ماں تجھے سلام

بدھ 10 دسمبر 2014

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اگرکسی انسان کی جگہ کوئی دوسرا انسان مرکراس کی زندگی بچاسکتا تواللہ کی قسم میں ایک نہیں سوبار مرکراس پرموت کاسایہ تک بھی نہ لگنے دیتا۔مال ودولت کے ذریعے بھی اگرموت سے بچاؤ کاکوئی طریقہ ہوتاتومیں دنیا کی ساری مال ودولت اس کی زندگی پرقربان کردیتا یااگرموت سے فرار کاکوئی راستہ ہوتا تومشکل اورکٹھن ہونے کے باوجود بھی میں اس راستے پرچل کر اس کوموت سے بچااورچھپا لیتا۔

لیکن موت تواٹل حقیقت ہے جس سے نہ کوئی مسلمان انکارکرسکتا ہے اورنہ ہی کسی بھی طریقے سے جان چھڑا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام ،پیغمبران اسلام ،صحابہ کرام اوراللہ تعالیٰ کی برگزیدہ ہستیوں سمیت آج تک اس دنیا میں جتنے بھی انسان آئے وہ سب کوئی پہلے اورکوئی بعد میں ایک نہ ایک دن موت کے مہمان ضروربنے۔

(جاری ہے)

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اورتاقیامت جاری رہے گا ۔

میری ماں جودھوپ،بارش ،آندھی وطوفان میں ہمارے لئے سایہ اوردرد وتکلیف ،غم وپریشانی اورہرمشکل کی ساتھی تھیں وہ بھی اب اس دنیا میں نہیں رہیں ۔موت نے میری ماں کواپنامہمان بناکردنیا کی پرخطروادیوں میں ہمیں تن تنہا کردیا ہے ۔ماں کی جدائی سے ہماری حالت اب ایسی ہوگئی ہے جیسے کوئی انسان چاروں طرف سے شیراوربھیڑیوں کے درمیان پھنس کررہ جائے ۔

اب صرف ہم ہیں اوردنیا جہان کے مسائل،مصائب اورمشکلات۔ آج ہرطرف شیر اوربھیڑیئے منہ کھول کرکھاتی نظروں سے ہمیں گھورگھو رکردیکھ رہے ہیں مگرہم بے یارومددگاراوربے آسراء ان کے سامنے کھڑے ہیں۔اب دھوپ اوربارش میں ہماراکوئی سایہ ہے اورنہ ہی آندھی وطوفان سے بچنے کیلئے کوئی سہارا۔ایک ماں کے جانے سے ہم آج بہت اکیلے ہوگئے ہیں ۔اتنے اکیلے کہ اب ہم ایک ٹھوکرکھانے کے بھی قابل نہیں رہے ۔

اب ہم سے کون پوچھے گی کہ بیٹا کوئی مسئلہ،دردوتکلیف یاکوئی پریشانی تونہیں ۔اب کون میرے سرپرہاتھ پھیر کرپوچھے گی کہ عمرطبیعت اب کیسی ہے ۔۔؟بخارزیادہ تونہیں ۔۔؟اٹھ کے تھوڑا ساکھاناکھالوٹھیک ہوجاؤ گے یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں اوریادیں ہیں جومجھے جینے نہیں دے رہی ۔وہم وگمان اورزبان پرجب ماں کے ساتھ موت کالفظ آتا ہے تومیرے دل کی دھڑکنیں تیز اورجسم کانپنے لگتا ہے اورآنکھوں سے آنسوؤں کاایک سمندر ساجاری ہوجاتا ہے ۔

اپنے ناتواں کندھوں پرماں کی جدائی کابھاری غم دیکھ کردل چاہتا ہے کہ میں بھی کھاناپینا،اٹھنابیٹھنا اوراس بے وفادنیا میں چلنا پھرناکیاجیناہی چھوڑدوں لیکن پھر سوچتاہوں کہ ایک بہادر، ایماندار اورغیرت مندماں کابیٹا جب بزدل بن کرحالات کے سامنے ہتھیار ڈالے گاتودنیا کیاکہے گی ۔۔؟میری ماں توزندگی میں کسی ایک لمحے کیلئے بھی حالات سے کبھی گھبرائی نہیں ۔

بچپن میں اپنے والد کی جدائی کاغم برداشت کرنے کے ساتھ انہوں نے ہرقسم کے حالات کاڈٹ کرمقابلہ کیا ۔وہ کسی سکول،کالج اوریونیورسٹی سے پڑھی تونہیں تھیں لیکن اس کی صوم وصلوٰة کی پابندی اوردینی احکامات وتعلیمات سے مکمل آگاہی کی وجہ سے یوں محسوس ہوتاتھا کہ جیسے اس نے کسی بڑی یونیورسٹی سے کوئی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہو۔بٹگرام شہر سے کئی کلومیٹر دورپہاڑوں کے دامن میں آباد جوزجیسے پسماندہ علاقے میں جہاں آج بھی تعلیمی،طبی اوردیگر سہولیات کانام ونشان تک نہیں ہماری ایسی تربیت کی کہ جس پرآج بھی اپنوں کے ساتھ بیگانے بھی رشک کررہے ہیں ۔

اس کی تربیت کااثرہی توتھا کہ دائیں اوربائیں ہاتھ پہچاننے سے پہلے ہم حلال اورحرام اوراچھے وبرے میں تمیز کرنا سیکھ چکے تھے ۔اس کی اعلیٰ تریت نے ہمیں وقت سے بہت پہلے کسی کالج اوریونیورسٹی میں پڑھے بغیرتعلیم یافتہ بنادیاتھا۔قرآن شریف حفظ کرنے سمیت ہمیں دینی تعلیم دلانے کیلئے انہوں نے کیاکچھ نہیں کیا۔زبان کی وہ بہت نرم اورہاتھ کی بڑی سخی تھیں۔

اپنے دکھ درد کی تواس کوکوئی پرواہ نہ ہوتی پرکسی اورکادکھ درد یاکوئی پریشانی وہ ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہ کرسکتی تھیں ۔ہم بہن بھائیوں کی جب بھی آپس میں کوئی محفل لگتی وہ ہربارہمیں یہ نصیحت کرتیں کہ زندگی میں نہ کبھی چوری کرنا اورنہ ہی کبھی جھوٹ بولنا کیونکہ چوراورجھوٹے شخص کانہ صرف اس دنیا میں منہ کالا ہوتا ہے بلکہ آخرت بھی تباہ ہوتی ہے ۔

اس کی نصیحت کاکمال تھا کہ زندگی کے کسی موڑ پرچوری کیلئے نہ کبھی ہمارے ہاتھ اورپاؤں آگے بڑھے اورنہ ہی ہماری زبان نے جھوٹ بولنے کی کبھی ہمت کی ۔وہ ہمیشہ کہتی کہ کسی غریب اورمظلوم پرہاتھ اٹھانا کوئی بہادری نہیں ،جہاں کہیں بھی کسی غریب اورمظلوم پرظلم ہوتا وہ کئی کئی دن تک اس پرآنسو بہا کرغمزدہ رہتی ۔ہم سے اگر کبھی بھول کے بھی کسی کے ساتھ ظلم وزیادتی یاکوئی بے انصافی ہوتی توپتہ چلنے پروہ ہماراایساحشر کرتی کہ ہم پھر اس انجام کوبھول بھی نہ پاتے ۔

نماز میں سستی یانہ پڑھنے پروہ ایسی کلاس لیتیں کہ اللہ فوراً یادآجاتا ۔وہ کسی کی غیبت نہ کرتیں۔اگرکسی سے کوئی گلہ یاشکوہ ہوتاتوہ اس کے منہ پرکہہ دیتیں ۔ہم اگرگھر کے اندرکسی کی غیبت شروع کردیتے تووہ لڑپڑتیں کہ کسی اورکاگناہ تم اپنے سرکیوں لیتے ہو۔۔؟کیاتمہیں نہیں پتہ کہ کسی کی غیبت کرنا کتنا بڑاگناہ ہے۔ اس کے جنازے پرہم نے ایسے ایسے لوگوں کودیکھا جن کوہم جانتے بھی نہیں تھے ۔

بوڑھی اورفرشتہ صفت خواتین اوربزرگ ہاتھ اٹھا اٹھاکراس کی مغفرت کیلئے دعائیں مانگتے رہے۔ اس نے خدمت خلق کی واقعی ایک مثال قائم کی ۔جوبھی غریب ،لاچار،بے سہارا اورکوئی مسکین اس کے دروازے پرآیا وہ کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں گیا ۔اپنی انہی خوبیوں اورغریب ومظلوم لوگوں کی ہمہ وقت دعاؤں کی وجہ سے وہ اس شان سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں کہ جس پرسب رشک کررہے ہیں ۔

ماں کااس دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں لیکن افسوس کہ ہمیں اس کااحساس ماں کے جانے کے بعد ہوتا ہے۔ آج کوئی مجھ سے ماں کی قدروقیمت پوچھے ۔جس دن میری ماں اس دنیا سے روٹھ گئی ہے اس دن سے میری زندگی بے رونق اورمیراجسم بے جان ساہوگیا ہے ۔میں جب گھر میں داخل ہوتاہوں توماں کوپکارتا ہوں مگرمیری ماں مجھے کوئی جواب نہیں دے رہی ۔رات کوجب ماں کی یادآتی ہے تومیں فوراً بستر پربیٹھ کرشیرخواربچے کی طرح رونا شروع کردیتاہوں لیکن وہ ماں جو پاؤں کی آہٹ سن کر میرے پاس فوراً پہنچ جاتی تھیں اب میرے بلانے اورچیخ چیخ کرپکارنے سے بھی مجھے کہیں نہیں مل رہی ۔

مائیں واقعی عظیم سے عظیم ترہوتی ہیں ۔ان کی غیرموجودگی میں گھر قبرستان اورزندگی ویران ہوتی ہیں جولوگ ماؤں سے اچھا سلوک اوران کی قدر نہیں کرتے ان کوایک بات یادرکھنی چاہیے کہ دنیا کی ہرشے کسی نہ کسی دن کہیں نہ کہیں سے دوبارہ مل ہی جائے گی لیکن اگرماں ایک بارروٹھ گئی تووہ پھر کبھی بھی نہیں ملے گی ۔اللہ تعالیٰ میری ماں کی مغفرت کرکے اس کوجنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین
مائیں جن کی مرجاتی ہیں
آنکھیں ان کی ریت سے بھرجاتی ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :