اِک مظلوم کی فریاد!

ہفتہ 20 دسمبر 2014

Hafiz Muhammad Faisal Khalid

حافظ محمد فیصل خالد

یوں تو پاکستانی قوم مصائب جھیل نے کی عادی ہو چکی ہے۔ مگر16 دسمبر کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے دار الحکومت پشاور میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے قریب ورسک روڈ پر واقع پاک فوج کی رہائشی کالونی سے متصل آرمی پبلک سکول میں نصابی سر گرمیوں کے دوران سکیورٹی فورسز کی وردیوں میں ملبوس آٹھ سے دس دہشتگردوں نے سکول کی عمارت کے عقبی حصے سے دیوار پھیلانگ کر اندر گھس کر فائرنگ کے نتیجے میں پیش آنے والے ہولناک واقعہ نے انسانیت کے نام پر ایک ایسا دھبا لگا دیا جو کہ شاید کابھی نہیں دھل سکے گا ۔

ایک محدوداند ازے کے مطابق دہشتگردی کے اس بزدلانہ واقع میں تقریباََ 241 ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں۔ درندگی کے اس ہولناک واقعہ نے ایسی تاریخ رقم کی کہ کائنات میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

(جاری ہے)

دہشتگردوں نے معصوم بچوں کی درسگاہ کو اس انداز میں مقتل گاہ میں بدل ڈالا کہ درندگی بھی شر ماگئی۔
نہ جانے کتنے باپ اپنے سر کا تاج کھو بیٹھے۔ ان گنت بوڑہوں سے انکے بڑہاپے کے سہارا چھین لئے گئے۔

نہ معلوم کتنی بہنوں کے مان خاک میں ملا دئیے گئے ۔خدا جانے کتنے بھائیوں کے ہاتھ کاٹ دےئے گئے ۔ شفقتِ پدری کے جذبے سے سرشار والدین نے جن سہانے خوابوں کے ساتھ اپنے بچوں کو حصولِ علم کی غرض سے سکول بھیجا ، وہ جذبات قابلِ بیان نہیں۔ صبح سویرے ٹھنڈمیں اٹھ کر اپنے لعل کیلئے ناشتہ تیار کر نے والی ماں نے کبھی سوچھا نہ تھا کہ یہ اس کے لختِ جگر کا آخری ناشتہ ہو گا۔

مان و دعوے سے چھوٹے بھائی کو سکول کیلئے تیار کرنے والی بہن کے احساسات کیا تھے انکو الفاظ میں قید کرنا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس بد نصیب بہن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس سے اسکی یہ خدمات چھین لی جائیں گی۔چھوٹے بھائی کوشفقت سے ڈانٹتے وقت بڑے بھائی نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ اس سے اس کے ماں جائے کو ہمیشہ کیلئے چھین لیا جائے گا۔

اس باپ کے جذبات کو کیسے بیان کروں جو بڑے فخر سے اپنے بچے کو خود سکول چھوڑ کر آیا مگر اس کو اس بات کا علم نہ تھاکہ آج اسکی یہ ڈیوٹی بھی ہمیشہ کیلئے ختم کردی جائے گی۔مختصراََیہ کہ ظلم و بر بریت نے جی بھر کر رقص کیا اور ابلیس سے بھرپور داد وپائی۔
اس سانحہ کے بعد حکومتی، انفرادی، و معاشرتی سطح پر اس بر بریت سے نمٹنے کے دعوے تو کئے جا رہے ہیں اور یہ سب اپنی جگہ درست ہوں گے۔

مگراے کے حاکمِ وقت اس بے سہارا و لاچار ماں کو ہم کیا جواب دیں جو اپنی آنکھوں میں کئی ایسے سوالات لئے بیٹھی ہے جنکا جواب ہم میں سے شاید کسی کے پاس بھی نہیں۔ عمران خان صاحب اس بوڑہے باپ کو کیا جواب دیں جسکے کپکپاتے ہونٹ یہ پوچھ رہے ہیں کہ اسکے بڑہاپے کے آخری سہارے کو تم نے کس جرم میں اپنی ذاتی اناء کی بھیڑ چڑہا دیا؟ صوبائی بیورو کریسی کے سربراہ محترم پرویز خٹک صاحب اس بہن کو کیا جواب دوں جو بھائی کے کندہوں پے سوار ہو کر اپنے گھر جانے کی امیدیں لگائے بیٹھی تھی اور وہ آج بھی اپنے بھائی کی راہ تک رہی ہے۔


مختصراََ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ ان سوالوں کے جواب نہ تو متعلقہ حکومت دینے کو تیار ہے اور نہ میرے اور آپکے پاس ہیں پاس ہیں۔کیونکہ بحثیتِ قوم مشترکہ طور پر ہم سب کو ان سوالات کے جواب در کار ہیں اور بد قسمتی سے انکے جوابات شاید کبھی نہ ملیں گے۔لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ سابقہ روایاتِ باطلہ کی طرح آج ایک بار بھر غریب کے بچے کو ہی سولی پر چڑہا گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :