پاکستانی سیاست کے مولاجٹ

اتوار 14 دسمبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

1979ء میں عالم گیر شہرت کی حامل فلم ”مولاجٹ“ منظرعام پرآئی اورپھر راتوں رات شہرت حاصل کرگئی‘فلم میں دو مرکزی کردار سلطان راہی (مولاجٹ ) مصطفی قریشی(نوری نت) نے ادا کئے ۔اس ساری فلم کا نچوڑدونوں کے درمیان ہونیوالا ٹاکرا ہی رہا ہے۔سلطان راہی کی بھڑکیں ”اوئے جاگیردارا!!“ اور پھر مصطفی قریشی کا نسبتاً ٹھنڈے لہجے میں ”نواں آیاں سوہنڑیاں“۔

دونوں ڈائیلاگ ہی فلم کی جان بن گئے۔ صاف لگتاتھا کہ ”نواں آیائیں سوہنڑیاں“ ڈائیلاگ اداہوتے ہی سلطان راہی کے ڈائیلاگ میں مزید تلخی بڑھتی ہی جارہی تھی اورپھر وہ پہلے سے زیادہ بلند آواز کے ساتھ بھڑک مارتے۔
سلطان راہی اورمصطفی قریشی نے بعد میں اکٹھے فلموں میں کام کیا مگر جو ادا مولاجٹ کی تھی وہ کسی اورمیں نظرنہ آئی۔

(جاری ہے)

گو کہ اب سلطان راہی چلے گئے‘ ان کے بعد مصطفی قریشی بھی محدود ہوکررہ گئے ہیں لیکن آج بھی مولاجٹ دیکھی جائے تو ماضی یاد آجاتاہے ۔

اس فلم کے اکثر کرداراللہ کے پاس پہنچ چکے ہیں لیکن جب پاکستان کی گلی محلوں میں جاری سیاسی کھیل کو دیکھیں اور پھرکبھی کنٹینر پر اورکبھی اقتدار کے ایوانوں میں سے اٹھنے والی آوازیں ”اوئے جاگیردارا!! ’“ پھر جوابی آواز ”نواں آیائیں سوہنڑیاں“ سننے کو ملے تو لگتاہے کہ مولاجٹ پھر سے اورنئی جدید ضروریات کے مطابق منظرعام پرآچکی ہے ۔

یہ سیاسی فلم براہ راست بھی ہے اور زیادہ اوریجنل بھی ‘
پاکستانی سیاست کے مولاجٹ یا نوری نتوں کاذکرکرتے ہوئے ایک چھوٹی سی بات کہیں گے کہ فلم ”مولاجٹ “ میں مرکزی کردار یعنی مولاجٹ کو قسما قسم کے نامی گرامی اداکاروں پر مشتمل ”ولن کھیپ“ کا سامنا رہا‘ وہ پوری فلم میں ایک سے بچتے دوسرے سے لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ راہی صاحب بھڑک کسی کو دیکھ کرمارتے توجواب کسی دوسری طرف سے آتا ۔

ایسا ہی کچھ پاکستانی سیاست میں بھی نظرآرہا ہے کہ 14اگست کے بعد سے بننے والی سیاسی مولاجٹ فلم میں کبھی کنٹینرسے اور کبھی جلسوں کے سٹیج سے آواز اٹھتی ہے ”اوئے شریفو! میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں“ جواب میں پتہ نہیں کتنی آوازیں اٹھتی ہیں ” پہلے اپنے گھر کی خبر لے “ پھرہنکارا بھراجاتاہے ”اوئے فلاں فلاں ! تم بچ کر نہیں جاسکتے ‘یہ عوام تمہیں اقتدار میں رہنے لائق نہیں چھوڑیں گے “ جواب میں ”ڈیوٹی پرمتعین “ وزرا کی پوری کھیپ ” نویاں آئیائیں سوہنڑیاں“ قسم کے ڈائیلاگ بول کر مدمقابل کے دماغ کو مزید گرم کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔

یہ سلسلہ 14اگست سے چلاتھا اور اب تک جاری ہے
عمران خا ن نے اعلان کیا کہ ”میں سولہ دسمبرکو پورا پاکستان بند کردونگا“ جواب میں یار لوگ سولہ دسمبرکو ’سقوط ڈھاکہ “ یاد کرنے لگے ‘پتہ نہیں دکانیں بندہونے پر ان یاران وطن کو کیونکر لگنے لگا ہے کہ ”غیرملکی ایجنڈے “ کی بدولت ایک اوربنگلہ دیش کی تیاریاں جار ی ہیں۔ خیر پاکستان میں دو باتیں عام ہیں‘ ایک سیاسی طورپر جس کسی کوجب جی چاہے ”غدار وطن “ قرار دے دو ‘ دوسرا مذہب کے معاملے جب جس کسی کا دل چاہے (اس کیلئے دین کاعلم ہوناضروری نہیں )کسی کو بھی کافر کہہ کر سڑکوں ‘گلیوں‘ مساجد‘ امام بارگاہوں‘ گھر دفاتر میں گولیوں سے بھون ڈالو‘اب نہ توعدالت الزام لگانے والوں سے پوچھتی ہے کہ انہوں نے کس بناپر دوسرے فریق پر الزام عائد کیا اور نہ ہی یہ سوال ان لوگوں کی طرف سے کیاجاتاہے جو ایسے لوگوں کوووٹ دیکر اسمبلیوں کی طرف روانہ کرتے ہیں۔

ہاں یہ فریضہ سیاسی مخالفین کی طرف سے بخوبی انجام دیاجاتاہے ۔
خیرذکر پاکستانی سیاست کے مولاجٹوں کاہورہا ہے تو کبھی عمران خان کے مقابل خواجہ صاحب ایستادہ نظرآتے ہیں اورکبھی قمیص کے بازوؤں کو اوپر کی جانب موڑے عابد شیرعلی میدان میں نکل آتے ہیں ‘ یہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ فلموں میں اکثر ایسے کردار اپنے ”بازوؤں کی مچھلیاں “ دکھاکر فریق مخالف پردھونس ڈالتے ہیں ۔

شاید عابد شیر علی کو بھی کسی نے یہی مشورہ دیاہوگا کہ ایسا کرنے سے وہ اچھے خاصے ”معتبر“ لگنے لگ جائیں گے۔ خیر یہ الگ بحث ‘ عرض کررہے تھے کہ ”اوئے شریفو! میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ’“ کی بڑھک کے بعد اچانک وزیرباتدبیر پرویز رشید ٹی وی سکرین پر چمکنے لگتے ہیں اورپھر ”نواں آئیائیں سوہنڑیاں“ قسم کے ڈائیلاگ بول کر اور پھرعمران خان کو نیا ”چیلنج“ دیکر رخصت ہوجاتے ہیں تھوڑی ہی دیرگزرتی ہے توپھرکوئی دوسرا وزیرباتدبیر آن موجود ہوتاہے اور پھر اس کی طرف سے بھی نیا چیلنج ۔

اب پوری قوم پریشان ہے کہ عمران خان کی دھمکیاں کب رنگ لائیں گی اورکب انہیں چیلنج کرنے والے باقاعدہ میدان عمل میں نکل کر سامنے آئیں گے ۔ ایسے ڈرامے عموماً نجی ٹی وی چینلز کی کھیپ میں ہی زیادہ نظرآتے ہیں ۔بقول راویان اگر نجی ٹی وی چینلز نہ ہوتے تو شاید جگہ جگہ ”مولاجٹ “ کی ریہرسل ہوتی نظر نہ آتی ۔ خیر یہ بھی اپنی جگہ الگ مذاق ہے کہ پوری قوم بھڑک جواب بڑھک ‘یعنی دوآشتہ والی بات ہوگئی ‘آگ کے جواب میں آگ کابگولہ‘منہ سے انگارے نکالنے یاچبانے کی بات اب پرانی ہوگئی ‘اب تو خیر ہرطرف سے آگ ہی آگ نظرآتی ہے۔


پاکستان کے ان سیاسی مولاجٹوں‘ نوری نت قسم کے سیاستدانوں کو شاید ادراک نہ ہو کہ ان کے تندوتیز جملوں کے کیااثرات مرتب ہوتے ۔ محض اتنا کہ فیصل آباد میں ایک بے گناہ مارا گیا ‘ کئی زخمی ہوئے اوردلوں کی نفرتیں الگ بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ آنیوالے اگرپھر سے انتخابی میدان سجے گا تو پھر دلوں یہ نفرتیں انگارے بن کر آنکھوں سے جھلکیں گی تو زبان سے آگ کے شعلے برساتی نظرآئیں گی۔ جب سیاسی تندور خوب گرم ہوجائیگاتوپھر ․․․․․․․․․پھر عام آدمی ہی اس تندور کا شکار بنے گا جس طرح ماڈل ٹاؤن‘ ڈی چوک ‘فیصل اباد میں بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :