اندھا کون ؟

پیر 8 دسمبر 2014

Qasim Ali

قاسم علی

3دسمبر کو معذورافراد کے عالمی دن کے موقع پر ظاہری بصارت سے محروم افراد پر عقل اور دل ودماغ کے اندھوں نے لاٹھی چارج کیا ، انہیں سڑکوں پر گھسیٹا اور انہیں گرفتارکیاتو یہ اندوہناک منظر دیکھ کر بہت سی آنکھیں نم ہوئیں بہت سی سیاسی شخصیات نے اس واقعے کی مذمت کرکے معذورافراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کر کے ''احسان عظیم ''کیااور تو اور مریم نوازشریف صاحبہ نے تو یہاں تک فرمادیا کہ کاش آج اگر وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ملک میں ہوتے تو اس ظلم کرنے والوں کو ضرور سزائیں دیتے۔

ان آنکھوں سے محروم معذورافراد کا پہلا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی حقوق مانگ بیٹھے تھے اور دوسرا جرم یہ تھا کہ وہ صدرِ مملکت جناب ممنون حسین کے یہاں سے کچھ دیر بعد گزرنے والے کارواں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے لہٰذا حسب معمول ہمارے قانو ن کے جانباز رکھوالوں نے ''وسیع تر ملکی مفاد''کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ڈیوٹی کو پوارا کرنے کچھ کسر اٹھا نہیں رکھی اور ان اندھوں کو اندھادھند لاٹھی چارج ،دھکوں اور تھپڑوں سے وہی سبق سکھایا جو اس کا خاصہ ہے علاوہ ازیں اپنی کارکردگی کو مزید چار چاند لگانے کیلئے ان میں سے پانچ اندھے'' شرپسندوں ''کو گرفتار بھی کرلیاگیا ۔

(جاری ہے)

بلائینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عبالرزاق بھی ان احتجاج کرنے والوں میں شامل تھے عبدالرزاق ہمارے وہ قابل فخر سپوت ہیں جن کی قیادت میں دو مرتبہ قومی بلائینڈٹیم ورلڈ چیمپیئن کے اعزاز پر سرفراز رہ چکی ہے۔معذورافراد کے خلاف ہونے والا یہ ظلم میڈیا پر آنے کے بعد اگرچہ ہر طرف سے ان کیلئے ہمدردی کا اظہار اور ان کیلئے قانون سازی کی باتیں ہورہی ہیں شائدیہ بھی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ جب تک کو ئی اپنے حق کیلئے سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج ریکارڈ نہ کروائے اس وقت تک اس طبقے کی شنوائی نہیں ہوتی اور بعض اوقات تو اس کے بعد بھی نہیں ہوتی ۔

لاہور میں پیش آنیوالے اس انسانیت سوز واقعے کی تمام تر ذمہ داری صرف پولیس پر ڈالی جارہی ہے جو کہ غلط اور اس انتہائی گھمیر ایشو پر مٹی ڈالنے کے مترادف ہے جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کی ذمہ دار تنہا پولیس نہیں کہ جس طرح ہر حکمران نے پولیس کو اپنی ذاتی جاگیر بنارکھا ہے اس کے اس کا تو مزاج ہی ایسا بن چکا ہے کہ وہ صرف وی آئی پیز کی خدمت و حفاظت کو ہی اپنی ڈیوٹی سمجھنے لگی ہے عوام جائے بھاڑ میں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس سانحے کی ذمہ داری مکمل طور پر67سالوں سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان اس ایلیٹ کلاس پر عائد ہوتی ہے جس نے عوام الناس کو بھیڑ بکریوں اور معذورافراد کو کیڑے مکوڑوں جتنی حیثیت بھی نہیں دی تو ان کے تحفظ،کفالت،ان کو برسر روزگار کرنے اور معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کیلئے قانون سازی نہیں کی ۔معذورافراد کو جس بری طرح نظرانداز کیاجاتا رہاہے اس کا ایک ہلکی سی جھلکی آپ سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان سے لگاسکتے ہیں جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ معذورافراد کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ قانون سازی کا نہ ہونا ہے ۔

کس قدر افسوس اور شرم کامقام ہے کہ یہ لوگ اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں اور قومی اسمبلی میں پہنچنے کیلئے ضروری قراردی جانے والی بی اے کی ڈگری کی شرط کے خاتمے جیسی تبدیلیاں توراتوں رات آئین میں ترمییم کرکے کرلیتے ہیں جبکہ معذورافراد ایک عرصے سے آسان شرائط پر بلاسود قرضوں کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں تاکہ وہ اس سے کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے خود اپنے پاوٴں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرسکیں مگر ایسا نہیں کیاجاتا البتہ یہ لوگ کروڑوں اوربوں کے قرضے لے کرمعاف بھی کروا لیتے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ پانچ سال تک عوام کے خون پسینے کی کمائی پر پلنے والے اور عیش و عشرت میں مغل شہزادوں کو بھی پیچھے چھوڑ دینے والے جب اسمبلی سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو بھی ان کا دل نہیں بھرتا اور یہ جاتے ہوئے اپنے لئے تمام عمر کیلئے باورچی سے لے کر پی اے تک اور ایک ڈسپرین سے کر بیرونی دوروں تک کے اخراجات اور ہمیشہ کے وی آئی پی پروٹوکول کابوجھ بھی قومی خزانے پر ڈال جاتے ہیں ۔

مگر جب معذورافراد اسی قومی خزانے سے صحت،تعلیم اور سفر کی مفت سہولیات مانگتے ہیں،زندگی کا بوجھ اٹھانے کیلئے روزگار مانگتے ہیں ،باوقار زندگی گزارنے اور احساس کمتری سے بچاوٴ کیلئے اپنی عزت نفس کا تحفظ مانگتے ہیں اور حکومت کو انتہائی حساس معذوروں کو وظائف دینے کی ذمہ داری یاددلاتے ہیں تو انہیں دھکے دئیے جاتے ہیں ،انہیں مارا جاتا ہے،گرفتارکیاجاتا ہے اور سڑکوں پر ذلیل ورسوا کیاجاتا ہے ۔

اور جب اس ظلم عظیم کے بارے میں حکومت سے استفسار کیاجاتا ہے تو زعیم قادری کہتے ہیں معذوروں پر لاٹھی جارج نہیں کیا گیا صرف دھکے دئیے گئے ہیں ایسا ہی ایک بیان گزشتہ دنوں شرجیل میمن کی جانب سے بھی آیا تھا کہ تھر میں دو تین بچے مرجاتے ہیں تو میڈیا اس پر شور کیوں مچایا ہے حالاں کہ پورے پاکستان میں روزانہ 600بچے مرتے ہیں کیا اس ڈھٹائی کے حامل عقل کے اندھے اوربصیرت و ضمیرکے محروم لوگ معذوروں کیلئے قانون سازی کریں گے ؟بخدا جب یہ منظر میرے سامنے تھا تو میری نظر 180سال پیچھے جاکر ٹک گئی جب برطانیہ میں معذوروں کو یا تو ہمیشہ کیلئے پاگل خانوں کی زینت بنادیا جاتا تھا اور یا پھر انتہائی حساس اور ذہنی معذوروں کو اس دھرتی پر بوجھ اور فضول سمجھ کر اگلے جہان پہنچادیاجاتا تھا اور ایسا باقاعدہ قانون کے تحت ہوتا تھا اور poor amendment act 1834اور mental deficiency act 1913ایسے تمام غیرانسانی اور مکروہ اقدامات کومکمل تحفظ فراہم کرتا تھا ۔

آخر میں ہم یہی عرض کریں گے کہ یاتو حکومت ان ڈیڑھ کروڑ زندہ جیتے جاتے انسانوں کو اسلامی تعلیمات اوراقوام متحدہ کے معذوری کنونشن UPCRDکے مطابق پوری سہولیات اور زندہ رہنے کا حق دے ورنہ ان کے خلاف بھی کوئی گرینڈآپریشن کرکے ایک ہی بار ان کو ختم کردے اس طرح وہ اپنوں ،پرائیوں،معاشرے اور حکومت پر بوجھ بننے اور ان کے ہاتھوں ایک دن میں کئی بار مرنے کی بجائے ایک ہی بار ان تمام تکلیفوں سے مکتی پاجائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :