکٹر صا حبہ نے جب پو ری بات سنی تو انہو ں نے اسے تسلی ہو ئے اپنے سا تھ پیش آنے والے وا قعے کے با رے میں بھی بتا یا کہ یہی آدمی ان کو بھی اسی طر ح سے ہرا سا ں کر تا رہتا ہے۔جب یہ با ت کھلی تو دفتر کی دو سری سا تھی خواتین نے بھی اپنے سا تھ پیش آ نے وا لے انفرا دی وا قعا ت سے پر دہ اٹھا یا ۔

پتا چلا صو رتِ حا ل بہت گھمبیر ہے ا س ادا رے میں اس وقت 16خواتین کام کر رہی تھیں ان 16میں سے 15پندرہ خوا تین نے اس شخص کے با رے میں ایک سے تجربا ت بتا ئے۔مسٹر، چ، ایک ہی وقت میں اپنے دفتر میں کام کر نے وا لی 15خواتین کو ہرا سا ں کر رہا تھا۔سولہو یں خا تو ن کے سا تھ یا تو ایسی صورتِ حا ل نہیں تھی یا پھر وہ مصلحتاً بتا نانہیں چاہ رہی تھی۔جو بھی تھا صو رتِ حال تشویش نا ک تھی۔

ان خواتین نے فیصلہ کیا کہ ان کو اس شخص کے خلا ف ایکشن لینا چا ہئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر تیں تو اس سے اس شخص کا حو صلہ بلند ہو گا جس سے بعد میں آنے والی خواتین بھی اس کے شر سے محفو ظ نہیں رہ سکیں گی۔نتیجتاًانہو ں نے اس کے خلا ف اپنے دفتر کی انتظا میہ سے شکا یت کر نے کا فیصلہ کیا۔15خواتین نے اس کی سب نا پسندیدہ حرکتو ں کے خلا ف تحریر ی شکا یت انتظا میہ کو دے دی۔

لیکن۔۔۔یہا ں پر تو گو یا گنگا ہی اُلٹی بہ رہی تھی،انتظا میہ نے ان درخواستو ں کو نہ صر ف ردی کی ٹو کری میں پھینک دیا بلکہ ان خواتین کے خلا ف انتقا می کا روائیا ں شرو ع کر د یں مختلف حیلے بہا نو ں سے ان کو پریشا ن اور ان کے گرد گھیر ہ تنگ کیا جا نے لگا جن خوا تین کے معا ہد وں کی مدت ختم ہو رہی تھی انتظا مہ نے ان کو مز ید تو ثیق نہ کر نے کا فیصلہ کیا ۔

کچھ خوا تین کو ترقی کا سبز باغ بھی دکھا نے کی کو شش ہو ئی،کچھ کو ڈرا یا دھمکا یابھی گیادفتر میں ان کا social boycott کیا گیا یہا ں تک کہ سا تھ کا م کر نے والے لو گ ان کے سلا م کا جو ا ب تک دینا گوا رہ نہیں کر تے تھے،کہ کسی نے دیکھ لیا تو ان کی نو کری بھی دا ؤ پر نہ لگ جا ئے ۔نیز جیسے بھی ممکن تھا ان کو ذہنی طو ر پر اذیت سے دو چا ر کیا گیا ،الگ کر نے ،تو ڑنے ،حو صلے کو پست کر نے کی ہر ممکن کو شش کی گئی۔

یہ صو رت حا ل بہت تکلف دہ تھی اوران خو اتین کے لئے ڈراو نے خوا ب سے کم نہیں تھی۔کیو نکہ یہ وا قعا ت ہر رو ز اخبا را ت کی زینت بن رہے تھے ، اسلا م آبا د جیسے اس و قت کے چھو ٹے سے شہر میں جب بھی یہ (خوا تین)کہیںآ تی جا تیں تو ہر محفل میں ان ہی کی با تیں ہو رہی ہو تیں جو ان کی کو فت میں مزید اضا فے کاباعث بنتیں،یہا ں تک کہ انہو ں نے سما جی تقریبا ت میں بھی جا نا تقر یباً موقوف کر دیا ۔

ان سب مصا ئب وآلام کے با وجود بھی ان خوا تین نے ہمت نہیں ہا ری انہوں نے اپنے حق پر ڈٹے رہنے کی ٹھا ن لی تھی ۔روز ا نہ وہ سب کسی ایک سا تھی کے گھر ملتیں ایک دو سر ے کو ہمت دلاتیں اور آئیندہ کے لا ئحہِ عمل پر با ت چیت ہو تی کہ اپنے کیس کو وہ مز ید بہتر طو ر پر کیسے پیش کر سکتی ہیں۔ان سب نے فیصلہ کیا کہ اپنے ادارے کے صدر دفترجو کہ پا کستا ن سے با ہر تھا اس شخص کے خلا ف شکا یت کریں گی سوانہو ں نے ملک سے با ہر قا نو نی جنگ لڑ نے کے لئے اس آدمی کے خلا ف تحر یر ی شکا یت اپنے ادارے کے صدر دفتر میں دے دی۔

اب ان کا خیا ل تھا کہ ان کو انصا ف ملے گا ان کی محنت رنگ لا ئے گی وہ اپنے مقصد میں سر خرو ہو جا ئیں گی۔لیکن۔۔۔۔۔یہا ں پر بھی صو رت حال یکسر مختلف تھی۔ادارے کے سر براہ نے ان کی تحر یر ی شکا یت پر ایکشن لینے کی بجا ئے کہا آپ کے ملک (پاکستان)میں ایسے وا قعات معمو ل کی با ت ہے مجھے اس وا قعے پر بلکل حیر ت نہیں ہو ئی مجھے حیرت اس وقت ہوتی اگر وہ ایسا نہیں کرتامیرے ما تحت نے کو ئی جرم نہیں کیا اور میں آپ کی درخوا ست کو خا رج کر تا ہو ں۔

۔اس وقت ان خواتین کی حا لت نہ گفتہ بہ تھی،ان کی آنکھیں حیر ت کے ما رے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں یکبارگی سب پر سکتہ طا ری ہو گیا ،وہ تو انصا ف کی امید لیے گھڑ یا ں گن رہی تھیں مگر شا ید انھیں مز ید امتحا ن سے گز رنا تھا ۔ ۔ ۔۔۔
شکست خو ردہ حا لت میں ہو نے کے با وجو د انہو ں نے ہمت نہ ہا رنے کا فیصلہ کیا ،اپنی با قی ما ندہ ہمت کے سا تھ انہوں نے فیصلے کے خلا ف بین ا لا لقوا می ثا لثی عدا لت میں اپیل کردی ۔

مقد مہ دا ئر ہو نے کے بعد فریقین کو نو ٹسس جا ری ہو ئے دو نو ں فریقین کو سسنے اور اس شخص کی مکمل راز دا ری سے انکواری کے بعد عدالت پر یہ روز روشن کی طر ح عیا ں ہو گیا کہ یہ شخص اپنے ما تحت کا م کر نے وا لی خوا تین کو جنسی طو ر پر ہرا سا ں کر تا ہے۔یہ وا ضح ہو نے کے بعد عدا لت کو اپنا فیصلہ سنا نے میں زیا دہ دقت کا سا منا نہ کر نا پڑا ۔۔بلا آخر پُر عز م خوا تین کی کو ششیں رنگ لا ئیں اور وہ گھڑی آ ن پہنچی جس کے لئے انُہو ں نے صبر آزما جدو جہد کہ جو ان کی ذا ت کے لئے نہیں بلکہ دینا بھر ان خوا تین کے لئے تھی جو صنفی تشد د کا شکا ر تھیں۔

۔۔ اس شخص کے خلا ف عدا لت نے تا ریخی نو یت کا فیصلہ سنا یا ۔عدا لتی فیصلے کے بعد اس کو نو کر ی سے بر خا ست کر دیا گیا ۔ اور یو ں ان با ہمت حو صلہ مند خوا تین کی مسلسل جدوجہد رنگ لا ئی وہ اپنے مقصد میں کا میا ب ہو گئیں۔۔آج یہ سب منا ظرڈا کٹر فو زیہ کو یا د آ رہے تھے اور ان کی آنکھیں بھیگتی جا ری تھیں۔۔وہ اس وقت چو نکی جب ان کی جدو جہد میں شر یک ایک سا تھی نے انہیں جھنجو ڑتے ہو ئے کہا فو زیہ ۔

۔۔فو زیہ ہم کا میا ب ہو گئے کا میا ب ہو گئے۔۔۔پا کستا نی خوا تین کو آج ان کا حق صدر مملکت کے دستخطو ں سے جا ری ہو نے وا لے بل میں درج قا نو ن سے مل گیا ۔۔۔صنفی تشدد اور ہرا سا ں کر نے کے مکرو ہ دھندوں کے مر تکب عنا صر کو ان کے انجا م تک پہنچا نے کا راستہ کھل گیا یہی ڈا کٹر فو زیہ اور ان کی سا تھی خوا تین کی جدو جہد کا ثمر ہے جو ہر محنت کش ،ہر کا م کر نے وا لی خا تو ن کا بنیا دی حق ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :