فسطائی جماعت نے لاہور بند کر دیا

جمعرات 18 دسمبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

تبدیلی اور انصاف کے نام پر پاکستان کے بڑے شہروں کو بند کرنے کی جس حکمتِ عملی پر عمران خان عمل پیرا ہیں یہ پاکستان کے وفاق کو خطرات سے دوچار کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ پاکستان کے چھوٹے صوبوں کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی اس شکایت سے متفق ہونا پڑتا ہے کہ 14 اگست سے لے کر لاہور بند کرنے تک جو کچھ خان صاحب کرتے چلے آئے ہیں اس کا ایک آدھا فیصد بھی کسی پختون، سندھی یا بلوچی رہنما نے کیا ہوتا تو یقینا اسے پر غداری کا لیبل لگا کرنشانِ عبرت بنا دیا گیا ہوتا!سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب کے سیاست دان کی قومی سطح پر پھیلائی گئی ایسی بدمعاشی اور غنڈا گردی پر اسٹیبلیشمنٹ لب گنگ کیے کیوں بیٹھی ہے؟ حکومت ِ وقت ان کے خلاف کوئی ایکشن لے تو بری اور نہ لے تو کمزور یعنی چت اور پٹ دونوں پاکستان تحریکِ انصاف کے ہیں جو حقیقی معنوں میں فسطائیت کی علم بردار جماعت کے طور پر ابھری ہے۔

(جاری ہے)


اس فسطائی جماعت نے مقاصد کے حصول کے لئے اپنے نوجوان پیروکاروں کے ذہنوں میں یہ بات پکی کر دی ہے کہ پاکستان کی محبت اس جماعت سے زیادہ کسی دوسری جماعت میں نہیں ۔ جماعت کے حلقوں میں خان صاحب کی شخصیت کے گرد تانا بانا بن کر اپنے افضل و برتر و مخلص و نیک نیت و حب الوطن و پاک دامن و واحد نجات دہندہ ہونے کا تاثر ایک مضبوط اور پر اثر پروپیگینڈا کی بدولت اس حد تک بڑھایا جا چکا ہے کہ فسطائی جماعت کے پیرورکار فسطائیت زدہ سوچ کی قیادت میں اپنے نظریات اور لائحہ عمل سے اختلاف رائے رکھنا گناہ کبیرہ اور وطن دشمنی گردانتے ہیں جبکہ فسطائی مقاصد کے حصول کی خاطر اپنی جان و مال کی پروا تو درکنار مخالفین کو بھی کسی کھاتے میں لانے پر تیار نہیں۔


حکومت کے لئے ان کو روکنا اس لئے مشکل ہوا جاتا ہے کہ قانونی طریقوں کے ذریعے ریاستی اداروں کی طرف سے روکے جانے کی صورت میں فسطائی جماعت کے رہنماؤں کی نے اپنے پیروکاروں کو مرنے مارنے اور جلاؤ گھیراؤ کے واضح احکامات دے رکھے ہیں اور اس صورتحال میں ریاستی مشنری کے حرکت میں آنے سے فسطائی جماعت و ریاست کے مابین تصادم کا صد فیصد امکان ہے اور ظاہری بات ہے کہ تصادم کی صورتحال میں قیمتی جانوں کا نقصان اور ضیاں منطقی بات ہے۔

ایسی صورتحال میں یا توریاست فسطائی جماعت کوروکنے کی کوشش کرے اور تصادم کی صورت پیدا کرتے ہوئے قانون کی بالادستی اور ریاست کی رٹ قائم کرے یا پھر تصادم کی صورتحال سے بچاؤ کے مقصد سے عوام اور مظاہرین کی جان و مال کو نقصان سے بچانے کے پیش نظر کھلا ہاتھ دے دیا جائے!
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی ریاست نے جس قدر نرمی فسطائی جماعت کے مظاہروں ، ہڑتالوں اور غنڈا گردی کے خلاف دکھائی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

ایسے مناظر دنیا کے کسی معاشرے میں دیکھنے میں نہیں آتے جہاں مظاہرین ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑ رہے ہوں اور ریاستی اہلکاروں کو آگے بڑھ کر انہیں روکنے اور قانون شکنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی اتنی سی بھی اجازت نہ ہو ! فیصل آباد، کراچی اور اب لاہور میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آ ئے ہیں۔ ایک طرف فسطائی جماعت سڑکوں پر بیٹھ کر زبردستی شاہراہیں بند کروا رہی تھی اور دوسری طرف ریاستی اہلکاروں کے ہاتھ بندھے تھے۔

عام شہری پریشان تھے، تاجر نے نقصان اٹھایا، بیمار ہسپتال پہنچنے سے قاصر تھے، مخالف سیاسی کارکن نفسیاتی پیچ و تاب کھاتے رہے! ایک بار پھر پاکستانی قوم کو فسطائی جماعت کا معاشرے سے کھلے عام زنا بالجبر برداشت کرنا پڑا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا ہر اقدام بہترین قومی مفاد میں ہے اور اس زعمِ خودی میں تمام حدود پھلانگ جانا ان کا بنیادی حق اور انقلابی فرض ہے۔

فسطائی جماعت یہ بھول جاتی ہے کہ حقوق پاکستان کے تمام شہریوں کے برابر ہیں۔ نہ زیادہ نہ کم۔ فسطائی جماعت یہ سمجھنے سے بھی پیدل ہے کہ اسکے تمام حقوق اُس حد پر آ کر ختم ہو جاتے ہیں کہ جس سے آگے کسی دوسرے شہری کے حقوق کی حد شروع ہوتی ہے ۔
کل لاہور کو جزوی طور پر جتنا بھی بند کیا گیا زبردستی بند کیا گیا۔ فیصل آباد کی طرح لاہور کو بھی کھلتا دیکھ کر فسطائی جماعت پھر سے غنڈا گردی پر اترتی نظر آ ئی۔

میٹرو بس پر پتھراؤ کیاگیا ، تاجران کو لاہور کے بازاروں میں دکانیں کھولنے سے بزورِ بازو روکا جا رہا تھا، ٹریفک بدمعاشی سے بند کروائی گئی، کئی جگہوں پر ایمبو لینسوں کو رستہ نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں کم از کم دو بچے اور ایک بزرگ شہری کی وفات ہوئی،مریض ہسپتالوں کو نہیں پہنچ پا رہے اور اسی طرح ہزاروں بچے سکول نہیں جا پائے!!! مسلم لیگ ن نے انتہائی احسن اقدام اٹھاتے ہوئے فیصل آباد کے واقعات کے پیش نظر اور کراچی کے تجربات کے پیش منظر میں اپنے سیاسی کارکنان کو فسطائی جماعت سے دور رکھا جو بصورتِ دیگر خونی تصادم کا باعث بن سکتا تھا! کراچی کی طرح لاہور کی ہڑتال کو بھی اس لئے خیر خیریت سے گزرنا گنا جا سکتا ہے کہ لڑائی جھگڑے میں کوئی بد قسمت حق نواز لاش بن کر نہیں ڈھا !لیکن فسطائی جماعت کے لیڈر پھر بھی خالی ہاتھ لاہور سے نہیں لوٹے کہ اس معرکے کے اختتام پر ان کے سر تین بے گناہ عام پاکستانیوں کا خون آتا ہے جو ان کی بدمعاشی اور فسطائیت کا شکار ہوئے۔

اب فسطائی جماعت فخر سے کہہ سکتی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا گلو بٹ ان کا رہنما کپتان خان ہے جس پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت ریاست میں بھی نہیں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :