امید و یقین کا لنگر تقسیم کرتا نوجوان بابا

پیر 8 دسمبر 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

قاسم علی شاہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے جو مخلوق خدا میں امید اور یقین کا لنگر تقسیم کر نے کی ڈیوٹی با احسن سر انجام دے رہے ہیں ۔ روحانیت ،نفسیات، سماجیات، بشریات، طبیعات اور ان جیسے کئی علوم پر دسترس رکھنے اور انہیں لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کر نے والے اس شخص پر اللہ کریم کا خاص فضل ہے بلکہ فضل و کرم ہے ۔ان جیسے لوگ اس دور میں جب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے قدرت کی طرف سے مخلوق کے لئے باعث رحمت بن کے آتے ہیں ۔

یہ اپنی اخلاص سے بھری کا وشوں کا سہرا اپنے سر پر سجانے کی بجائے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:”ہم سب اپنے والدین ،اپنے اساتذہ اور اپنے دوستوں کے مقروض ہیں ۔ہمیں یہ قرض دوسروں پر احسان کر کے اتارنے ہیں۔شاہ جی یہ قرض معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگوں کو امید کے چند الفاظ،کسی کو تسلی کے چند فقرے دیتے ہوئے چکاتے ہیں۔

(جاری ہے)


”شعبہ ء تدریس“ میں اپنا لو ہا منوانے اور علم کے پیاسوں کی پیاس مٹانے کے ساتھ ساتھ مایوسیوں اور نا امیدیوں کی بند اور تاریک گلیوں کے مسافروں کو جن کی آنکھیں تاریکی کی اتنی عادی ہو چکی تھیں کہ انہیں کچھ سجھائی ہی نہ دیتا تھا،ان لوگوں کو اپنی گفتگو اور تحریر کے ذریعے امید اور یقین کی روشن شاہراہ کا مسافر بنا یا،مُردہ دلوں کو زندگی عطا ء کی، بے سمت راہی کو کامیابی کی منزل کا مسافر بنایا ،مایوسی اور ڈپریشن کی دلدل میں پھنسے ہزاروں نوجوانوں کو ”کامیابی کا پیغام“ کی صورت میں نسخہ کیمیاء فراہم کیا جس کے مطالعے کے بعد لوگ جوق در جوق اُمید کے دامن کو تھامے کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔

”کامیابی کا پیغام“ کا ہر ہر لفظ انسان کے اندر اترتا چلا جاتا ہے اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی انسان کو کچھ کرنے کے جذبے اور اس پر استقامت کی طاقت دے جاتا ہے۔لوگوں کی محرومیاں طاقت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔لوگوں کی سوچوں میں انقلاب بر پا کر تے ہوئے انہیں اس بات پر سوچنے اور اس پر عمل کر نے پر اکساتی ہیں کہ کامیاب زندگی گذارنے کے لئے اگر آپ کو اپنے سوچنے کا انداز بد لنا پڑے تو یہ کام اتنا مہنگا نہیں ۔


شاہ صاحب کا کمال یہ ہے کہ یہ صاحبِ علم ہونے کیساتھ صاحبِ عمل بھی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ اور قلم کی نوک سے صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے والاہر ہر حرف انسان کے دل پر اثر کر تا ،اسے عمل پر ابھارتا اوراس کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے شاہراہ کامیابی کا مسافر بنا نے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑتا۔
قارئین کرام !دلوں پر گہرا اثر چھوڑنے والی جملوں پر مشتمل ”ذرا نم ہو تو“ کی صورت میں علم و دانش کے متوالوں کی پیاس بجھاتی یہ کتاب ان کے سالوں پر محیط طویل تجربے ، ہزاروں کتابوں کے مطالعے، اللہ والوں کی صحبتیں اورمختلف شعبہ ہائے کار کے لاکھوں لوگوں سے ملنے کے بعدحاصل ہونے والے نتائج ہیں جنہیں شا ہ صاحب نے چند لائنوں میں موتیوں کی طرح پرُو دیا ہے۔

بالکل ا سی طرح جب ساحل کی ریت پر ننگے پاؤں چلتے چلتے سمندر کی لہریں پاؤں کے تلووں کو گد گداتی ہیں جس کے نتیجے میں ریت کی گہرائیوں میں چھپے نایاب موتی پانی کی سطح پر ابھرنے لگتے ہیں یہ وہی خزانے ہیں جنہیں قاسم علی شاہ نے تلاش کیا اور اِن گوہر نایاب کو کتابی صورت میں پیش کیا ۔ اس میں سے ہر ایک حرف اپنے اندر سمندر سموئے ہوئے ہے جسے پڑھنے کے بعد مجھ جیساانسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ شاہ صاحب لوگوں کے چہرے پڑھنے کا فن ہی نہیں جانتے بلکہ یہ لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کر نے کے فن سے بھی پوری طرح آشنا ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ دل کی گہرائیوں سے نکلے، روحانیت اور دانش کی مٹھاس سے بڑے یہ الفاظ پڑھنے والوں کے دلوں پر گہرے اثرات چھوڑتے ہوئے بالخصوص مایوسی، نا امیدی کے دلدل میں پھنسے لوگوں کے لئے زندگی کی نئی جہتوں کوتلاش کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہونگے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :