تاریخ کیسے بنتی ہے!

پیر 8 دسمبر 2014

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 1957کی بات ہے ، بیسویں صدی کا مشہور موٴرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا،یہ تاریخ کے حوالے سے کوئی سیمینار تھا،تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نامور لکھاری اور بیوروکریٹ ڈائری لے کے آگے بڑھے اور آٹو گراف کی درخواست کی، ٹائن بی نے قلم پکڑا،دستخط کیئے،نظریں اٹھائیں اور بیوروکریٹ کی طرف دیکھ کر بولے”میں ہجری سن لکھنا چاہتا ہوں کیا تم مجھے بتاوٴگے کہ ہجری سن کون سا ہے“ بیوروکریٹ نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔

ٹائن بی نے عیسوی سن لکھا ،تھوڑا سا مسکرایا اور بیوروکریٹ کی طرف دیکھ کر کہا”تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور وشور سے تقریریں ہو رہی تھیں ،وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنہیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو ، تاریخ باتیں کر نے سے نہیں عمل سے بنتی ہے“۔

(جاری ہے)

بیوروکریٹ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
کسی بھی قوم ،تہذیب اور معاشرے کے لئے ارتقاء ایک لازمی امر ہے اور ہر قوم ،تہذیب اور معاشرے کو ارتقاء کی گاڑی کے سا تھ ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے۔

ارتقاء کے لئے جدید دور کے چیلنجز اور ضروریات کا سامنا ایک لازمی امر ہے ، جو قومیں ،جو تہذیبیں اور جو معاشرے ان چیلنجز کو قبول کر کے ان کا مناسب حل پیش کر دیں وہ آگے نکل جاتے ہیں بصورت دیگر ارتقاء کی گاڑی ان سے چھوٹ جاتی ہے اور ان کا سفر وہیں رک جاتا ہے ۔ دراصل ہم سے بنیادی غلطی یہیں ہو ئی ، انیسویں اور بیسویں صدی میں مسلم معاشرے ان چیلنجز کا جواب نہیں دے سکے جو انہیں درپیش تھے۔

اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں ایک طرف امریکہ اور یورپ میں نئے نئے صنعتی اور معاشی انقلابات رو نما ہو رہے تھے اور دوسری طرف مسلم معاشروں میں اقتدار کی جنگ عروج پر تھی، کہیں ظہیرالدین اور شیر شاہ سوری مدمقابل تھے تو کہیں عرب سردار ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے تھے۔اٹھارویں اور انیسویں صدی میں امریکہ اور یورپ میں جدید یونیورسٹیاں قائم ہو رہی تھیں اور برصغیر میں تاج محل، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں جیسی یادگاریں تعمیر ہو رہی تھیں ۔

روم میں 1766میں پہلی یونیورسٹی قائم ہو ئی تھی لیکن ہم آج اکیسویں صدی میں داخل ہو نے کے باوجود عالمی معیار کی ایک یونیورسٹی قائم نہیں کر سکے،۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں امریکی اور یورپی ریاستیں آئین سازی میں مصروف تھیں اور ہمارے ہاں اورنگزیب عالمگیر اپنے بھائیوں کو قتل کرنے اور اپنے با پ شاہجہان کو جیل بھیجنے میں مصروف تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک جرمنی میں ٹیکنالوجی کی 17اور دیگر 20یونیورسٹیاں قائم ہو چکی تھیں اور ہم اٹھارویں صدی میں محمد شاہ رنگیلا ، میر جعفر اور میر صادق کی پرورش کر رہے تھے۔

یہیں ہم سے غلطی ہو ئی اور ہم ارتقاء کی گاڑی پر سورنہ ہو سکے۔ قوموں اور تہذیبوں کی بقاء ”چیلنج اور اس کا جواب“دینے کی صلاحیت پر منحصر ہے ، اٹھارویں صدی میں جب جنگ پلاسی ہوئی تو انگریز جدید ہتھیاروں سے لڑ رہا تھا اور سراج الدولہ کی فوج قدیم ہتھیاروں سے لڑ رہی تھی۔ ٹیپو سلطان کے ساتھ بھی یہی ہوا ،1799میں ٹیپو سلطان کی فوجی اور عسکری قوت کا دار ومدار تیر اور تلوار تھے اور انگریزی فوج جدید ہتھیاروں اور بندوقوں سے لیس تھی۔

یہ ہمارے حکمرانوں ، دانشوروں، تخلیق کاروں اور سیاستدانوں کی کمزوری،نالائقی اور سنگین غلطی تھی کہ وہ اپنے دور کے چیلنجز کو سمجھ کر ان کا مناسب حل پیش نہیں کر سکے ۔ آپ بحری سفر کو لے لیں ،اٹھارویں اور انیسویں صدی میں یورپی جہاز کھلے سمندروں میں پھریرے لہراتے پھرتے تھے لیکن جب مغل حکمرانوں کو اس خطرے کا احساس دلایا گیا تو انہوں نے اسے درخور اعتناء ہی نہ جانا۔


چیلنج کو سمجھنا اور اس کا جواب دینا کسی بھی تہذیب اور معاشرے کے مفکروں، تخلیق کاروں، دانشوروں،اساتذہ،حکمرانوں اور سائنسدانوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اور کسی معاشرے ،تہذیب کے پیچھے رہ جانے کے بنیادی قصور وار بھی یہی لوگ ہوتے ہیں۔اب مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ ہماری ہاں پچھلی دو صدی سے وہ ماحول دستیاب نہیں ہو سکا جس میں ایک مفکر اور تخلیق کا ر جنم لیتا ہے ۔

مفکر ،فلسفی، د انشور اور تخلیق کار ایک خاص ماحول میں جنم لیتا ہے لیکن پچھلی دو صدیوں سے ہم جس طرح کا ماحول تخلیق کر رہے ہیں اس میں صرف میر جعفر ، میر صادق اور شکیل آفریدی ہی جنم لیتے ہیں ۔آپ بیسویں صدی کے نامور مفکروں اور تخلیق کاروں کی ایک فہرست بنائیں اس میں عالم اسلام کی نمائندگی کے لئے آپ کو صرف ایک علامہ اقبال کا نام دکھائی دے گا باقی سب نام غیر مسلموں کے حصے میں آئیں گے۔

آپ پچھلی دو صدیوں میں ہونے والی ایجادات سے اندازہ لگا لیں ،ہمارے مفکر ، موجد،تخلیق کار ، دانشور اور سائنسدان دنیا کو ایک سوئی بنا کر نہیں دے سکے تو پھر ہم کس منہ سے مغربی تہذیب کی برائیاں بیان کر تے ہیں ۔ بجلی ،بلب، ٹیلی فون ،موبائل، جہاز،بکتر بند گاڑی اور ریلوے ٹریک سے لے کر ہیلی کاپٹر، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ،ٹچ سسٹم ،بیٹری،بینکنگ سسٹم اور انٹر نیٹ سسٹم تک سب مغربی موجدین ،مفکروں اور تخلیق کاروں کی مرہون منت ہے تو پھر ان لوگوں کو حق ہے کہ وہ ہمیں اور دنیا کو لیڈ کریں ۔

حقیقت میں یہ سب موجد، مفکر اور تخلیق کار انسانیت کے محسن ہیں اور ان کا احترام لازم ہے ۔یہ سب ایجادات اور اختراعات جدید دور کے چیلنجز ہی تھے جنہیں ان مغربی موجدوں اور تخلیق کاروں نے قبول کی اور اس کا جواب دے کے وہ آگے نکل گئے اور ہم ان چیلنجز کا سامنا نہیں کر پائے اور ارتقاء کی گاڑی ہمیں چھوڑ کے آگے نکل گئی اور ہم اس پر سوار نہ ہو سکے۔


اب اگر ہم اپنی موجودہ صورتحال اور اکیسویں صدی کا تجزیہ کریں تو حالات کچھ یوں ہیں کہ ہم آج بھی وہ فضا اور وہ ماحول پیدا نہیں کر پائے جس میں ایک تخلیق کا ر جنم لیتا ہے،جس میں ایک قوم یا تہذیب اپنی شناخت کرواتی اور دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔آج ساٹھ اسلامی ممالک میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں مستقل امن ہو ،ہر طرف سیاسی عدم استحکام، کشتیء جمہوریت کا نت نئے طوفانوں سے ٹکراوٴ،آمریتوں کی یلغار، فرقہ وارانہ کشمکش اور عسکری گروپوں کی نامناسب کاروائیاں یہ سب ایسے حالات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی ممالک کا سارا ٹیلنٹ اور ذہین ترین افراد اامریکہ اور یورپ جاکر آباد ہو رہے ہیں۔

آپ پاکستان ہی کو لے لیں ، پاکستان کا سارا ٹیلنٹ ،سارے ذہین ترین افراد،ڈاکٹرز،انجینئرز اور سائنسدان امریکہ ،یورپ اور عرب ریاستوں میں جاب کر رہے ہیں ۔ آپ عمران خان کو دیکھ لیں عمران خان جن دو سو بندوں کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کی بات کرتا ہے ان میں سے اکثر باہر بیٹھے ہیں ۔یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم منظر عام پر نہیں لاتے یا ہم انہیں قبول نہیں کرنا چاہتے۔ باقی اگلی نشست میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :