سیاسی تعصب

جمعہ 12 دسمبر 2014

Muhammad Jamil Ejaz

محمد جمیل اعجاز

1400برس ہوتے ہیں جب ایک روز کائنات کی سب سے قابل احترام ہستی صفہ کے چبوترے پر بیٹھے عاشقان علم و آگہی سے کچھ یوں مخاطب ہوئی۔
”وہ لوگ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائیں اور وہ بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی خاطر لڑیں اور وہ بھی ہم میں سے نہیں جن کی موت عصبیت پر آئے“۔ ایک صحابی نے دریافت کیا: یارسول اللہ! بتادیجیے عصبیت کیا ہے؟ تو فرمایا: کسی ظلم پر اپنی قوم کی مدد کرنا۔


نبی جی ﷺ کی تشریح اور پھر علماء و محدثین کی جانب سے اس تشریح کی مزید وضاحتوں کی روشنی میں جب ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو یقینا کئی تعصب امڈتے دکھائی دیں گے۔ پہلے اس ملک کو لسانی تعصب کی چھری سے کاٹا گیا۔ بنگالیوں کے ساتھ کیے گئے امتیازی سلوک سے اس سلسلے کا آغاز ہوا پھر یہ مہاجر سندھی پختون پنجابی میں دوریوں کی آگ بھڑکا گیا۔

(جاری ہے)

سب اپنی اپنی قوم کا پرچم بلند کرنے لگے اور سبز ہلالی جھنڈا نگاہوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا۔ یہ تعصب ہماری جڑوں میں آکر بیٹھ گیا ہے۔ہم اس کے لیے لڑنے مرنے پر تُل جاتے ہیں۔ اس پر جان دینے والوں کو دھڑلے سے شہید کہا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم فرقہ وارانہ تعصب کے مرض میں بھی مبتلا ہیں۔ یہ چیز پہلے سے نڈھال پاکستان کی بنیادیں مزیدکمزور کررہی ہے اور ہم میں اس کا احساس ہی مرچکا ہے۔

افسوس ہم مظلوم کو بھی اس کی قوم، اس کے فرقے کے پیمانے سے پرکھتے ہیں حالانکہ ہمارا اللہ مظلوم غیر مسلموں کی دہائیاں بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے تو ایک بار مسلمان کے مقابلے میں مظلوم یہودی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ بات کڑوی ہے مگر سچ ہے اور کہنی پڑتی ہے ہمیں صرف اپنے لوگوں سے ہی ہمدردی ہوتی ہے، ہم صرف اپنوں کے مارے جانے پر ہی ماتم کرتے ہیں، دوسروں کے بے گناہ مارے جائیں تو ہم غم کیا کرتے، خوشیاں مناتے ہیں، دشمن مرنے پر پھولے نہ سماتے ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ سجناں نے بھی ایک دن قبر کی تاریکیوں میں اتر جانا ہے۔


لسانی اور مسلکی کے بعد پاکستان کی گرتی دیواروں کو ایک دھکا اور دینے کے لیے اسلام آباد میں دھاندلی کے خلاف ہونے والے دھرنے کے طفیل سیاسی تعصب نے بھی اپنی جگہ بنالی ہے۔ پورا ملک تحریک انصاف کے حامیوں اور مخالفین میں بٹ چکا ہے۔ بہت تھوڑے ہیں جو اپنی جان دونوں کو صحیح یا دونوں کو غلط کہہ کر بچائے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کے محلوں سے لے کر عوام کے محلّوں تک حامی اور مخالفین چھائے ہوئے ہیں۔

یہ تعصب اتنی انتہاؤں تک جاپہنچا ہے لوگ اب دھونس، دھمکیوں سے آگے بڑھ کر مرنے مارنے کی باتیں کرتے ہیں۔ کئی مقامات پر ایسی لڑائیوں میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اپنی قوم اور اپنی پارٹی کا دفاع کرنا غلط نہیں ہوتا مگر یہ تب ہوتا ہے جب ان کا سچائی سے ٹکراؤ نہ ہو۔ایسا کیوں ہوتا ہے ہم غلط بات اپنی پارٹی میں دیکھیں تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہنے لگتے ہیں مخالفین بھی تو یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔

کیا اس سے غلط بات صحیح ہوجاتی ہے؟ ایک آدمی جب آپ کی پارٹی میں ہوتا ہے تو سب سے بہادر بھی وہی ہوتا ہے اور باغی بھی۔ مگر جب وہ آپ سے اختلاف کرتا ہے تو آن کی آن میں آپ اسے داغی بھی کہتے ہیں اور پاگل بھی۔ آپ صرف اس الیکشن کو جعلی سمجھتے ہیں جس میں آپ یا آپ کا حمایت یافتہ امیدوار نہ جیتے۔ آپ عوامی مسائل 6ماہ میں حل کرنے کا دعویٰ لے کر اقتدار میں آتے ہیں اور اس وقت تک عوام کو بھولے رہتے ہیں جب تک آپ کی کرسی لڑکھڑاتی نہیں۔

پھر آپ کرسی کی مضبوطی کو جمہوریت کی مضبوطی اور مسائل کے حل سے منسوب کرتے پھرتے ہیں۔ہم اپنے لیڈروں کو یہ کرتا دیکھتے ہیں مگر پھر بھی ان کا دم بھرتے ہیں اور لیڈر ہمارے اس تعصب کو محبت اور مقبولیت کا نام دے کر کیش کراتے ہیں۔
لسانی اور فرقہ وارانہ تعصب کے بعد اب سیاسی تعصب نے پاکستان کا رخ کرلیا اورہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے نقصان بہرحال ملک کا ہی ہورہا ہے۔حضور اکرم ﷺ کے فرمان کے ورق الٹ کر آگے بڑھ جانے کا خسارہ بہرحال اٹھانا ہی ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :