کتا کہانی

اتوار 14 دسمبر 2014

Hussain Jan

حُسین جان

جب بہت سارے کتے مل کر کسی ایک کتے کے لیے بھونکنا شروع کر دیں تو پھر کتوں کو اُس کتے کو کتوں میں کتا مقام دینا پڑتا ہے۔ ویسے کتے تو پطرس بخاری کے بھی تھے مگر موجودہ حالات کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ وہ کتے تھوڑئے شریف کتے تھے۔آج کے کتے تو واقعی کتے ہیں جو ایک دوسرے کو کتوں کی طرح پڑتے ہیں،جیسے جیسے معاشرہ مہذب ہوتا گیا کتے مزید کتے ہوتے گئے ،گاڑیوں کی سیٹ پر پیچھے بیٹھنے والے کتے اگلی سیٹوں پر منتقل ہو گئے اور گلی محلے کے کتے ،کتے ہی رہے۔

اب تو صاحب سے کوئی کتوں والا کام کروانا ہو تو اُن کے کسی کتے کو ہی سفارش یا رشوت کے لیے کہنا پڑتا ہے۔ ویسے تو پاکستانی عوام کے ساتھ بھی کتوں جیسی کی جارہی ہے مگر افسوس کہ ہماری قوم کو کتوں کی کتی حرکتوں پر مزہ آتا ہے اسی لیے وہ اُن کی بھی عزت کرتے ہیں۔

(جاری ہے)


ویسے ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کتا کتا ہی ہوتا ہے یعنی اپنی گلی میں وہ شیر کی زمہ داری بھی ادا کرتا ہے اور دوسری گلی میں جاکرپھر کتا بن جاتا ہے۔

غیر ملکی کتوں کی قدر میں بھی کافی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ،کیونکہ سنا ہے وہ پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ عزت وزیر یا مشیر کے کتے کی ہوتی ہے کہ بڑئے بڑئے افسر بھی اُس کے ناز اُٹھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تیز طراری میں ڈاکٹروں کے کتوں کا کوئی ثانی نہیں وہ زیادہ تر اُس مقام پر کاٹتے ہیں جہاں اُن کے مالک کا کلنیک قریب ہو تاکہ 1500سے 200ہزار فیس فوراً ڈاکٹر صاحب کی جیب میں چلی جائے۔

آوارہ نسل کے کتوں کو عموما عادت ہوتی ہے کہ سرکاری ہسپتال کے سامنے ہی کاٹا جائے تاکہ متاثرہ فریک کو علاج دارو بھی میسر نہ ہو اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جائے یا کم ازکم زلیل و خوار ہوتا رہے۔
شاعروں کے کتے بہت نفس ہوتے ہیں آپ ان پر کتنے بھی پتھر برسائیں یہ آگے سے بھونکنے کے نہیں کیونکہ ان کو پتا ہے کاٹا تو ہم سے جانا نہیں رولا ڈالنے کا کیا فائدہ۔

اس قسم کے کتے ہمیشہ سست روی کا شکار رہتے ہیں اور ہمیشہ شاعر کی "آمد"میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے اشارئے بھی مختلف ہوتے ہیں جب تیز تیزبھونکے تو شاعر حضرات کو سمجھ آجاتی ہے کہ اب کسی کی پگڑی اچھالنی ہیں۔ اور اگر دھیمے انداز میں بھونکے تو اس کا مطلب ہے کہ پیار بھری کوئی غزل کہنی ہے۔ شعرہ حضرات کے کتے کیجغرافیائی خدوخال بھی دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر ان کے بال اکثر بڑھے رہتے ہیں یہ ہر وقت اپنے جسم کو کسی نہ کسی لحاف سے ڈھانپے رکھتے ہیں ، نرم مزاج ہونے کی وجہ سے ان کو ہر طرح کی گندگی سے دور رکھا جاتا ہے،ان کا ایک استعمال یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی قاری گھر میں آجائے تو یہ اس کو ہر حال میں مجبور کرتے ہیں کہ مالک کی شاعری سنے ورنہ ان گنت ٹیکوں کے لیے خود کو تیار کر لے ،لیکن یہ کاٹتے کم ہی ہے کہ کبھی اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے ،جس دن صاحب نے کوئی غزل ،قطہ یا نظم کا ناغہ کیا ہو اُس دن ان کی عید ہوتی ہے کہ وہ سارا دن یہ اپنی مرضی سے چل پھر سکتے ہیں اور شاعری سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔


اب کچھ سیاستدانوں کے کتوں کا بھی تفصیل سے زکر ہو جائے،یہ جیسا کہ اُوپر بیان کیا گیا ہے یہ سب سے خوش قسمت کتے ہوتے ہیں۔ ان کے کھانے کا بہترین انتظام کیا جاتا ہے اور ان کی حفاظت کے لیے ایک عدد انسان مقرر کیا جاتا ہے جو خود بے شک بھوکا رہے مگر کتا جی کو بھوکا نہ رہنے دے ، ویسے سیاستدان کے کتے کا محافظ بھی فائدے میں رہتا ہے کہ جو کچھ بچ جاتا ہے وہ یہ خود کھا لیتا ہے۔

سیاستدانوں نے ایک کتا نہیں رکھا ہوتا بلکہ کثیر تعداد میں اپنے پیچھے دم ہلانے والے کتے پالے ہوتے ہیں۔ ان کتوں سے یہ وقتافوقتا کوئی نہ کوئی کام بھی لیتے رہتے ہیں اپنے دشمن کے زیر کرنے کے لیے بھی ان کتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات وٹروں کو ڈرانے دھماکنے کا کام بھی یہ کتے ہی سرانجام دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ کتے بہت سمجھ دار ہوتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ مخالف کتا کسی بڑئے صاحب کا ہے تو یہ فورا بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے کتی حرکتوں سے بعض رہتے ہیں۔

سیاستدانوں کے کتو ں میں ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کو مالک بدلنے کی کافی عادت ہوتی ہے جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا صاحب کسی مصیبت میں مبتلا ہونے والا ہے تو یہ فورا سے پہلے اپنا دوسرا مالک ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اور پھر اُس مالک کی حمایت میں دن رات بھونکنے کے فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور یہاں تک کرتے ہیں کہ اگر پرانا مالک بھی نئے صاحب کے راستے میں آجائے تو یہ اُس کا بھی لحاظ نہیں کرتے اور فورا کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ وقت پلٹی مارئے اور یہ پرانے مالک کے پاس واپس چلا جائے مزئے کی بات تو یہ ہے کہ پرانا مالک ان سے کوئی بدلا نہیں لیتا بلکہ ان کے پہلے سے بھی زیادہ ناز نخرئے برداشت کرتاہے۔ ان کتوں کی ایک عادت یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ عوامی مسائل پر دھیان نہیں دیتے اور اپنی زندگی میں مست رہتے ہیں اگر کوئی عام آدمی غلطی سے بھی صاحب کے پاس کوئی مسئلہ لے کر آجائے تو یہ فورا اُس کی تکہ بوٹی کر دیتے ہیں کہ کیا صاحب کو اور کوئی کام نہیں جہ یہ تمھارے کام کرتے پھریں۔

ان کتوں کے "مارکیٹ ویلو" بھی زیادہ ہوتی ہے اور ان کی بولی لگانے والوں کی بھی لمبی لمبی لائیں لگی ہوتی ہیں جبکہ سب کو پتہ ہوتا ہے یہ وفادار نہیں مگر پھر بھی ہر سیاستدان ان کو خریدنے کی کوشش کرتا ہے۔
آجکل تو وکیل حضرات کو بھی کتے پالنے کا شوق چڑا ہے،ان کے کتے غصے کے تیز ہوتے ہیں اگر کوئی موکل،یا مخالف وکیل ان پر حد سے زیادہ جرح کرئے تو یہ ان کو کتوں سے ہی کٹواتے ہیں ویسے ان کے کتے زیادہ تر پولیس اور جج حضرات کی زیادہ خبرلیتے ہیں کبھی کبھی ان کی ز د میں عام شہری اور میڈیا کے لوگ بھی آجاتے ہیں گن گرج کے ساتھ بھونکنا ان کے کتوں کی خاص نشانی ہے،اس لیے لوگ وکیل حضرات سے بات چیت میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑتے،ورنا نتیجہ ٹیکوں کی شکل میں ہی نکلے گا۔

ان کی سب سے بری یا اچھی عادت یہ ہوتی ہے کہ اپنے خلاف کوئی بات بھی سننا گوارہ نہیں کرتے اور ہر وقت کسی پر بھی حملہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
کتوں کی ایک دوغلی نسل بھی ہوتی ہے اور یہ نسل زیادہ تر ہمارے میڈیا کے لوگوں نے پال رکھی ہے یہ ایک وقت میں کسی کے ساتھ ہوتے ہیں تو دوسرئے ہی لمحے کسی اور کے آگے دم ہلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کتوں کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ ہر وقت عنیک ان کی آنکھوں میں لگی رہتی ہے جس سے یہ ہر چیز کو مختلف اینگل سے دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔

اگر میڈیا اینکر ،کالم نگار یا رپورٹر کی کسی سے دشمنی ہو جائے تو پھر یہ اپنے دوغلی نسل کے کتوں کے مارکیٹ میں دوڑا دیتے ہیں جو سونگتے سونگتے ان کے لیے ایسی ایسی خبریں نکال لاتے ہیں کہ فریق مخالف کو منہ چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملتی۔ سیاستدانوں کے کتوں کے بعد یہ کتے سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ ان سے ہر کوئی پناہ ہی مانگتا ہے کیونکہ باقی کتوں کے کاٹنے سے تو انسان ٹیکے شیکے لگوا کر بہتر ہو جاتا ہے مگر ان کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں کیونکہ پل بھر میں یہ آپ کو آسمان سے زمین پر لے آتے ہیں۔


اور آخر میں فنکاروں کے کتوں کا بھی تھوڑا سا زکر ہو جائے یہ کتے بہت نفیس ہوتے ہیں اور مٹک مٹک چلنے کی وجہ سے فورا پہچانے جاتے ہیں کہ کسی فنکار کے کتے ہی ہو سکتے ہیں یہ ویسے بھی بے زر ہوتے ہیں کاٹنے سے زیادہ یہ پیار کی مار مارنے کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں،اسی لیے یہ کامیاب ترین کتے کہلاتے ہیں۔ لہذا ہماری زندگی ان کتوں کے گرد ہی گھومتی ہے جو جب دل کرتا ہے ہمیں کھڈئے لائن لگا دیتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرپاتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :