غیر مقدس جنگیں

ہفتہ 20 دسمبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

اس وقت پوری دنیا کی آبادی کا تخمینہ 6ارب90کروڑلگایا جاتا ہے ۔ یہ چھ ارب نوے کروڑ نفوس22 بڑے اور قابل ذکرمذاہب میں منقسم ہیں ۔ دنیا کی آبادی کی مذہبی تقسیم کے مطابق اس وقت دنیا میں 2ارب 1کروڑ عیسائی، 1ارب 60کروڑ مسلمان اور ایک ارب سے زائد ہندو مت کے ماننے والے ہیں ۔اسی طرح دنیا میں چینی لوک مذہب30کروڑ چورانوے لاکھ،بدھ مت30کروڑ76لاکھ،بت پرستی اورنسلی مذہب30کروڑ،روایتی افریقی مذہب اور افرو-امریکی مذہب10کروڑ،سکھ مت 2کروڑ 30لاکھ،جوچہ1کروڑ 90لاکھ،روحانیت ایک کروڑ 13لاکھ،یہودیت ایک کروڑ چالیس لاکھ ،بہائی مت 70لاکھ،جین مت42لاکھ،شنتومت40لاکھ ،کاؤ دای40لاکھ،زرتشتیت26لاکھ، تنریکیو20لاکھ ،جدید بت پرستی10لاکھ،عالمگیری موحدین8لاکھ،راستافاریہ تحریک6لاکھ،ساینتولوجی5لاکھ جبکہ سیکولراور بے دین افراد ایک ارب 10کروڑ کی تعداد میں موجود ہیں ۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ چند دیگر مذاہب بھی ہمیں دکھائی دیتے ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان ہے۔مذکورہ بالا تمام مذاہب کی تعلیمات کا مطالعہ کر لیجئے اور اس کے بعد پشاور میں ہونے والے المناک سانحہ کی شرعی، اخلاقی،ثقافتی اور سماجی حیثیت کا تعین کرنے کی کوشش کریں کہ آیااس واقعہ میں ملوث افراد کے اس عمل کو کیا نام دیا جاسکتاہے ۔
دنیا کے کسی بھی حصے پر رہنے والے انسانوں کی نفسیات کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حضرت انسان بچوں کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتا ہے فطری طور پر بچوں پر تشدد کرنے یا انہیں ذدوکوب کرنے سے احتراز کرتا ہے ۔

ماہرین نے قرار دیا ہے کہ یہ محض انسانوں کا ہی معاملہ نہیں بلکہ جانوروں میں بھی یہ جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا ہے ۔ اپنے اس موقف کی حمائت میں ماہرین نفسیات جنگل میں بنائی گئی ایسی متعدد ویڈیوز پیش کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک بندر کا کم سن بچہ درخت سے نیچے گر جاتا ہے ۔ایک شیربندر کے اس بچے کو دیکھتا ہے اور اسے واپس درخت تک چھوڑنے کی تگ ودو میں لگ جاتا ہے ۔

یہ ویڈیو پندرہ سے بیس منٹ کے دورانیہ پر مشتمل ہے ۔اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ شیر کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگروہ بندر کے بچے کو درخت تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے ۔ اسی طرح ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک شیر سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے بکری کے بچے کوکس طرح اپنے جسم کی حدت فراہم کرنے کے بعد اسے جنگل میں چھوڑ کو ایک طرف کو چلا جاتا ہے تاکہ اس کی ماں بکری اسے آکر واپس لے جائے ۔

ناقابل فہم امر یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں جن لوگوں نے معصوم بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا ہے وہ کس مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ایسا کر گزرے ہیں؟ ۔ جب وہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم یعنی تحریک طالبان پاکستان نے یہ ”عظیم“کارنامہ سرانجام دیا ہے تو کیا تاسف اور ہزیمت ان کے اذہان پر دستک نہیں دیتی؟کہ ہم جس نبی ﷺ کے ماننے والے ہیں ان سے جب ایک بدو سوال کرتا ہے کہ ”حضور!ہمارے ہاں تو بچوں سے اس طرح دیوانہ وار پیار نہیں کیا جاتا جس طرح آپ بچوں سے بے تحاشہ پیار کرتے ہیں ؟۔

اس پر امام کائنات جواب دیتے ہیں ’‘بچوں کے معاملے میں اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے رحم اٹھا لیا ہے تو اس پر میں کیا کہہ سکتا ہوں“۔ گویا بچوں کو مارنا اور پھر جان سے مارنا تو بہت ہی دور کی بات بچوں سے پیار نہ کرنے والوں کے متعلق حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ان کے دل سے اللہ نے رحم نکال لیا ہے ۔حضرت انسان کی تاریخ جنگ و جدل سے اٹی پڑی ہے ہر طرف معرکہ آرائی میں رہنا طاقتوروں کا پیشہ بن گیا ہے ۔

تاہم مقام افسوس ہے کہ عظیم مذاہب کے پیروکار جنگوں اور لڑائیوں میں مذہب سے رہنمائی لینے سے احتراز برتتے ہیں ۔امریکہ ویت نام ، جاپان ،اعراق اور افغانستان میں آگ و آہن کی بارش کرتا ہے تو کسی نوع کی اخلاقی ، مذہبی اورا نسانی قدروں کو ملحوظ نہیں رکھتا وہ بس قوت کی بنیاد پر دنیا پر بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اسرائیل جب غزہ کے معصوموں پر ڈیزی کٹر بم اور مارٹر گولے فائر کرتا ہے تو وہ قطعاََ اپنے مذہب یہودیت سے رہنمائی نہیں لیتا کہ جنگیں کن اصولوں پر لڑی جائیں گی ۔

بھارتی فورسزجب کشمیر میں کریک ڈاؤن کر کے عفت مآب عورتوں اور معصوم بچوں کو نشانہ ستم بناتی ہیں تووہ اس اقدام کی اجازت اپنے مذہب ہندو مت سے نہیں لینا چاہتیں۔یہی حال مسلمان حکمرانوں کا ہے وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بنتے وقت یہ خیال نہیں کرتے کہ آیا ان کا مذہب ایسے مواقعوں کیلئے کیا تعلیمات فراہم کرتا ہے ۔ وہ دہشت گردی کی تعریف اسلام سے پوچھنے کی زحمت کرتے ہیں اور نہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ مسلط کرتے وقت اسلامی نظریات کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔

یہ تسلیم کر لیجئے کہ اس وقت دنیا بھر میں لڑی جانے والی تمام ”مقدس“ جنگیں دراصل غیر مقدس ہیں مقام افسوس یہ ہے کہ ان کو مذہب کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے ۔اپنے مفادات کے حصول کیلئے اگر امریکہ دنیا بھر میں قوت کا اظہار کر رہا ہے تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اسی طرح اس کے مقابل آنے والی عسکری جماعتیں اپنی جدوجہد کو عین اسلام اور جہاد قرار دیتی ہیں مگر ان جماعتوں میں شامل اکثر افراد مذہبی فریضے کی ادائیگی کی بجائے انتقام پر اترے ہوئے ہیں ۔

دراصل معصوم بچوں کو لخت لخت کرنا ایک انتقامی سوچ ہے ۔ سانحہ پشاور کے فوری بعد سوشل میڈیا پر دائیں بازو کی جماعتوں کے کارکنان اظہار کر رہے تھے کہ جب لال مسجدمیں عورتوں کو شہید کیا گیا ،جب ڈمہ ڈولہ میں 84معصوم طلبہ کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا گیا اس وقت میڈیا پر شور کیوں نہیں بپا ہوا ؟۔ دراصل یہ وہ انتقامی سوچ اور ردعمل ہے جس نے سماج کو بے حس بنا دیا ہے اور وہ ہر قسم کی مذہبی تعلیمات سے بے نیاز ہو گئے ہیں ۔کچھ دنیا کو مفتوح دیکھنا چاہتے ہیں اور کچھ جارح کو کسی بھی صورت میں تہس نہس کردینا چاہتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :