تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کریں

منگل 2 دسمبر 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اللہ کے نبی ﷺ سے سوال کیا گیا:”بہترین ہم نشین کون ہے“؟فرمایا: ایسادوست جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاددلا دے،جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل آخرت کی یاد دلادے۔میں بھی اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرتا ہوں جس کے پاس چند ایسے دوستوں کا سر مایہ مو جود ہے کہ جب بے ہنگم مصرو فیات زندگی کی الجھنیں اور اس کے نتیجے میں آنے والی پریشانیاں مجھے تکلیف دیتی ہیں تو میں ان کے پاس حاضر ہو جا تا ہوں ۔

میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے پاس کچھ لوگ ایسے ضرور ہو نے چاہئیں جن سے آپ ہر قسم کی بات شئیرکر سکیں ،اپنی ہر تکلیف،دکھ اور غم کاجس کی وجہ سے زندگی قیامت کی مانند محسوس ہوتی ہے کا اظہار کرسکیں ۔ایسے لوگ جن کے بارے میں واصف نے کہا تھا:یار کے دم سے سلامت ہے زندگی،ورنہ واصف قیامت ہے زندگی۔

(جاری ہے)

جو آپ کے ہر دکھ،تکلیف اور غم کو خوشی،راحت اور تسکین میں تبدیل کر نے کے ساتھ اللہ کی یاد، علم میں اضافے اور آخرت کی یاد دہانی کاذریعہ بھی بنیں۔


حافظ نعمان صاحب کا شمار بھی ان چند لوگوں میں ہو تا ہے جونبی ﷺ کے ارشاد کے مطابق بہترین ہم نشین کے تینوں شرائط پر پورا اُترتے ہیں۔حافظ صا حب خوش مزاج،نرم گو،ملنسار،سیاسی بصیرت کے حامل اور وسیع دل کے مالک اور ایک ایسے سیاسی گھرانے کے سپوت ہیں جو قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں اہم کردار ادا ء کرتے آرہے ہیں اور حیرت کی بات ہے کہ اس خاندان پر آج تک کوئی ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت نہ کر سکا۔

یہی وجہ ہے کہ’ ’فرعو نوں میں موسیٰ“ دورِ حاضر میں یہ ضرب المثل ان کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔
آج جب ایک دفعہ پھر ”وسوسوں“نے مجھے آگھیرا تھا جس کی وجہ سے ڈپریشن کا بھوت روح میں اضطراب کا زہر پیدا کر رہا تھا۔ بے چینی اور نا امیدی کا خمیر امید اور سکون پر بھاری آرہا تھا، اس کیفیت سے نکلنے کے لئے حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔

پانچ منٹ ہی گذرے تھے کہ ناامیدی اور بے چینی کی جگہ امید،سکون اور طمانیت قلب نے لے لی تھی ۔طبیعت کو جب قرار آیا تو ملکی سیاست و حالات پر کُھل کے بات ہوئی، فوجی آمریت اور جمہوریت کے مابین بہت سے نکات حاصل گفتگو بنے۔فوجی بوٹو ں کو چاٹنے والے سیاستدانوں کو ذکر بھی ہوا اور ان کی تباہ کاریوں پر سیر حاصل بات ہوئی،یتیموں،مسکینوں ،غریبوں اور پاکستانیوں کا مال کھانے والے ”حرام خوروں“کی کرپشن اور بیورو کریٹ نامی مخلوق کی ملک دشمن اور عوام دشمن پالیسیوں پر کھل کے تبادلہ خیال ہوا ۔

ملک میں امن، انصاف، ترقیاتی عمل کی طرف گامزن کر نے کے لئے استحکام جمہوریت اور جمہوری نظام کو جاری رکھنے پر ہماری ملاقات کا اختتام ہوا۔
قارئین ! میں ابھی استحکام جمہوریت اور جمہوریت کے ثمرات کے بارے سوچ رہا تھا کہ ایک دوست کی کال ریسیو ہوئی جو کسی اعلیٰ پولیس افسر کو اپنی مجبوری اور اپنے ساتھ ہو نے والی زیادتی کے بارے آگاہ کر نا چاہتا تھا ۔

جسکا قریبی عزیز دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہو گیا تھا ۔لواحقین نے میت کو دفنانے کے لئے آبائی قبرستان لے جانے کے لئے بس کا انتظام کر رکھا تھا،لیکن جمہوری نظام کو استحکام بخشنے اور ایک دوسرے پر چور اور لٹیروں کے فتوے صادر کر نے والی جمہوری آقاؤں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے میت کو لیجانے والی بس کو بھی تحریک انصاف کے جلسے میں جانے سے روکنے کے لئے پابند سلاسل کر دیا گیا تھا، ہاتھ میں ڈیتھ سر ٹیفیکٹ تھامے، بیان حلفی کو اپنے سینے سے لگائے میرا دوست پچھلے ایک گھنٹے سے پولیس والوں کی منتیں کر رہا تھا ،لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی، رینگتی بھی تو کیسے؟ آخر جمہوری نظام کو استحکام جو بخشنا تھا۔

لوگ ذلیل ہو تے ہیں تو ہوں، وہ تو پچھلے کئی سالوں سے ہو رہے ہیں ۔لہذا اس کی تما م منتیں ، تمام سماجتیں اور تما م گذارشیں استحکام جمہوریت کے دعویداروں کے احکامات کے سامنے بے مراد قرار پائیں۔بھلا ہوپولیس میں پائے جانے والے چند گوہر نایاب میں سے ایک، سینے میں دل رکھنے کا ثبوت دینے والے ایس۔پی، اسد سرفراز کا جنہوں نے میری گذارش پر کان دھرے اور فی الفور متعلقہ ایس۔

ایچ۔او کو بس چھوڑنے کے احکامات جاری کئے۔
قارئین محترم !ہمیں تسلیم کر نا ہو گا کہ مملکت عزیز کے باسیوں کی فلاح ، ملک میں امن، انصاف اور حقیقی ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کے لئے جمہوری و فو جی آمروں نے سوائے نظام کو کمزور کر نے اور ملک کو مزید تباہی و بر بادی کے دہا نے پر لے جانے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ اپنے سیاسی حریفوں کو شکست اور کچلنے ، اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور اپنے مفادات کے لئے ملک کے اداروں اور اثاثوں کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر اپنی جیبیں بھر نے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

ملک کو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان بنا نے کے لئے ضرورت ہے کہ ہم جمہوریت کی بیسا کھیوں کا سہارا لینے والے ان ضمیر فروشوں کے بلند و با لا جھوٹے دعووں پر یقین کر نے کی بجائے اپنے ملک اور آئندہ نسلوں کی فلاح کے لئے خودتبدیل ہوں، تبدیلی کا عمل اپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کریں کہ جمہوریت کا نقاب پہنے ان کاسہ لیسوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ملک کو واقعی امن، سکون اور آشتی کا گہوارہ بنا ئیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :