سقوط مشرقی پاکستان

جمعہ 12 دسمبر 2014

Sajjad Khan Jadoon

سجاد خان جدون

برصغیر کی منتشر تاریخ میں سقوط مشرقی پاکستان ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے یہ سانحہ حالات واقعات کے تناظر میں کئی دلخراش یادیں سمیٹے ہوئے ہے جنہیں یکسر فراموش کردینا ناممکن ہے ۔ اگر یہ معاملہ بنگالی قوم کے حقوق تک ہی محدود رہتا تو شایداتنی گھمبیر صورت حال اختیار نہ کرتالیکن یہ سلسلہ اچانک بغاوت میں تبدیل ہوگیاجو بعد ازاں ملک توڑنے کی سازش پر اختتام پذیر ہواجو کسی محب وطن کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔

یہ درست ہے کہ قوموں کی زندگی بسا اوقات ایسے دوراہے پر آ کھڑی ہوتی ہے جب درست فیصلے کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے نازک حالات میں مخلص قیادت ہی ملک وقوم کو بحرانوں سے نکالنے میں مدد فراہم کرتی ہے جو قائد اعظم کی صورت میں ہمیں میسر تھی لیکن افسوس کہ ان کے انتقال کے بعد ہم ہمیشہ کے لیے ایسی خصوصیت سے محروم ہوگئے اور نا اہل قیادت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہم پر مسلط ہوگیا جس کی پاداش میں پے درپے حوادث ہمارا مقدر ٹھہرے ، قیام پاکستان کے تقریباً چوبیس سال بعد ملک دولخت ہوگیالیکن ہم نے تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے باقی ماندہ وطن کو بھی جوکھوں میں ڈال رکھا ہے۔

(جاری ہے)

سقوط ڈھاکہ ایک ایسے سانپ کی مانند ہے جو 43سال قبل انتہائی سرعت سے گذر چکا ہے لیکن لکیر پیٹنے کا عمل آج تک جاری ہے اس دن کی مناسبت سے پاکستان ، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بحث ومباحثوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، اخبارات خصوصی مضامین سے مزین ضمیمے چھاپتے ہیں جن میں حقائق کے منافی بحث ہوتی ہے جس سے کوئی خاص مقصد حاصل ہونے کے بجائے تعصب کی آگ کو مزید ہوا ملتی ہے۔

جہاں تک مشرقی پاکستان کا تعلق ہے اسے ایک منظم سازش کے تحت بنگلہ اسٹیٹ بنانے کا منصوبہ برسوں پہلے تیار ہوچکا تھااسے عملی جامہ پہنانے کے لیے1969کے آخری دنوں میں بغاوت کا باقائدہ آغاز ہوا جس کا مقصد مشرقی حصے میں مغربی پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنا تھا۔ یہ پرتشدد واقعات مارچ 1971تک اس نہج پر پہنچ گئے کہ انہیں کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہوگیایہ وہ وقت تھا جب شیخ مجیب مشرقی پاکستان کی آزادی کا اعلان کر چکے تھے او ر 23مارچ جسے قرارداد پاکستان کے حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے اس دن ڈھاکہ شہر میں بنگلہ دیش کے پرچم لہرائے گئے جن میں مجیب الرحمٰن کا گھر بھی شامل تھااسی دن ریڈیو اور ٹی وی سے بنگالی شاعر ٹیگور کا نغمہ ’سنار بنگلہ ‘ قومی ترانہ کے طور پر نشرکیا گیا۔

لہٰذا 25 مارچ کو عوامی لیگ کے سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری اور شرپسند عناصرکی سرکوبی کے لیے فوجی حکمت عملی کا آغاز ہوا جسے ’آپریشن سرچ لائٹ ‘ کا نام دیا گیاجو کسی حد تک کامیابیوں ،ناکامیوں، سازشوں اور فنی خامیوں کے ملے جلے تاثر کے بعد16 دسمبر 1971کو اس وقت انجام پزیر ہواجب جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے اپنے بھارتی ہم منصب، کمانڈرلیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ایک تقریب میں ہتھیار ڈالے اور سقوط ڈھاکہ کی دستاویز پر دستخط کئے۔


1958میں ملک پر پہلا ایوبی مارشل لاء نازل ہوااور جب ایوب خان 11سالہ اقتدار کے بعد رخصت ہونے لگے تو ملک کی باگ ڈورفوج کے سربراہ جنرل آغامحمد یحییٰ خان کے حوالے کر گئے اس طرح قوم پر ایک اور مارشل لاء مسلط کردیا گیاجس سے جمہوریت اور ادارے مضبوط ہونے کے بجائے ملک میں انارکی پھیل گئی جسے طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش میں عوامی سطح پر لسانیت اور عدم تحفظ کااحساس بیدار ہواجس سے قوم پرستوں نے خوب فائدہ اٹھایاجس کی ایک مثال عوامی لیگ کے رہنما عطاء الرحمٰن کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے مشرقی پاکستان کی قانون سازاسمبلی میں کی ”مسلم لیگ کا حکمراں ٹولہ مشرقی بنگال کی ثقافت اس کی زبان اور اس کے لٹریچرکو تحقیر آمیز نگاہو سے دیکھتا ہے۔

برابر کا شہری تو درکنارہمیں محکوم قوم اور خود کو فاتح سمجھا جاتا ہے“ فوجی حکمرانوں کے خلاف ایسے زہر آلود بیانات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگالی قوم کابچہ بچہ بغیر سوچے سمجھے متحدہ پاکستان سے نفرت کرنے لگااورنفرتوں کی یہ خلیج اتنی وسیع ہوئی کہ ملک بل آخر دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ا ٓج پھر وہی تاریخ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں دوہرائی جارہی ہے ،اب تک کی تحقیقات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی حالیہ بدامنی کے پیچھے انڈیا کاسو فیصد ہاتھ ہے جو ایک بار پھر کچھ غداروں پر مشتمل ایک نئی مکتی باہنی ترتیب دینے میں مصروف ہے ۔ اس وقت حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ ساری قیادت ملک کے دفاع کی خاطر ایک صفحہ پر جمع ہو جائے تاکہ مزید کسی المیہ سے بچا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :