بائیکاٹ کا بائیکاٹ…!

جمعہ 12 دسمبر 2014

Sareer Khalid

صریر خالد

جموں و کشمیر کی اسمبلی کے لئے جاری انتخابات کے پہلے مرحلے پر ہوئی زبردست ووٹنگ کے ذرئعہ جہاں کشمیریوں نے ”مسئلہ کشمیر“اور ”مسئلہ ہائے کشمیر“میں تمیز کئے جانے کی اپنی سوچ منوائی ہے وہیں علیٰحدگی پسند قیادت تذبذب کی شکار اور ایک نئے چلینج سے دوچار ہوگئی ہے۔ریکارڈ ووٹنگ کے ذرئعہ پہلے مرحلے پر لوگوں نے گویا علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور، کسی ریوڑ کی مانند اندھی تقلید کے لئے مشہور، کشمیریوں کے بارے میں اب یہ بات تقریباََ طے ہے کہ بقیہ چار مراحل میں پر بھی اُنہیں پولنگ مراکز کے باہر قطاروں میں دیکھا جائے گا۔

سڑک ،پانی،بجلی اور اِس طرح کی روایتی باتوں سے لیکر بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کا راستہ روکے جانے تک جو بھی وجہ ہو لیکن یہ اب ایک ریکارڈ بن چکا ہے کہ جموں و کشمیر میں ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 70فیصد کا نشانہ پار کر گیا ہے اور ووٹروں نے علیٰحدگی پسند قیادت کے سامنے” بائیکاٹ سے آگے “سوچنے کی مجبوری کھڑا کر دی ہے۔

(جاری ہے)


گو کہ کشمیری عوام کے بارے میں مبصرین پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ یہ ایک انتہائی Un Predictableقوم ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی اِس خصلتِ خصوصی میں شدت آتی جارہی ہے۔

ابھی چند ہی ماہ پہلے لوک سبھا کے انتخابات ہوئے تو پولنگ مراکز کے سامنے رائے دہندگان کی قطاریں لگنے کی بجائے ”آزادی“کے حق میں اور علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کی حمایت میں”بائیکاٹ بائیکاٹ،الیکشن بائیکاٹ “کی صدائیں بلند کرنے والے مظاہرین جمع ہوئے۔لوک سبھا کے انتخابات ابھی تازہ ہی کہلائے جا سکتے ہیں، اُنگلیوں پر گنے جانے کے قابل دن گذرنے کے بعد ہی آج کے انتخابات میں ماحول باالکل مختلف ہے۔


87/نشستوں والی اسمبلی کے لئے پانچ مرحلوں میں منعقد ہونے جارہے انتخابات کے پہلے مرحلے پر25نومبر کو وادیٴ چناب کے دو اور وادیٴ کشمیر کے دو اضلاع ،بانڈی پورہ و گاندربل،میں ووٹ ڈالے گئے۔علیٰحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ کی کال نہ بھی ہوتی ،شدت کی سردی کی وجہ سے ویسے بھی دوپہر تک پولنگ مراکز پر کسی گہما گہمی کی توقع کم ہی تھی مگر مشاہدین کو تب حیرت ہوئی کہ جب صبح تڑکے رائے دہندگان نے نہ صرف گھروں سے باہر آکر پولنگ مراکز کا رُخ کر لیا بلکہ برسوں بعد دیدنی جوش و خروش کا بھی مظاہرہ کیا۔

دلچسپ ہے کہ گاندربل اور بانڈی پورہ میں علیٰحدگی پسندوں کی ہی کال پر ہڑتال بھی تھی مگر اُنہی کی کال کے برعکس پولنگ مراکز کے سامنے پُر جوش رائے دہندگان کی قطاریں بھی۔گاندربل ضلع کے کنگن علاقہ میں جس کسی پولنگ بوتھ کا اِس نمائندے نے مشاہدہ کیا وہاں ووٹروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور شدت کی سردی کے باوجود بھی لوگ اپنی باری کے انتظار میں تھے۔

غلام قادر نامی ایک دیو قامت اور نوک دار مونچھوں والے ایک بزرگ نے،اُنسے پوچھنے پر بتایا،علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے روز مروز کے کام ہوں تو ویسے ہماری مدد نہیں کر پاتے ہیں جسکے لئے ہمیں بہر حال اسمبلی میں نمائندوں کی ضرورت پڑتی ہے۔غلام قادر نام کے یہ بزرگ کہتے ہیں”اب گیلانی صاحب کو ہی لیجئے وہ تقریباََ چار سال سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں اور ایک طرح سے بے بس کر دئے گئے ہیں جبکہ ہمیں مختلف مسائل کے لئے ممبرانِ اسمبلی وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے،اگر ہم ووٹ نہ بھی دیں تو بھی کسی نہ کسی شخص کو ہمارا نمائندہ بتاکر اسمبلی میں پہنچا ہی دیا جائے گا لہٰذا بہترہے کہ ہم ووٹ دیکر مقابلتاََ کسی اچھے اُمیدوار کا انتخاب کریں“۔

غلام قادر کے ساتھ ہماری گفتگو کے دوران متوجہ ہوئے دیگر ووٹر بھی بائیکاٹ کال کے باوجود وٹ دینے کے لئے کم و بیش اسی طرح کی وجوہات بتاتے رہے۔ریاض احمد نامی ایک نوجوان ووٹر نے کہا”دیکھئے ہمارا علاقہ سیاحت کے اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں سے لداخ اور سونہ مرگ کا راستہ گذرتا ہے لیکن آپ میرے ساتھ یہاں کی کسی بھی بستی کا دورہ کرنے آئیں آپ بنیادی سہولیات کا فقدان پائیں گے“۔

وہ کہتے ہیں”سڑکیں درست ہیں نہ پانی کی فراہمی،اسپتال ہیں اور نہ ہی وہ دیگر سہولیات کہ جن کے بغیر آج کے دور میں زندگی مشکل ہے،ایسے میں ہم نے سوچا کہ کسی اچھے اُمیدوار کو منتخب کریں اور اپنے حالات سدھارنے کی سبیل کریں“۔تاہم ریاض ”آزادی“کی تحریک کے حامی ہیں اور کہتے ہیں”آزادی کی تحریک کی مخالفت کا تو سوال ہی نہیں اُٹھتا ہے،بلکہ میں تو کہوں گا کہ خود وہ لوگ بھی آزادی کے ساتھ ہیں کہ جو انتکابات میں کھڑا ہوتے ہیں،آزادی اور انتخابات کو الگ الگ دیکھا جانا چاہیئے“۔


گاندربل کے پڑوسی ضلع بانڈی پورہ میں بھی رائے دہندگان میں گہما گہمی تھی ،کہیں ”آزادی“کے حق میں مظاہرے ہو رہے تھے اور نہ پولس کے ساتھ جھڑپیں جیسا کہ ماضی میں انتخابات کے دوران معمول قرار پایا تھا۔بلکہ گاندربل اور بانڈی پورہ میں کئی مقامات پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے حامیوں کے مابین ہلکی جھڑپیں ہوئیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹروں کو اپنی پارٹیوں کی جانب کرنے کے لئے کوشاں تھے۔

بانڈی پورہ کے مشہور قصبہ حاجن میں،جو سرکار نواز بندوق بردار مقتول کوکہ پرے کی دہشت ناک سرگرمیوں کا کئی سال تک گڈھ بنے رہنے کے بعد اب چند ایک سال سے علیٰحدگی پسند سرگرمیوں کے لئے جانا جاتا ہے،تقریباََ سبھی پولنگ مراکز انتہائی مصروف تھے۔یہاں کے ایک پولنگ مرکز کے اندر ایک سرکاری اہلکار نے بتایا”لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی میری اسی علاقے میں ڈیوٹی لگی تھی لیکن دن بھر ہم گپیں مارتے رہے جبکہ ابھی سر ہلانے کی بھی فرصت نہیں مل پا رہی ہے“۔

اُنکا نام نہ لئے جانے کی درخواست کے ساتھ مذکورہ نے کہا”آج تو بہت زبردست پولنگ ہوئی ہے ،سمجھ میں ہی نہیں آتا ہے کہ یہ اچانک کیا تبدیلی ہے“۔تاہم اِسی پولنگ مرکز میں ووٹ دینے کے بعد بشیر احمد نامی ایک شخص نے ایک دلچسپ وجہ بتاتے ہوئے کہا”دیکھئے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بی جے پی کی میلی نظریں کشمیر پر پڑی ہیں اور پارٹی نے منصوبہ بنایا تھا کہ بائیکاٹ کی صورت میں کچھ ووٹروں کو شیشے میں اُتار کر کامیابی پائے،ایسے میں ووٹ دینا لازمی ہو گیا تھا“۔

بشیر احمد نے بتایا”ہم جانتے ہیں کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر بہت تبصرے ہونگے اور کشمیریوں کے دل بدل جانے کے دعویٰ کئے جائیں گے لیکن ہمارا دل بدلا ہے اور نہ کوئی اور تبدیلی ہی رونما ہوئی ہے بلکہ ہم لوگ فقط بی جے پی کو روکنے کے لئے ووٹ دینے آئے ہیں“۔بشیر کے بغل میں کھڑا ایک اور نوجوان،جنہوں نے خود کو کشمیر یونیورسٹی کا فارغ بتایا،نے کہا”میں سمجھتا ہوں کہ بی جے پی کی شاطرانہ سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے خود حُریت کو ہی بائیکاٹ کے لئے کہنے سے اجتناب کرنا چاہیئے تھا لیکن جب وہ لوگ مصلحتوں سے باہر نہ آسکے تو لوگوں نے خود ہی سبیل سوچی“۔

مذکورہ نوجوان نے اپنا نام نہیں بتایا تاہم بڑی زیرکی کے ساتھ اُنہوں نے کہا”سڑکیں ،پانی اور یہ سب تو نہ پہلے غریب کو میسر تھا اور نہ ہی اِس جیسے اور کوئی انتخابات ہی اِس طرح کی سہولیات بہم کراسکتے ہیں لیکن بی جے پی کو کشمیر میں پیر جمانے سے روکنا انتہائی ضروری ہے“۔یاد رہے کہ لوک سبھا انتخابات میں جموں و کشمیر کی کُل چھ میں سے تین نشستوں پر پہلی بار قبضہ کرنے سے حوصلہ پاکر بی جے پی پہلی بار جموں و کشمیر کے انتخابات میں انتہائی سنجیدگی دکھاتے ہوئے 44نشستوں سے بھی زیادہ کے خواب کی تکمیل میں اپنی نیند حرام کئے ہوئے ہے۔

کیا وہ حُریت کانفرنس سے مایوس ہیں،یہ پوچھے جانے پر مذکورہ نوجوان نے کہا”میں ایک ہی سانس میں ہاں بھی کہنا چاہوں گا اور نا بھی،ہاں ا،سلئے کہ وہ لوگ خود کو وقت کے تقاضاوٴں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور قوم کے لئے کچھ حاصل کر پانے میں ناکام رہے ہیں ر نا اِسلئے کہ وہ آزادی کے ،زُبانی ہی سہی،علمبردار ہیں اور ہمیں آزادی سے جنون کی حد تک محبت ہے“۔

حاجن کے پڑوس میں سوناواری کے آس پاس کے دیہات میں بھی زبردست ووٹنگ ہو رہی تھی اور لوگ کہیں”بدلاوٴ“کہیں سڑک پانی اور بجلی اور کہیں بی جے پی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بہانے علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کو مسترد کر رہے تھے۔
سرکاری سطح پر ووٹنگ کے حوالے سے جاری کئے گئے اعدادوشمار میں زبردست اُچھال تو تھا ہی تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ شائد پہلی بار سرکار کی دعویداری کو جُھٹلانے کا کسی کو بہانہ میسر نہیں ہو پایا۔

ان اعدادوشمار کے مطابق اِکا دُکا مگر نا قابلِ ذکر واقعات کو چھوڑ کر رائے دہی کا عمل انتہائی پُر امن طریقے سے عمل میں آیا اور ضلع بانڈی پورہ کے حلقہ سوناواری میں سب سے زیادہ80.10/فیصداور گاندربل میں سب سے کم52.97 /فیصدکے ساتھ مجموعی طور71/فیصد ووٹ استعمال ہوئے۔چیف الیکٹورل افسر اُمنگ نرولہ نیجموں میں شام دیر گئے ایک پریس کانفرنس میں بتایاکہ پہلے مرحلہ کے تحت ووٹنگ پُرامن رہی اور70/فی صد ووٹروں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔

اُنہوں نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہاکہلداخ خطہ کے نوبرا میں 75.60/، لہہ میں 66/، کرگل میں 59.82/اورزنسکار میں 71.07/فی صدووٹ پڑے۔اُمنگ نرولہ نے کہا کہ پہاڑی ضلعڈوڈہ میں79.06/اوربھدرواہ میں 70.18/فی صد ووٹ پڑے جبکہ ڈوڈوہ کے پڑوسی ضلع رام بن میں ہوئی ووٹنگ کی تفصیلات بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہاں 68فی صد، بانہال میں 70فی صد ، کشتواڑ میں 68.80فی صداور اندروال میں 72.50فی صد ووٹ ڈالے گئے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ وادیٴ کشمیر میں حلقہ سوناواری میں سب سے زیادہ 80.10/ووٹنگ ہوئی ہے جبکہ گریز میں 77.15/ بانڈی پورہ میں 70/ کنگن میں 76.87/اور گاندر بل میں 52.97/فی صد، ووٹ پال ہوئے ہیں۔حالانکہ چیف الیکشن افسر نے کہا کہ چونکہ ابھی کئی علاقوں سے مکمل تفصیلات کا موصول ہونا باقی ہے لہٰذا مجموعی شرح بڑھ سکتی ہے تاہم رات دیر گئے بتایا گیا کہ مجموعی طور 71/فی صد ووٹ استعمال ہوئے ہیں جو کہ کشمیر کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔

اُمنگ نرولہ نیکہا کہ ووٹنگ کا پہلا مرحلہ کئی اعتبار سے کچھ مشکل تھا کہ اس میں بعض دوردراز کے علاقے بھی شامل تھے۔تاہم اُنہوں نے انتخابات کے اس مشکل مرحلے کے احسن انعقاد پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہر طرح کی تیاری کی ہوئی تھی۔اُنہوں نے کہاکہ پہلے مرحلہ کیلئے کل ووٹروں کی تعداد 10,61,275/لاکھ تھی جس میں 5لاکھ 58ہزار 178مرد اور 5لاکھ 3ہزار86خواتین تھیں اس کے علاوہ تیسری نسل کے بھی 11/کے ووٹر بھی درج تھے۔

15/اسمبلی حلقوں میں کل 1787/پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے جن میں 85/حساس اور 586/انتہائی حساس تھے۔ اُنہوں نے کہاکہ 97/فی صد رائے دہندگان کو فوٹو ووٹر سلپ تقسیم کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار ،وہ بھی جب اِن پر کسی نے شک بھی ظاہر نہیں کیا ہو،جموں و کشمیر کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔حالانکہ علیٰحدگی پسندوں نے بھاری ووٹنگ سے ”متاثر نہ ہونے“کے دعویٰ کرتے ہوئے انتخابی عمل میں لوگوں کی بھاری شرکت کو بے معنیٰ اور اختراع کردہ قرار دیاہے۔

بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی کہتے ہیں کہ بندوق کے سائے تلے ہونے والے انتخابات کا اُن کے لئے کوئی معنیٰ نہیں ہے اور وہ اس سے متاثر یا مرعوب ہونے والے نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں”جمہوریت کے دعویدار اپنے دعووٴں میں سچے ہوتے تو وہ ہمیں اور دیگر مزاحمتی قائدین کو بائیکاٹ مہم چلانے سے نہیں روکتے بلکہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتے پھر انتخابی عمل کا انجام دیکھنے کے لائق ہوتا“۔

وہ کہتے ہیں کہ انتخابی عمل سے عالمی سطح کا کشمیر تنازعہ کسی بھی صورت متاثر نہیں ہوتا ہے اور حُریت(ع)کے لیڈر مولوی عمر فاروق بھی اسی طرح کا ردِ عمل بیان کرتے ہوئے انتخابات کو بے معنیٰ قرار دیتے ہیں۔لیکن کیا سچ میں بائیکاٹ کال کی ناکامی اور انتخابات میں لوگوں کی بھاری شرکت کا کوئی مطلب نہیں ہے،میں نے کشمیر یونیورسٹی میں شعبہٴ سیاسیات کے ایک اسکالر سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا”یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ انتخابات سے مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ،جیسا کہ ،ہم نے تقسیم ہند کے بعد سے اب تک کشمیر میں ہوتے رہے انتخابات کے بعد دیکھا ہے لیکن علیٰحدگی پسندوں کے لئے بائیکاٹ کال کی ناکامی کافی معنیٰ رکھتی ہے“۔

وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں”لوگ ایک طرف علیٰحدگی پسند تحریک کے ساتھ لا تعلقی جتلانے پر آمادہ نہیں ہیں لیکن دوسری جانب وہ حُریت کو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کا درس بھی دیتے ہیں،مجھے لگتا ہے کہ لوگوں نے حُریت کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہرتالوں اور بائیکاٹ کی کال سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے“۔وہ مزید کہتے ہیں”یہ بات ٹھیک ہے کہ علیٰحدگی پسند قیادت جیلوں میں ہے اور بائیکاٹ مہم چلانے کی اُنہیں مہلت نہیں دی جا رہی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ قیادت نئے چلینجوں کا مقابلہ نہیں کر پاتی ہے،بابری مسجد کے مسمار کرنے والے جب مُسلم اکثریتی اس ریاست میں قدم جمانے کے لئے سرگرم ہوئے ہیں حُریت کے پاس لوگوں کو دینے کے لئے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے“۔

وہ کہتے ہیں کہ بائیکاٹ کال کے ناکام ہونے کے بعد اب عوام کو تحریک کے ساتھ جوڑے رکھنا علیٰحدگی پسندوں کے سامنے نیا چلینج ہے کہ اگر وہ ہڑتال اور بائیکاٹ کی گھسی پٹی سیاست کو تبدیل کرکے اپنی سرگرمیوں میں جِدت نہیں لاتے ہیں تو اُنکے لئے بہت مشکل ہو سکتی ہے۔
اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ زبردست ووٹنگ نے مرکزی سرکار کو بغلیں بجانے کی ایک وجہ بخش دی ہے لیکن جموں و کشمیر کے پولنگ مراکز کے سامنے قطاریں لگنے میں بین السطور” بہت کچھ پڑھنا“بھی بے سود ہو گا کہ 2008ئمیں61/فی صدسے لیکر آج کے71/فی صد تک جہاں ووٹنگ کی شرح میں دس فی صد بڑھوتری ہوئی ہے وہیں یہ بھی صاف ہے کہ ووٹروں کی سوجھ بوجھ میں بھی کافی اضافہ ہو رہا ہے۔

چناچہ ابھی چند ہی ماہ قبل منعقد ہوئے لوک سبھا کے انتخابات میں ووٹنگ کی شرح مایوس کُن رہی جس سے واضح ہوتا ہے کہ کشمیری ووٹر واقعی مسئلہ کشمیر اور روزمرہ کے مسائل کو الگ الگ زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھتے ہیں۔پھر یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ جو لوگ مفتی محمد سعید کو 2005ئمیں ووٹ دیکر وزیرِ اعلیٰ بنا چکے تھے اُنہوں نے ہی 2008ئمیں ایسا ہنگامہ کیا کہ ریاست میں گورنر راج کا نفاذ لازمی ہوگیا اور پھر جِن لوگوں نے 2008میں عمر عبداللہ کو ووٹ دیکر ”علیٰحدگی پسندوں کے دات کھٹے“کر دئے تھے اُنہوں نے ہی2010ئمیں کئی معصوم بچوں سمیت ڈیڑھ سو کے قریب لوگوں کی قربانی دیکر علیٰحدگی پسندی کی تحریک کو ایک نئی جِلا بخشی تھی۔


وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے 25نومبر کو ووٹنگ کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے فوراََ بعد اپنے ایک ٹویٹ میں زبردست خوشی کا اظہار کیا اور کشمیریوں کے” جمہوریت میں یقین“کی تعریفیں کرنا چاہیں جبکہ ٹیلی ویژن چینلوں نے ایک بار پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے ووٹروں نے علیٰحدگی پسندی کے خلاف ریفرنڈم کیا ہو۔ حالانکہ مذکورہ بالا مثالوں اور کشمیر کی علیٰحدگی پسند تحریک کے دوران ہوئے انتخابات کے بعد کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رواں انتخابات میں علیٰحدگی پسندوں سے لیکر مرکزی سرکار تک اور ٹیلی ویژن اینکروں سے لیکر سبھی مبصرین تک کے لئے یہ درس پنہاں ہے کہ کشمیری روزمرہ کے اپنے مسائل کے لئے ووٹ دیتے ہیں نہ کہ ”مسئلہ کشمیر“کے لئے…!!!(بشکریہ عالمی سہارا،دلی)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :