امریکی شرانگیزیوں کی مکروہ داستان

اتوار 14 دسمبر 2014

Qasim Ali

قاسم علی

گزشتہ دنوں امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی جانب سے ایک رپورٹ منظرعام پرآئی ہے جس میں امریکی عقوبت خانوں میں قید مسلمان قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے انتہائی بیہمانہ اور غیرانسانی سلوک کئے جانے کا انکشاف کیا گیا ہے ۔485صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں 9/11کے ملزمان کو خصوصی طور پر فوکس کیا گیا ہے جن پر اعتراف جرم کیلئے انتہائی گھٹیا اور انسانیت سے گرے ہوئے طریقے استعمال کئے گئے مگر اس سے بھی زیادہ مکروہ اور بھیانک حقیقت یہ ہے کہ ان ملزمان کے بے گناہ ثابت ہونے اور ان تمام مظالم کے باوجود بھی جب اعتراف جرم نہ کرواسکنے کے بعد بھی انہیں رہانہیں کیا گیا اور وہ دوران حراست ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔

اس رپورٹ کے منظرعام پر لانے کا مقصد بظاہر یہ ظاہر کروانا ہے کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں مگر ان غلطیوں کا اعتراف کرکے سبق بھی حاصل کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے اس رپورٹ کو ظاہر کرکے اپنے ان بیشمار جنگی جرائم اور بڑے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کی ہے جو انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ رپورٹ یہ ثابت کرنے کیلئے بھی کافی ہے کہ موجودہ جدید دور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر ہی چل رہاہے ۔

امریکہ اس دور کا وہ سانڈھ ہے جو جب چاہے جس کی چاہے فصل کو تہہ و بالا کردیتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنے مکروہ عزائم وارادوں کی تکمیل کیلئے اپنے ہی قوانین اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کنونشن کو بھی اپنے پاوٴں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہے جس کی پہلی شق ہی یہ بتاتی ہے کہ تمام انسانوں کو بلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب یکساں عزت اور حقو ق حاصل ہیں مگر اس خونی بھیڑئیے کی سفاکیت کا جوعالم ہے اس کیلئے مثال کافی ہے کہ جب اس کا کو ئی ریمنڈ ڈیوس دن دیہاڑے قرطبہ چوک پر دوپاکستانیوں کو خاک و خون میں نہلا دیتا ہے تو اس کو سزا دلوانے کی بجائے کی بازیابی کیلئے سرکاری سطح پر دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اسے چھڑوالیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب جب ایک پاکستانی لڑکی اپنے دفاع کیلئے کسی امریکی پر صرف بندوق تانتی ہے تو اس پر اس کو 86برس کی سزا سنادی جاتی ہے حالاں کہ یہ اس کا کوئی جرم بھی نہیں بلکہ اس نے اپنا دفاع کاوہ حق استعمال کیا تھاجو اسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق چارٹرکی شق نمبر 5دیتی ہے جس میں واضح درج ہے کہ کسی بھی شخص کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاسکتی اور اگر مداخلت کی جائے تو اس شخص کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ اس شیطان نے جنیوا کنونشن کو بھی اپنے پاوٴں تلے خوب رولا ہے جس کے آرٹیکل نمبر13کے مطابق کوئی ممبر ملک جنگی قیدیوں کی تصاویر نہ دکھانے کا پابند ہے مگر امریکہ نے ان قیدیوں کی تصاویر اور وڈیوز تک میڈیا پر چلادیں،آرٹیکل 18کے مطابق جنگی قیدیوں کو ہتھکڑیاں نہیں لگائی جاسکتیں ،آرٹیکل26اور28ان قیدیوں کیلئے کھانے کے کمرے اور کینٹین بناے کی ہدائت کرتا ہے ،آرٹیکل 34انہیں اپنے مذہب کے مطابق آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے،آرٹیکل 38انہیں جسمانی ورزشوں آرٹیکل71خطوط لکھنے اور72انہیں کتابیں وصول کرنے اور مطالعہ کی بھی اجازت دیتا ہے مگر امریکہ اپنے ان ٹارچر سیلوں اور ایکسرے کیمپوں میں قید ان انسانوں کو ان میں سے کوئی بھی سہولت نہیں دیتابلکہ ان کے ساتھ جو سلوک کیاجاتاہے اسے انسانیت کی بدترین تذلیل کہاجاسکتا ہے
جس کی ایک ہلکی سے جھلک ملاحظہ ہوکہ گوانتا ناموبے اور ابوغریب کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں نہ صرف یہ کہ شدید سردی میں ننگا اور بھوکا رکھا بلکہ ان کو نماز اور تلاوت کی اجازت بھی نہیں دی جاتی بلکہ جو ایک جدید ترین سزا دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ہاتھ اور پاوٴں باندھ کر ان کے منہ پر ٹیپ لگادی جاتی ہے ،ان کی داڑھی اور سرکے بال مونڈھ دئیے جاتے ہیں،ان کی آنکھوں پر سیاہ چشمے پہنادئیے جاتے ہیں ان کے کانوں پر آلے لگا کر انہیں سننے کی حس سے بیگانہ کردیا جاتا ہے اور ان کے ہاتھوں پر بھاری دستانے چڑھادئیے جاتے ہیں یہ تشدد کا بھیانک ترین طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان کے حواس خمسہ ختم ہو کررہ جاتے ہیں اب وہ نہ سن سکتے ہیں،دیکھ سکتے ہیں ،بول سکتے ہیں،سونگھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھوسکتے ہیں کئی ہفتے اس حالت میں رکھنے کے بعد انہیں2,3میٹر کے پنجروں میں ڈال دیا جاتا ہے جس میں وہ سو بھی نہیں سکتے انہیں اس میں اکڑوں ہو کر بیٹھنا پڑتا ہے ۔

یہ تفصیلات ٹونی بلیئر کے دور حکومت میں برطانیہ کی کوششوں سے رہاہونے والے ایک باشندے نے بتائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی نظروں کے سامنے قرآن پاک کی بارہا بے حرمتی کر کے ان کو شدید نفسیاتی اذیت سے بھی دوچار کیا اس کا مزید یہ کہنا تھا کہ انہیں اس وقت بہت خوشی ہوتی تھی جس دن انہیں جسمانی تشدد کیلئے باہر نکالا جاتا تھا اگرچہ یہ تشدد بھی بدترین ہوتا تھا مگر ہم یہ چاہتے تھے کہ ہمیں اسی طرح مارمار کر ختم کردیا جائے مگر اس نفسیاتی اذیت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے ہم ہر لمحہ موت کا ذائقہ محسوس کرتے تھے ۔

ہومن رائٹس کیلئے کام کرنے والی ایک تنظیم کے عہدیدار نے جب یہاں کا دورہ کیا تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ میں دس ہزار سال پہلے کے دور میں آگیا ہوں یہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا کا کوئی قانون اور ضابطہ لاگو نہیں ہوتا اور انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالت میں رکھ کر انسانیت کی توہین کی جارہی ہے ۔یہ ہے بدمعاش اور عالمی غنڈے امریکہ کی اصلیت کی ایک ہلکی سی جھلکی مگرامریکہ کے جنگی جرائم یہیں پر ختم نہیں ہوتے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انسانی حقوق کی ہونے والی ہر پامالی میں اسی امریکہ کا واضح ہاتھ رہاہے تو غلط نہیں ہوگا جو آج پوری دنیا میں امن و انسانیت کا واحد ٹھیکیدار ہونے کا دعوایدار بنا پھرتا ہے۔

آئندہ کسی کالم میں ان جرائم سے مزید پردہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :