آبادی کی بے مہاری اور ہٹلر

جمعرات 4 دسمبر 2014

Manzoor Qadir Kalru

منظور قادر کالرو

آج سے پچاسی سال قبل ہٹلر نے جرمنی کے لئے جس مرض کی تشخیص کی تھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُس کی اُس وقت کی تشخیص ہماری موجودہ تشخیص ہو۔ملاحضہ ہوہٹلر کا منشور۔آج کل کے زمانے میں ہر ایک گرے سے گرے انسان کو بھی یہ آزادی حاصل ہے کہ اپنی حیوانی خواہشات کا غلام ہو کر اپنے ہی جیسی ناکارہ، آوارہ، من مانی اولاد پیدا کرتا چلا جائے۔کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ جہاں وہ ایک طرف اپنی قوم و ملک پر ایک نازیبا بوجھ لاد کر اُس کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں اضافہ کررہا ہے وہاں دوسری طرف اپنی اولاد کو بھی ناگفتہ بہ حالات کے حوالے کرر ہا ہے۔

آج کل ہر ایک نام نہاد ڈاکٹر اور حکیم کے علاوہ دوا فروش کو بھی یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ تندرست سے تندرست اور مضبوط سے مضبوط مردوں اور عورتوں کے ہاتھوں مانع حمل ادویات فروخت کرکے انہیں اُن کی نفس پرستیوں کی ترغیب دے۔

(جاری ہے)

مگر آئیندہ آنے والی باضابطہ حکومت میں قوم پرست درمیانہ طبقات کے بہادر شہریوں کے لئے صرف اس صورت میں اولاد پیدا کرنا جرم قرار دیا جائے گا جبکہ والدین آتشک سوزاق تپ د ق یا کسی ایسی امراض کا شکا ر ہوں کہ جس سے دائمی امراض کے بچوں کے پیدا ہونے کا احتمال ہو۔

آجکل کے طریقِ حمل کے بالکل خلاف لاکھوں تندرست توانا بہترین صحت مند مردوں اور عورتوں کا محض اپنی نفس پرستیوں کے لئے اولاد پیدا کرنے کی ذمہ داری سے پہلو بچانا قوم و ملک بلکہ اخلاق و تہذیب کے خلاف ایک زبردست جرم سمجھا جائے گا۔ بچے قوم کا نہایت ہی بیش بہا اور گراں قیمت سرمایہ ہیں اس لئے حکومت کو نہایت احتیاط سے یہ دیکھنا چاہیے کہ بچے نہ صرف تندرست اور مضبوط پیدا ہوں بلکہ ان کی پرورش بھی مناسب آرام و آسائش اور غورو پرداخت سے ہوتی رہے۔

جو شخص بھی وراثتی بیماریوں یا شخصی ناقابلیتوں کا شکار ہوں ان کے لئے بچے پیدا کرنا سخت باعثِ شرم سمجھا جائے اور وہ اولاد پیدا نہ کرنے میں ہی اپنی عزت و حرمت کا خیال کریں۔اس کے برخلاف قوم کو تندرست اور صحت مند بچوں سے محروم رکھناباعثِ ندامت خیال کیا جائے۔ آج انسان اپنے گھوڑوں کتوں بلیوں اور پالتو جانوروں کی نسل کو بہتر بنانے کی فکر میں شب و روز مبتلا رہتے ہیں تو کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ انہیں اپنی نسل کو اچھا اعلٰی اور مضبوط بنانے کا کچھ بھی خیال نہیں ہو۔

حکومت ہر شخص کو مناسب تعلیم و تربیت دے کر یہ حقیقت اس کے ذہن نشین کروا دے کہ بیمار ی اور کمزوری باعث شرم ہی نہیں بلکہ ایک قابلِ افسوس بد قسمتی ہے جو شخص بھی اپنی خود غرضی سے اپنی اس بد قسمتی کا بوجھ کسی دوسری معصوم ہستی کی گردن پرلادتا ہے وہ ایک سخت جرم اور شرمناک فعل کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب ایک بیمار مگر بے قصور شخص اپنی کوئی ذاتی اولاد پیدا کرنے کا خیال بالکل ہی چھوڑ دیتا ہے اور اسکی بجائے اپنی پدرانہ الفت و محبت کسی دوسرے بچے کی طرف منتقل کر دیتا ہے جس کی صحت و تندرستی یہ امید دلاتی ہے کہ وہ بڑا ہو کر ملک و قوم کا ایک تنومند اور مضبوط فرد بنے گا تو وہ درحقیقت ایک نہایت شریفانہ اور قابل تعریف کام کرتا ہے۔


یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پچاسی سال قبل ہٹلر نے ہمارے موجودہ حالات کا نقشہ کھینچا ہو۔آج بھی غریب آدمی کی سب سے بڑی عیاشی بچے پیدا کرنا ہے۔لوگ جھگیوں میں رہتے ہوئے اس نظرئیے کے تحت بچے پیدا کرتے چلے جا رہے ہیں کہ ہمارے کونسے مربے ہیں جن کی تقسیم ہونا ہے۔ہم بھی مزدوری کر رہے ہیں اور ہماری اولاد نے بھی مزدوری کرنا ہے۔زیادہ اولاد ہوگی تو زیادہ مزدوری کریں گے۔

شاعر بے چارے چِلا چِلا کے تھک گئے ہیں کہ
شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو مگر تھوڑی سی گند م بھی تو پیدا کرو
لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔جہاں آنے والے کے لئے خوشحالی ہوتی ہے وہاں آنے والے کو آنے نہیں دیا جاتا اور جہاں بھوک منہ کھولے کھڑی ہوتی ہے وہاں چھکے پہ چھکے مارے جا رہے ہوتے ہیں۔اس صورت حال کا شاعر کچھ یوں نقشہ کھینچتا ہے۔


اے مرے بچے مرے لختِ جگر پیدا نہ ہو
یاد رکھ پچھتائے گا تو میرے گھر پیدا نہ ہو
تجھ کو پیدائش کا حق ہے مگر پیدا نہ ہو
میں تیرا احسان مانوں گا اگر پیدا نہ وہ
اے میرے بچے مرے لختِ جگر پیدا نہ ہو
ہم نے یہ مانا کہ پیدا ہو گیا کھائے گا کیا
گھر میں دانے ہی نہ پائے گا تو بھنوائے گا کیا
اس نکھٹو باپ سے مانگے گا کیا، پائے گا کیا،
دیکھ کہنا مان لے جانِ پدر پیدا نہ ہو
اے میرے بچے مرے لختِ جگر پیدا نہ ہو
یوں بھی تیرے بہن بھائیوں کی ہے گھر میں ریل پیل
بلبلاتے پھر رہے ہیں ہر طرف جو بے نکیل
میرے گھر کے ان چراغون کو میسر کیا ہے تیل
الجھ کے رہ جائے گا تو بھول کر پیدا نہ ہو
اے میرے بچے مرے لختِ جگر پیدا نہ ہو
پالتے ہیں ناز سے کچھ لوگ کتے بلیاں
دودھ جتنا پئیں اور کھائیں جتنی روٹیاں
یہ فراغت اے مرے بچے مجھے حاصل نہیں
ان کے گھر پید ا ہو جا بن بشر پیدا نہ ہو
اے میرے بچے مرے لختِ جگر پیدا نہ ہو
یوں ہی میں کپتان ہوں اولاد کی ہے پوری ٹیم
مفلسی میں ہو رہی ہے اور بھی حالت سقیم
اپنے زندہ باپ کو تو بھی کہلائے گا یتیم
بخش دے مجھ کو مرے نورِ نظر پیدا نہ ہو
اے میرے بچے مرے لختِ جگر پیدا نہ ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :