سچ نہیں ،انداز کڑوا ہوتا ہے

منگل 2 دسمبر 2014

Muhammad Tahir Masood Atta

محمد طاہر مسعود عطاء

”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیرکاارادہ فرماتے ہیں تواس کے عیوب ا س کی نظرمیں غالب فرمادیتے ہیں اورجب شَرکاارادہ فرماتے ہیں تواس کے عیوب اس کی نظرسے اوجھل فرمادیتے ہیں۔ “یہ سن کرمیں چونک گیا۔پیرذوالفقاراحمدنقشبندی دامت برکاتہم تصوف کے مشہورسلسلہ،سلسلہٴ نقشبندیہ کے صاحب نسبت بزرگ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں عوام وخواص میں بڑی مقبولیت عطا فرمائی ہے۔

حضرت کواللہ تعالیٰ نے سوزدروں کے ساتھ ساتھ قوتِ گویائی سے بھی خوب نوازاہے ،بیانات میں جب اللہ کی محبت کاتذکرہ فرماتے ہیں تودلوں کی کھیتی ہری بھری ہو جاتی ہے۔ قلوب نرم اورآنکھوں کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں ۔حضرت وقتافوقتااہل دل کی خواہش پرمختلف علاقوں کادورہ فرماتے رہتے ہیں۔پچھلے دنوں ایک طویل عرصہ کے بعد کراچی تشریف لائے ۔

(جاری ہے)

مختلف مقامات پربیان فرمایا۔

بندہ کوحضرت کی تشریف آوری کا علم نہیں تھا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے بھی ایک بیان میں شرکت کی سعاد ت عطا فرمادی۔
ہوایوں کہ عشاء کی نمازکاوقت تھا۔جماعت میں چندسیکنڈباقی تھے۔امام صاحب مصلے پرجانے کے لیے وقت پوراہونے کاانتظارکررہے تھے۔اچانک میرا ایک دوست مسجدمیں داخل ہوا۔ وہ مجھے دیکھ کرمیری طرف لپکا۔گرمجوشی سے مصافحہ کرکے بولا۔

”آج عائشہ مسجدمیں پیرذوالفقارصاحب کابیان ہے،آپ نے چلناہوتوبتائیں۔“اتنے میں جماعت کھڑی ہوگئی۔ نمازسے فارغ ہوکرہم نے جانے کا پروگرام بنایا۔دوست کی گاڑی میں مسجد عائشہ پہنچے۔وہاں جاکردیکھاکہ انسانوں کاایک جم غفیرجمع ہے۔آنے والوں کا تانتابندھاہواہے۔کارکنوں کی ایک بڑی تعداد انتہائی مستعدی کے ساتھ انتظامات سنبھالے ہوئے تھی۔

گاڑی پارک کی ۔اندرجانے والی لائن میں لگ گئے ۔ابھی ہم لائن میں ہی تھے کہ حضرت کابیان شروع ہوگیا۔خطبہ کے بعد جوپہلی آواز کان میں پڑی وہ یہ تھی ۔”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے خیرکاارادہ فرماتے ہیں تواس کے عیوب ا س کی نظرمیں غالب فرمادیتے ہیں۔اورجب شَرکاارادہ فرماتے ہیں تواس کے عیوب اس کی نظرسے اوجھل فرمادیتے ہیں۔ “یہ سن کرمیں چونک گیا۔


سیکیورٹی چیکنگ کے بعد مسجد میں پہنچے۔ مسجد کا ہال اورصحن بھرچکاتھا۔مسجدکے سامنے بنے سبزہ زارمیں کچھ جگہ باقی تھی۔ہم بھی ایک خالی جگہ دیکھ کربیٹھ گئے۔اب حضرت اپنے عیوب معلوم کرنے کے پانچ طریقے بیان فرمارہے تھے ۔ساتھ ساتھ ہرایک کی مثالوں کے ساتھ دل نشیں اندازمیں تشریح فرماتے جارہے تھے۔مجمع ہمہ تن گوش تھا۔کہیں کہیں سے سسکیوں اورآہوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔

اسی دوران حضرت نے عیوب معلوم کرنے کے ایک طریقے کے ضمن میں ایک جملہ ارشاد فرمایا ۔وہ جملہ میرے دل پرنقش ہوکررہ گیا۔جملہ کیا تھا۔ایک حقیقت واقعہ کااظہار۔مصلحین وداعیانِ حق کی ایک الجھن کی سلجھن ۔آپ نے دیکھاہوگاکہ بعض اوقات آدمی کسی کو بظاہراچھی بات یاکسی کام کاصحیح طریقہ بتاتاہے لیکن اگلاآدمی برامان جاتاہے ۔انسان سوچتاہے کہ میں نے تواسے اچھی بات بتائی مگراس کوبری لگ گئی ۔

اب اس کاردعمل دوطرح سے ہوتاہے یاتوآدمی وہ حق بات کہناہی چھوڑدیتاہے کہ جی اب کسی کوسچی بات کہوتواسے اچھی نہیں لگتی ،یاپھراسی موقع پرکہہ دیتاہے کہ” جی! سچی بات توکڑوی ہوتی ہے۔“
ہم میں سے اکثرکواس طرح کی صورتِ حال سے واسطہ پڑتارہتاہے۔حضرت کے اس جملہ میں اس مشکل کاحل تھا۔اب سنیے !
حضرت نے فرمایا”پھرہم کہتے ہیں کہ سچ کڑواہوتاہے ۔

یاد رکھو کہ سچ کبھی کڑوانہیں ہوتا۔ہم جس اندازسے سچ بول رہے ہوتے ہیں وہ اندازکڑواہوتاہے۔جب ہم کسی سے سچ اس طرح کہیں گے جس سے اس کی عزت نفس مجروح ہو تووہ براتومانے گاہی۔“حضرت کایہ جملہ میرے دل پرنقش ہوگیا۔میں بعد میں دیرتک اس پرغورکرتارہا۔غورکرنے سے معلوم ہواکہ آج جوہماری دعوت موٴثرنہیں ہوتی اس کی بنیادی وجہ محبت کی کمی ہے۔

جب بھی محبت سے کسی مسلمان سے بات کی جائے وہ اس پر عمل نہ بھی کرے عمل کاارادہ ضرورکرتا ہے ۔اگرہم دین کی بات محبت سے کہنے کی عادت بنالیں تووہ ضروراپنااثرچھوڑے گی ۔ اسی بات کوشیخ الاسلام مولاناشبیراحمدعثمانی  نے یوں تعبیرفرمایاکہ”حق بات ،حق نیت سے حق طریقے سے کہی جائے تووہ یقینااثرکرتی ہے،جہاں بھی اثرظاہرنہ ہورہاہووہاں ان تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز مفقودہوگی جس کی بناپربات کی تاثیرظاہرنہیں ہورہی ہوگی۔


اسی سے ملتی جلتی بات حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب موسی اورہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو فرمایا کہ” اس سے نرمی سے بات کرناشایدوہ نصیحت قبول کرلے یاڈرجائے“(یعنی ایک طرف فرعون جیسامتکبرشخص جس نے سرکشی کی حدکردی ۔ خدائی کادعویدار۔دوسری طرف موسی اورہارون علی نبیناوعلیہماالصلوة والسلام جیسے عظیم المرتبت پیغمبر،مگران کواپنے مخاطب سے نرم بات کرنے کاحکم دیاجارہاہے۔

) تم حضرت موسیٰ اورحضرت ہارون سے بڑے داعی اورمصلح نہیں ہواور تمہارا مخاطب فرعون سے بڑاسرکش نہیں ہے ،جب انہیں فرعون سے نرم بات کرنے کاحکم دیاجارہاہے توتمہیں بھی اپنے مخاطب سے نرمی سے بات کرنی چاہیے۔“
آج ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑامسئلہ یہ بنتاجارہاہے کہ جس کسی کی اللہ تعالیٰ نیکی اورتقوی کی طرف رہنمائی فرماتے ہیں عمومااس کارویہ گھروالوں سے، دوست احباب سے پہلے سے بالکل مختلف ہوجاتاہے۔

اس میں محبت کی جگہ نفرت ،نرمی کی جگہ سختی غالب آنے لگتی ہے۔جس کی بناپرلوگ دین کے قریب آنے کے بجائے بعض اوقات دین سے دور ہونے لگتے ہیں ۔اس کوہمارے ایک استاد صاحب نے یوں تعبیرفرمایاکہ”بھائی جب تم خودکوجنتی اورباقی سب کوجہنمی سمجھ کرمعاملات کروگے توپھراسی طرح کے مناظرسامنے آئیں گے۔“دین کی طرف متوجہ ہونے والوں کایہ طرزعمل قابل اصلاح ہے، اس لیے کہ دعوت کاپہلااصول ہی حکمت وموعظت ہے۔


بیان کے بعدحضرت نے توبہ کے کلمات کہلوائے ۔سالکین کومعمولات بتائے ۔تلاوت قرآن کی خاص تاکیدفرمائی۔اس کے بعدمراقبہ ہوا۔اس میں حضرت نے بڑے سوز وگدازسے یہ اشعارپڑھے جووہ اکثرپڑھاکرتے ہیں :
بدل دے دل بدل دے میراغفلت میں ڈوبادل بدل دے گنہ گاری میں کب تک عمرکاٹوں بدل دے میرارستہ دل بدل دے
ایک تویہ اشعارخودہی پرکیف ہیں ،پھرحضرت کی پرسوزآوازنے انہیں دوآتشہ کردیا۔

اس کے بعدرقت آمیزدعاہوئی ۔دعاکیاتھی ،اپنے آقاومولیٰ کے دربارمیں غلاموں کی التجا،شایدہی کوئی آنکھ ہو جونم نہ ہو۔آہ وبکااورگریہ وزاری کاعجیب عالم تھا۔دعاکے ساتھ ہی یہ اجتماع اختتام پذیرہوا۔ہم اپنے ساتھ اس اجتماع کی جہاں اوربہت سی یادیں لے کرآئے وہاں ابھی تک یہ جملہ بھی کانوں میں گونج رہاہے” سچ نہیں انداز کڑواہوتاہے۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :