کچھ تو فرمائیے!

جمعرات 18 دسمبر 2014

Nadeem Tabani

ندیم تابانی

اے جگر آپ اورایسی چپ !
کچھ تو فرمائیے خدا کے لیے
کیا فرمائیں ؟ کس سے اور کس لیے؟ کیا اب بھی فرمانے کو کچھ بچا ہے ؟ فرمایا تو 1947میں بھی تھا، ایک بار نہیں بار بار ، صبح ،شام ، دن ، رات کئی بار ، ہر بار نئے عزم سے ، صرف کہا اور فرمایا نہیں تھا عہد کیا تھا ،پاکستان کا مطلب کیا : لا الہ الااللہ! دشمن یہ سن کر ہنسا تھا، قہقہے لگا رہا تھا، ہم پر ہماری سوچ پر، ہمارے نعرے پر ، ہمارے ارادے پر،اس کے طنزیہ قہقہے ہم نے نظر انداز کر دیے، ہمیں اپنی فکر اپنی سوچ پر ناز تھا، اسے اپنے مکر و فریب پر گھمنڈ تھا، دشمن نے بھی ایک عہد کیا تھا ، پاکستان کو پھلنے پھولنے نہیں دے گا، اسلام تو یہ کیا لائیں گے ، آپس میں لڑیں گے ، ایسا لڑیں گے کہ کیا کوئی لڑا ہو گا، ہم اپنے عہد پر قائم رہ سکے یا نہیں ،خود غور کر لیں، اپنے صبح وشام دیکھ لیں ، اپنے رات دن دیکھ لیں،ہم نے منزل کھوٹی کی یا کھری، وعدہ نبھایا یا توڑا، لیکن دشمن آج بھی اپنے عہد پر قائم ہے بلکہ ہمارے لہو سے اپنے چراغ جلا رہا ہے۔

(جاری ہے)


####
ہنستے مسکراتے ، کھیلتے کھلکھلاتے ، اچھلتے کودتے ، کسی پل چین سے نہ بیٹھنے والے ، کسی گھڑی نچلے نہ بیٹھنے والے ، شرارتی ،شوخ و چنچل 132بچے اپنے من کی طرح اجلا اور صاف و شفاف سفید لباس پہنے قطار میں کھڑے سوال پہ سوال کر رہے ہیں، تیسری بار وزیر اعظم بننے والے ،کسی کو خاطر میں نہ لانے والے ، شاہانہ مزاج اور شاہانہ انداز رکھنے والے نواز شریف ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، ملک کے سب سے مقبول سیاسی رہ نما، من چلوں اور چن چلوں کے ہر دل عزیز لیڈر عمران خان بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، آرمی چیف بھی اپنے پورے جاہ و جلال کو ایک طرف رکھ کر کھڑے ہو گئے ہیں، دوسرے لیڈر بھی درجہ بہ درجہ قطار در قطار کھڑے ہیں، سوالات کی بوچھاڑ ہے ، ایک کے بعد ایک سوال ہے، سب چپ ہیں سب کی زبانیں گنگ ہیں، اپنے اپنے دربار میں میں جب یہ ہوتے ہیں تو بس یہی ہوتے ہیں، جب یہ بولتے ہیں تو سب سنتے ہیں، ان کے لب کھلتے ہی، سب کے لب سل جاتے ہیں، لیکن یہاں ان کے لب ہل بھی نہیں رہے ۔


#خان صاحب ! میاں صاحب اس بے وفا کرسی کے لیے کب تک لڑیں گے ، جس نے آج تک کسی سے وفا کی نہ آیندہ کرے گی۔
#یہ ملک کس لیے بنا تھا، ایسے ملکوں سے تو دنیا بھری پڑی تھی ، پھر کیا ضرورت تھی ایک ملک کی ، قائد اعظم کی تقریریں بار بار پڑھیں اور جواب دیں ، اس مقصد کو کیوں بھلا دیا گیا؟
#ہمیں کس جرم میں تڑپایا گیا، خوں میں نہلایا گیا، لڑائی تو آپ لوگوں کی آپس میں ہو گی، ایک دوسرے سے ، نشانہ ہم کیوں بنے ۔


#چلیں ہم دنیا چھوڑدیتے ہیں، آپ تو کرسی کی قربانی نہیں دے سکتے، اپنی ”میں “ نہیں چھوڑ سکتے ، ہم اپنا لہو پیش کر رہے ہیں ، کیا اب بھی نہیں سوچیں گے ، دشمن اور دوست میں فرق کر یں گے ، یا اسی ادھیڑ بن میں لگے رہیں گے؟
#ہمارے جانے پر سوگ کیوں منا رہے ہیں، آپ کو تو خوشیاں منانی چاہییں، چلیں سوگ منائیں یا خوشی ، ہمیں کیا، کرنی تو آپ نے اپنی مرضی ہے ،مگر یہ تو بتائیں 3روزہ سوگ ختم ہونے کے بعد کیا کریں گے ؟ وہی کچھ نا! جو کل تک کرتے آئے تھے؟ وہی کرنا ہے تو سوگ کا تکلف کیوں کر رہے ہیں ، آج ہی سے شروع کر دیجیے۔


# سوگ کے دنوں میں آپ کیا کریں گے ؟ ہمارے گن گائیں گے، ہماری یاد میں شمعیں جلائیں گے، قبروں پہ پھول رکھیں گے ، کتبے لگائیں گے ، آنسو بہائیں گے ، مگر اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟یہ بھی تو سوچیے!
# یہ مگر مچھوں والے آنسوہمارے کس کام کے؟یہ تعزیتی جلسے ہمارے کس کام کے ، یہ پھولوں کا ڈھیر آپ کے دل کو تسکین دے رہا ہو ، یا اپنا احساس جرم دبانے کے لیے آپ کررہے ہوں مگراس سے ہمارے پیارے وطن کو کیا ملے گا۔


# ہم روزانہ قومی ترانہ پڑھتے تھے ، آپ لوگ بھی پڑھتے ہیں، ہم تو اس کے ایک ایک جملے ، لفظ اور حر ف پر قربان ہو گئے، سمجھ کے پڑھتے تھے ، یقین سے پڑھتے تھے، آپ بھی پڑھتے ہیں، پڑھنے کے ریکارڈ بناتے ہیں ، بھلا آپ نے کبھی اس کے مطلب پہ بھی غور کیا ہے، چلیں آج تک نہیں کیا تو کیا اب بھی کریں گے یا نہیں؟
#اور ہاں اے طالبان ! ہمیں نہیں پتاآپ لوگ کون ہیں، کیا ہیں، کیوں ہیں؟ لیکن بڑے ادب کے ساتھ علامہ اقبال کا ایک شعر آپ کی نذر کرتے ہیں ، یہ وہی اقبال ہیں جن کو سب اپنی اپنی طرف کھنچتے ہیں ، ان کے شعروں پر سر دھنتے ہیں، جن کی لکھی دعا کروڑوں بچے روزانہ پڑھتے ہیں، جن کا نام ہر لیڈر لیتا ہے یقینا ُ آپ بھی ان کا احترام کرتے ہوں گے ، ہمیں تو اپنا جرم سمجھ میں آگیا مگر آپ بھی کچھ سوچیے:
مجھ کو تو سکھادی افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :