درندے میری بستیوں کے

جمعرات 25 دسمبر 2014

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

کئی روزبے چینی میں گزرے پھر جیسے قرارآنے لگا کتنی راتیں سو نہیں پایا یاد نہیں ”نیچوں کی اشنائی “کا انجام یہی ہوتا ہے ‘ ذہن سوچوں کا تانا بانا بننے میں مصروف تھا کہ موذن سے اس ذات پاک کی کبریائی کی صدا بلند کی جس نے تمام انسانوں کو ایک جیسا پیدا کیا مگر انسان نے اپنے آپ کو مختلف گروہوں میں بانٹ لیا‘مادیت نے اس سے احترام آدمیت چھین لیا‘امیری اور غریبی‘رنگ ونسل کے فرق نے انسان کو اس کا رتبہ بھلا دیاوہ یہ بھول گیا کہ اس پر اللہ کا خلیفہ ہونے کی بھاری ذمہ داری ہے جسے اس نے باخوشی ورضا قبول کیا تھا اور جس کو نبھانے کے لیے اس نے خدا سے عہد کیا تھا‘اذان ختم ہوچکی تھی ‘افق پر جگمگاتا ستارہ نوید سحر دے رہا تھا‘ہر صبح کی طرح یہ صبح بھی ظلم اور ناانصافی سے شروع ہوگی اور نجانے کتنی خواہشات ‘ارمانوں ‘خوابوں اور آرزؤں کا مدفن بن کررات کی آغوش میں دم توڑ دے گی‘نجانے کتنے منصور تختہ دار تک پہنچیں گے اور کتنے خلیل آتش نمرود سے گزارے جائیں گے اور انسان.انسان پھر خواہشات کا کفن اوڑھ کر سو جائے گا ایک نئی صبح کی امید پر پھر اسی امید پرایک روز منوں مٹی اوڑھ لے گا‘ہم اپنی نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟مذہبی لیڈرقوم کی سادہ لوحی سے خوب فائدہ اٹھا کر اپنے لئے جیس عبائیں اور قبائیں بناتا ہے اور اپنی قوم کی ”معصوم قلبی“ کی بدولت ایک نہایت عظیم الشان تاج پہن کر انسان کے سامنے شیطان کی ذوالتوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے مگر خود ان کی خیرات زکوةٰ لے کر محافل عیش و نشاط گرم کرتا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارا دانشور اپنا فکر و علم برسرعام فروخت کرتا ہے اور گدھ کی مانند سڑی ہوئی لاشوں کے سوا کسی پر بھی اس کی نظر نہیں پڑتی۔ جو اپنے آپ کو سب پر فائق کرنے کے لئے خوب کوشش کرتا ہے مگر اس کے بوسیدہ افکار ماضی کے ان بیکار مراکز کا چکر لگاتے ہیں۔جہاں قوموں کی پرانی جھونپڑیاں اور ناکارہ میلے کچیلے کپڑوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے‘عرش لکھنوی ساری زندگی اپنے اکلوتے بیٹے کو ایک نئی قمیض نہ دلواسکے جب ان کا انتقال ہوا توان کا ایک دوست نئی قمیض لیکر آیا جب بچے نے نئی قمیض دیکھی تو ماں سے سوال کیا کہ یہ کون لایا ہے ماں نے جواب دیا کہ تمہارے باپ کا دوست ہے تعزیت کرنے آیا تو تمہارے لیے نئی قمیض لے آیا‘ بچے نے معصومیت سے کہا ماں ابا پہلے کیوں نہیں مرگیا‘میرے رفیق اپنے گردنگاہ ڈال افسوس کہ ہم عرش لکھنوی کے اس دوست سے بھی زیادہ بے حس ہوگئے ہیں کہ جس نے اس کے مرنے کے بعد ہی سہی اس کے بچے کی خواہش تو پوری کردی‘غریب اور امیر کا فرق غیرمنصفانہ تقسیم ہے‘انسانیت کش سرمایہ درانہ نظام ہے اور افسوس کہ ہماری ”مذہبی اشرافیہ“کی شان میں کوئی گستاخی کردے تو پورے ملک میں طوفان کھڑا کردیا جاتا ہے مگر میرے رب اور اس کے رسولﷺکے خلاف کھلے عام جنگ ہورہی ہو ‘ہرروزاحکامات مقدسہ کا سرعام مذاق اڑیا جائے تو کسی مفتی اعظم کسی مولانا ‘کسی شیخ القرآن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ ہم نے مذہب اور نیکوں کو بھی خودنمائی کا ذریعہ بنالیا‘بھلا ایسی نیکی کا کیا فائدہ جس کا چار بندوں کو پتہ نہیں چلے‘ہم نے مذہب کو کشت اغراض سمجھ لیا‘جسے اغراض کے تحت بویا اور سینچا جاتا ہے‘بعض اسے حصول جنت کی امید میں پروان چڑھاتے ہیں اور بعض عتاب جہنم کے ڈر سے دونوں گروہ فریب خوردہ ہیں اگر یوم حساب کا خوف نہ ہوتا تو لوگ خدا کی پرستش نہ کرتے اور ثواب کی خواہش نہ ہوتی تو وہ کفر کی راہ ہی اختیارکرتے گویا مذہب ان کی تاجرانہ زندگی کا محور ہے مگر ہم نے جنت کے حصول کی خواہش تو کی مگر خدا کو پانے کی آروز کو دفن کردیا‘حق ، عزم کے ساتھ ہے روحیں طاقتور تو سر فراز کی جاتی ہیں ور ضعیف ہوئیں تو مغلوب اور محکموم بنا دی جاتی ہیں‘ میرے عزیزاس حقیقت کی تکفیر نہ کر کہ طاقتور بازوؤں کے مقابلے میں پر عز م روح قومی تر ہے !تخت شاہی پروہی متمکن ہوتے ہیں جن کی روحیں توانا اور پر عزم ہوتی ہیں اور وہ لوگ‘ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں کہ جن کے جسم مضبوط مگر روح مردہ ہوتی ہیں اور یاد رکھ شیر کے کچھار میں محض ایک بو ہوتی ہے جو لومڑی کے بچوں کواپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتی چاہے شیر کچھار میں ہوایا جنگل میں شکار کی گھات میں‘ بعض پرندے آزاد فضا میں پرواز تو کرتے ہیں مگر اس عقاب سے خائف رہتے ہیں جو زمین پر مرتے وقت بھی نسلی تفخر میں اپنی گردن سرفراز رکھتا ہے ‘احسان کرتے وقت نفس بے لوث اور دل آزاد ہونا چاہیئے،کہ بدی فنا کے بعد بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی‘وقت کا بے رحم ہاتھ،بہادر اور بے ایمان کو ایک ساتھ دبوچتاہے اور فنا کی انگلیاں دونوں کی ہڈیوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالتی ہیں!سویہ مت کہو کہ فلاں ایک بے نظیر عالم اور کوئی پر جلال رہ نما ہے‘ بہترین ہیں وہ لوگ جو بھیڑوں کی طرح گڈریے کی آواز پر چلتے ہیں‘زمین پر جو آزاد ہے وہ غیر شعوری ظور پر اپنی خواہشات سے اپنے لیے ایک زنداں تعمیر کر لیتا ہے ،اور اس میں محبوس ہو کے رہ جاتا ہے ،اگر وہ اپنے خونی رشتوں سے نجات پاتا ہے ۔

تو عشق کے دام خیال اور نشاط آفریں لمس میں گرفتار ہو کے رہ جاتا ہے! وہ ذہین و فہیم ہے۔پر اپنی درشتی اور سختی کے سبب، ناشکرا ہے ۔حتیٰ کہ حق کے معاملے بھی ۔وہ آزاد ہے۔تو وہ لباس کی رعنائی اور اپنے حسن و جمال کی فتنہ گری سے بے خبر رہتا ہے‘میرے رفیق میں ان دلیر وں سے محبت کرتا ہوں،جو اپنے شوق و آرزو کی آگ میں جلتے ہیں ،اپنے دلوں کے وجدان سے بے چین ہیں۔

اپنے جذبات کی اطاعت کرتے ہیں،اصولوں کے میدان کا رزار سے ہٹ کر ”اصل اصول“ کواپنا مرکز قرار دیتے ہیں،اختلاط افکار سے روگرداں ہو کر اپنا روح اس مجروح اور اولیں فکر کی طرف کر لیتے ہیں جو انہیں بادلوں سے پرے بھی اڑا لے جاتی ہے اور سمندر کی گہرائیوں میں بھی اتار دیتی ہے۔میں اعتدال پسندوں کو جانتا ہوں،میں نے ان کے ارادوں کو تولا ہے ،ان کی کوششوں کو جانچا ہے اور انہیں بزدل پایا ہے جو بادشاہ کی شکل میں ”حق “ سے اور شیطان کی صورت میں ”باطل“ سے ڈرتے ہیں۔

چنانچہ انہوں نے عقائد و قواعد کے ان درمیانی حلقوں میں پناہ لے لی ہے جو نہ مفید ہیں ،نہ مضر اور ان آسان راہوں پر چلنے لگے ہیں،جو انہیں سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہیں۔ان سنسان جنگلوں میں،جو ہدایتوں اور گمراہیوں سے خالی ہیں ۔جہاں کامیابیوں اور ناکامیابیوں کا حال زندگی موسم گرما ہے ،جس کی تمناؤں اور آرزوؤں کے سمندر مترنم ہوتے ہیں،اور موسم سرما ہے ،جو اپنی آندھیوں کے ہلاکت خیز یوں کے سبب تاب ناک ہے،اس لئے جو کوئی اپنی زندگی کو گرمیوں کے خمار اور جاڑوں کی دہشت سے محفوظ رکھنے کے لئے ،اسے مختلف حصوں میں تقسیم کرنے میں اعتدال سے کام لیتا ہے۔

اس کے دن جلال و جمال سے خالی اور اس کی راتیں افسا و خواب سے محروم ہو جاتی ہیں اور وہ خود زندوں کے مقابلہ میں مردوں سے قریب تر ہو جاتا ہے ،یہی نہیں بلکہ ان ”فریب و الرگ“ انسانوں میں سے ہو جاتا ہے ،جو زمین کے بطن میں سونے کے لئے مرتے ہیں۔نہ سوچ کی روشنی میں چلنے پھرنے کے لئے تندرست ہوتے ہیں ۔جو کوئی دین میں اعتدال سے کام لیتا ہے ،وہ سزا کے خوف اور جزا کی خواہش کے درمیان حیرانی و سر گشتگی کے عالم میں کھڑا رہتا ہے۔

چنانچہ جب کبھی اہل ایمان کے جلوس کے ساتھ چلتا ہے ،لکڑی کے سہارے چلتا ہے اور جب کبھی بحالت نماز رکوع میں جاتا ہے تو اس کی فکر اس کے سامنے کھڑی ہو کر اس کا مذاق اڑاتی ہے۔اور جو کوئی دنیا میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ مدت العمر وہیں رہتا ہے جہاں پیدا ہوا تھا ،وہ نہ پیچھے ہٹتا ہے کہ لوگ اس کی رجعت سے سبق حاصل کریں نہ آگے قدم بڑھاتا ہے کہ دنیا کو راہ راست دکھائے انپے کا رناموں سے اسکی تربیت کرے بلکہ حیران اور بے حس و حرکت کھڑا رہتا ہے اپنے سائے پرنگاہیں جمالے ،اپنے دل کی دھڑکنوں پر کان لگائے اور اپنے نفس کا گلا گھونٹے‘ جو کوئی شرکی مدافعت اور خیر کی اعانت میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ شرکو شکست دے سکتا ہے نہ خیر کی امداد کر سکتا ہے وہ صرف اسی پر اکتفا کرتا ہے کہ پگھلے ہوئے جذبات کے اردگرد ،منجمد جذبات کی دیوار کھینچ لے ،چنانچہ وہ اپنی ساری عمر خواہشوں کے ساحل پر بسر کر دیتا ہے ،سیپ کی طرح اس کاظاہر،پتھر کی مانند سخت اور باطن ،غلیظ رطوبتوں سے پر ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ زندگی کے سمندر کا چھڑاؤ کب ختم اور اتار کب شروع ہو گا؟اور جو کوئی عظمتوں کی طلب میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ ان تک کبھی نہیں پہنچ سکتا،وہ عظمت و بزرگی کی روح سے نکھار کی طرف دھیان نہیں دیتا بلکہ ان کی ظاہری سطح پر سونے کا چمک دار پانی چڑھا دیتا ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا یہاں تک کہ ہوا کا ایک جھونکا یاروشنی کی ایک شعا ع اسے فنا کر دیتی ہے ۔

اور جو کوئی آزادی کے پیچھے دوڑنے میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ ٹیلوں اور دیواروں میں اس کے نقوش قدم کے سوا اور کچھ نہیں دیکھ سکتا اس لئے کہ آزادی زندگی کی مانند ہے جو لنگڑوں اور پاؤں توڑ کر بیٹھ جانے والوں کے لئے اپنی رفتار سست نہیں کرتی میرے رفیق آگے بڑھ خودسپردگی کو اختیار کر اور واحدانیت کے لامحدود سمندر میں غوط زن ہوجا کہ اگر تو حقیقت کو پانا چاہتا ہے تو تمہیں اس میں اترنا ہی پڑے گا‘تمہیں حکایت بیان کرتا ہوں غور سے سن اور اپنے اندر تلاش کر اس چور کو جوتیرے اندر ہی رہ کہ نقب لگاتا ہے ”جب بھیجا خدا نے جبرئیل کو زمین پر کہ لائے ایک مٹھی خاک کی کہ بناؤں میں اپنانا تب زمین نے کی آہ وزاری سامنے جبرئیل کے اور کہا نہ توڑ اے جبرئیل یہ ستم مجھ پر، سو ہوا موم وہ یہ گریہ وزار ی سن کر، بھیجا پھرخدا نے اسرائیل اور میکا ئیل کو ،پرآئے یہ دونوں بھی زمین کے کہے میں اورگئے عالم بالاکو واپس بغیر مشت خاک کے،تب انجام یہ کام عزرائیل نے اور پہنچائی ایک مٹھی خاک حضور اپنے رپ کے۔

رکھی گئی پھر وہ مشت خاک مابین طائف و مکہ اور برسی جب اس پر بارش تو خاک گل ہوئی ‘تو کیا ہم سب اسی مشت خاک کا پھیلاؤ ہیں؟یاد کر اس مشت خاک کو اور پھر پرکھ اپنے وجود کو کہ خاک تو خاک میں جانی ہے ‘یاد رکھ اس دن کو جب خاک کو خاک میں ملنا ہے ‘سنومیرے رفیق ہم زندگی کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں مگر شکر اداکرنے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں‘اپنے منہ کا نوالہ کسی دوسرے انسان کو دینے سے کتراتے ہیں‘معاف کرنا انسانوں کی بستیوں میں حیوانوں کو ڈیرے ڈالنے کی اجازت ہم نے ہی دی اور آج وہ حیوان ہماری بستیوں کو اجاڑ رہے ہیں تو قصور کس کا ہے؟
اساں شوہ غماں وچ ڈب گئے ‘ساڈھی رڑھ گئی ناؤ پتوار
ساڈھے بولن تے پبندیاں ‘ساڈھے سرلٹکے تلوار

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :