پاکستان میں ٹی وی چینلوں کی بھرمار

ہفتہ 6 دسمبر 2014

A H Shahbaz

اے ایچ شہباز

سائنسی ترقی کے اس دور میں الیکٹرانک میڈیا نے پاکستان میں مختصر مدت میں جس قدر ترقی کی ہے کسی اور شعبہ نے نہیں کی اگر یہ کہا جائے کہ الیکٹرانک میڈیا کی mushroom growthہوئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ برساتی مینڈکوں کی بھر مار ہو گئی ہے مگر یہ خصوصی نوعیت کی جنس ہے۔الیکٹرانک میڈیا نے لاکھوں لوگوں کے لئے روزگار کے دروازے کھول دئے ہیں۔

بڑی تعداد میں نیوز ریڈرز اور اینکر پرسن منظر عام پر آگئے ہیں۔فنی اور انتظامی شعبوں میں بھی ہزاروں افراد کو روزگار میسر آیا ہے۔ ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں سینکڑوں کی تعداد میں نمائندے بھی ہیں۔ اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ہزاروں پاکستانی گھرانوں کی خوشحالی کا ذریعہ بن گیا ہے۔

(جاری ہے)


تاہم الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کے بعض منفی پہلو بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مختلف شہروں اور قصبوں میں رہنے والے اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ جب کبھی ان کے شہر اور قصبے کے بارے میں کوئی خبر ہوتی ہے تونام صحیح نہیں پڑھا جاتا۔ جس کے ذمہ دار نیوز ریڈر ہیں جن کو اپنے ملک کے قصبوں اور شہروں کے نام بھی معلوم نہیں یہ ان کی کم علمی ہو سکتی ہے یا خبریں ترجمہ کرنے والوں کی بے خبری یہ پہلو توجہ طلب ہے۔مختلف شہروں اور قصبوں میں کام کرنے والے ٹی وی کے نامہ نگار بھی کچھ ایسے ہی ہیں اکثر تو ایسے ہیں کہ اپنے علاقے کے متعلق خبر پڑھتے یا بولتے ہوئے ایسا تاثر دیتے ہیں کہ وہ کسی بڑے مجمع سے مخاطب ہیں۔

ان کی زور دارآواز سماعت پر گراں گزرتی ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسن تو اپنی مثال آپ ہیں۔ راقم پچاس سال سے زیادہ عرصے تک پاکستانی ،بین القوامی پرنٹ میڈیا اورنیوز ایجنسیوں سے منسلک رہا ہے اور بیشتر اینکر پرسن کا حدود اربعہ جانتا ہے جو لفافہ جرنلزم کی پیداوار ہیں اور آج کل ان کی پیداگیری کا ایک اور ذریعہ بلیک میلنگ ہے۔ جو اخبار نویس اخبار سے ملنے والی اپنی تنخواہ سے سائیکل تک نہیں خرید سکتے تھے وہ لفافہ جرنلزم، بلیک میلنگ اور اسی طرح کی کی دوسری غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہو گئے اور پھر دولت کی دیوی ان پر مہربان ہو گئی ان کا رہن سہن یکسر تبدیل ہو گیاوہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے پھرنے لگے، جائیدادیں خریدنے لگے اس طرح وہ ورکنگ جرنلسٹوں سے جرنلسٹ اشرافیہ بن گئے کراچی،لاہور، اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں میں بڑے بنگلوں ، کوٹھیوں اور فارم ہاؤسوں میں رہنے لگے۔

جرنلسٹ اشرافیہ کے بعض ممبروں کی ملکیت کوٹھیاں اور بنگلے بیس سے تیس لاکھ روپے ماہوا کرائے پر چڑھے ہوئے ہیں۔ چند ایک نے اپنے فارم ہاوس پر منی چڑیاگھر بنا رکھے ہیں جن میں جنگلی جانور اور پرندے پال رکھے ہیں جو ان کے ذہنی رجحان کے غماز ہیں۔
لفافہ جرنلزم کی بھی ایک تاریخ ہے 1960-1950 کے عشروں کے دوران چند بڑے اورچھوٹے اخبارات کی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی اخبارات کے عملے کو کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی تھی۔

اس زمانے کے کچھ سیاستدانوں نے اپنی سیاسی اغراض کے تحت صحافیوں کی مالی معاونت کا فیصلہ کیا یہ مالی معاونت نقد رقم کی صورت میں لفافوں میں رکھ کر دی جاتی تھی۔ یہ لفافہ جرنلزم کی ابتدا تھی جو اب تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے تاہم اس کا آغاز کرنے والے سیاستدان اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں مجھے بھی ایک بڑے مرحوم سیاستدان نے اس کی پیشکش کی تھی کہ میں جس اخبار میں کام کرتا ہوں اس میں اس سیاستدان کی خبریں نمایاں جگہ شائع کیا کروں مگر میں نے صاف انکار کر دیا۔

اس وقت مجھے کیا معلوم تھا کہ چند سال کے بعد ایک اور نامور سیاستدان مجھ کو لفافے تقسیم کرنے کا ذریعہ بنائے گا جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مجھے ایک بھاری رقم کے ساتھ ناموں کی ایک فہرست دے جاتی تھی اور کہا جاتاتھا کہ یہ رقم ان میں تقسیم کر دوں۔ اس زمانے کے بعض لفافہ جرنلسٹ جن میں سے اکثر آج بھی سرگرم ہیں مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا ان کے نام کا کوئی لفافہ ہے؟ لفافہ جرنلزم کی ابتدا سے اب تک یہ سلسلہ جارے و ساری ہے۔

بعض اخبار نویسوں نے اس کو ایک بونس یا زائد آمدنی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور بعض لفافہ اپنا حق سمجھ کر لیتے ہیں کیونکہ وہ لفافہ دینے والے کے مقاصد سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں۔
اوپر جس دور کا ذکر کیا گیا اس زمانے کے اخبار نویس مختلف ٹی وی چینلوں پر اینکر پرسن ہیں ان کے علاوہ اور بھی اینکر پرسن ہیں مگر ان میں سے اکثر اخبار نویس نہیں رہے ان میں پڑھے لکھے بھی شامل ہیں اور ایسے بھی ہیں جو خود ٹی وی چینلوں کے مالک ہیں یا ان مالکوں کے رشتہ دار اور ان کے منظور نظر لوگ ہیں جن کی تعلیم واجبی سی ہے۔

یہ لوگ ایسے ٹاک شو پیش کرتے ہیں جن کے موضوع سے ان کا کبھی واستہ نیں رہا ہوتا مگر پھر بھی یہ خود کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ زیر بحث موضوع کے ایکسپرٹ ہیں خود کو موڈریٹر کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اپنے آپ کو اتھارٹی ثاببت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا طرز تکلم تحکمانہ ہوتا ہے مگر جب ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو اونچی آواز میں بات کرتے ہیں دوسرے الفاظ میں shout کرتے ہیں۔

ٹاک شوز کے شرکا چونکہ دہاڑی دار ہوتے ہیں اس لئے خاموشی سے سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں تاکہ معاوضہ مل سکے۔ یہ شرکا عام طور پر پڑھے لکھے بے روزگار ہوتے ہیں جن کو اینکر پرسن اپنی مرضی سے بلاتا ہے یہ ان پڑھے لکھے نوجوانوں کا استحصال ہے۔
چند ایک کھڑپینچ قسم کے اینکر پرسن معمول سے ہٹ کر خاص موضوعات پر شو پیش کرتے ہیں جو کرپشن اور مختلف قسم کے سکینڈلوں پرہوتے ہیں جن میں وہ اپنی خود ساختہ تحقیقاتی رپورٹیں پیش کرتے ہیں اور عویٰ کرتے ہیں کہ یہ رپورٹیں ان کی ہفتوں اور مہینوں کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔

اپنے پروگرام کے بارے میں ناظرین کی رائے معلوم کرنے کے لئے ٹی وی سکرین پر چند ایک ٹیلیفون نمبر دئے جاتے ہیں جو عام ناظرین کو بار بار کوشش کے نہیں ملتے مگر وہ حیران ہوتے ہیں کہ جن لوگوں کی کال ٹیلی کاسٹ کی جا رہی ہیں وہ کون ہیں؟ اس قسم کی خود ساختہ رپورٹوں کو سراہنے والے کرپشن اور سکینڈلوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کو گرفت میں لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

در اصل اس قسم کی کالیں ٹیلی کاسٹ کر نے کا مقصد اینکر پرسن کی بلیک میلنگ کی پوزیشن کو تقویت دینا ہوتا ہے جبکہ وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ سکینڈل یا کرپشن کے بارے میں مزید دستاویزات اگلے ہفتے پیش کی جائیں گی۔یہاں ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ کرپشن اور سکینڈل کے متعلق ٹیلی کاسٹ کی جانے والی خود ساختہ تحقیقاتی رپورٹوں کا تعلق زیادہ تر انتظامیہ کے مختلف شعبوں، محکموں، سرکاری اور نیم سرداری اداروں اور بعض اوقات عدلیہ کے جج صاحبان سے تعلق رکھتی ہیں مگر نجی شعبے میں صنعت و تجار ت کے بارے میں شا ذہی کوئی رپورٹ ٹیلی کاسٹ ہوئی ہو، شائد یہ شعبے فرشتے چلا رہے ہیں مگر ایسا بالکل نہیں ہے، یہ شعبے در اصل ٹی وی چینلوں کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہیں اس لئے ان شعبوں کے متعلق سکینڈل نظر انداز کر دینا ان کے اپنے مفاد میں ہے لہذا مک مکا کر لیا جاتا ہے اور اگر مک مکا نہ ہو سکے تو پھر رپورٹ ٹیلی کاسٹ کر دی جاتی ہے۔


ٹی وی چینلوں پر سیاسی تجزیئے اور جائزے پیش کرنے والے اینکر پرسن خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے پروگراموں کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے ان کی کچھ غیر پیشہ ورانہ سر گرمیوں کا ذکر ضروری ہے۔ آپ ایسے حضرات سے کس قسم کے تبصرے، جائزے اور تجزئے کی توقع رکھتے ہیں جو سیاستدانوں کی فراہم کردہ بڑی بڑی گاڑیوں میں اپنی فیملی کے ہمراہ اندرون ملک سیرسپاٹے کرتے ہیں اور بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو ہوائی جہازوں میں بیرون ملک جاتے اور فایئو سٹار ہوٹلو ں میں قیام کرتے ہیں۔

ایسے اینکر پرسن کی ایک جنس اور بھی ہے جن کے گھروں میں ہر ماہ گرو سری کا سامان اور دودھ دہی با قاعدگی سے فراہم کیا جاتا ہے ۔کیا ان سے کسی غیر جانبدارانہ جائزے، تجزئیے اور تبصرے کی امید کی جا سکتی ہے؟اس میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے دوسرے بااثر لوگ ، تاجراور صنعتکار بھی شامل ہیں۔
1970 اور اس سے پہلے چند سیاسی جماعتیں اپنے اخبارات نکالا کرتی تھیں ان میں خاکسار تحریک،مجلس احرارجما عت اسلامی ،پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی شامل تھیں۔

ان اخباروں کے نام وقت لاہور، آزاد ؛اہور، مساوات ا ؛اہور، شہباز پشاور اور جسارت کراچی تھے۔ ان کا بنیادی مقصد پارٹی پروگرام اور پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرنا تھا اس زمانے میں چند لاکھ روپے کے سرمائے سے اخبارات لکالے جاسکتے تھے مگر کاروباری نقطہ نظر سے یہ اخباات فائدہ مند ثابت نہ ہوئے کیونکہ پارٹی لیبل کی و جہ سے اشتہارات نہیں ملتے تھے اس لئے بند ہو گئے یا کر دیئے گئے ۔

صرف ایک اخبار جسارت آج بھی جاری ہے۔ان کے علاوہ امروز لاہور اور پاکستان ٹائمز بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جو 1948 میں لاہور کے ایک بڑے جاگیردار میاں افتخارالدین نے اس وقت شروع کئے جب وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے مسلم لیگی ممبر تھے مگر بعد ازاں انہوں نے مسلم لیگ سے استعفا دے کر آزاد پاکستان پارٹی بنائی اور یہ دونوں اخبار اس پارٹی کے ترجمان بن گئے۔

ان کی ابتدا پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کا آغاز تھا۔ پاکستان میں ٹی وی نشریات کا آغازسرکاری شعبے میں ہوا۔ بعد ازاں جب نجی شعبے میں نشریات کا آغاز ہوا تو کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان نے اس شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی یا دلچسپی نہیں لی جسکی و جہ بھاری سرمایہ کاری تھی چنانچہ سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے اوپر بیان کیا گیاطریق کار جاری رکھا۔


ٹی وی چینلوں کے متذکرہ پروگراموں میں سیاسی جماعتوں کے جو نمایئندے بلائے جاتے ہیں وہ جس شدو مد کے ساتھ اپنی جماعتوں کا موقف پیش کرتے ہیں اس سے ایساظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹی وی سٹودیو میں نہیں بلکہ کسی جلسہ عام سے خطاب کر رہے ہیں ان کی بلند آواز ناظرین کی سماعت پر گراں گزرتی ہے۔ایسے پروگراموں میں اکثر شرکا متانت اور تحمل سے بات کرتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ چیختے اور چلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح کا رویہ کچھ اینکر پرسن کا بھی ہوتا ہے یہ سب کچھ میڈیا کی آزادی کا ثمر ہے اور پاکستان میں شائد اس آزادی کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہیجس پر آئندہ تحریر کیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :