جماعت اسلامی کا اجتماع عام

اتوار 30 نومبر 2014

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

جماعت اسلامی پاکستان نے 21 سے 23 نومبر تک مینار پاکستان کے سائے تلے انتہائی منتظم اور پر امن انداز میں کل پاکستان اجتماع عام منعقد کر کے اپنی روایات کو آگے بڑھایا ہے تجزیہ نگاروں کے مطابق جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے منفرد سلوگن کی بھی تاریخ ساز پذیرائی دیکھنے کو ملی ہے اور اجتماع عام میں شرکاء کی تعداد نے بھی گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اجتماع عام اس لحاظ سے بھی انفرادیت کا حامل رہا کہ 25 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا جلال الدین عمری جیسی باوقار شخصیت کے علاوہ اخوان المسلمون کے مرکزی رہنماؤں سوڈان، مصر، ترکی، سعودی عرب، افغانستان، کشمیر، ملائشیا، امارات، سری لنکا، مالدیپ، تاجکستان، شام ، لبنان، ایران، مصر، تیونس، فلسطین، عراق سمیت دیگر ممالک کے مہمانان تشریف لائے۔

(جاری ہے)

اجتماع عام کا آغاز تاریخی بادشاہی مسجد میں اخوان کے سربراہ نے خطبہ جمعتہ المبارک سے کیا۔
تاریخی اجتماع عام میں 50 ہزار سے زائد خواتین نے شرکت کی جن کے لئے باپردہ علیحدہ پنڈال اور اسٹیج بنایا گیا تھا۔ جہاں ان کی رہائش، کھانے اور نمازوں کی ادائیگی کے لئے خوبصورت انتظام دیکھنے کو ملا اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے ترانوں نے بھی خوب دھوم مچائی، نوجوانوں کی نمائندہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ، شباب ملی، جمعیت طلبہ عربیہ نے بھی اپنے اپنے پروگرام تشکیل دے رکھے تھے نوجوانوں کے خون کو گرمانے کے لئے ترانوں، خاکوں کے علاوہ سراج الحق کا خطاب بھی اہم رہا۔


جماعت اسلامی پاکستان کے کامیاب اجتماع عام پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے دیرینہ وابستگی کی وجہ سے جو اس اجتماع عام میں نئی چیز دیکھنے کو ملی وہ اجتماع عام کے آخری خطاب امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی طرف سے آئی جسے نئی تو نہیں کہا جا سکتا البتہ اس حلقے کے منہ بند کرنے کے لئے ضرور فائدہ مند ثابت ہوگا جو سراج الحق کی طرف سے جماعت اسلامی کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لئے جاری جدوجہد کو فکر مودودی سے دوری قرار دیتے ہیں اور جماعت اسلامی کو سیاسی پارٹی بنانے کے خلاف ہیں سراج الحق نے آخری خطاب میں جب اجتماع عام میں موجود لاکھوں مرد ،خواتین، نوجوانوں سے روزانہ پانچ وقت کی با جماعت نماز پڑھنے روزانہ قرآن پاک کا مطالعہ کرنے والدین کا احترام کرنے سمیت جھوٹ، غیبت اور حرام سے توبہ کرنے کا وعدہ لیا اور اجتماعی توبہ کرتے ہوئے فرمایا۔

وعدہ کریں کہ آج سے نہ حرام کھائیں گے نہ بچوں کو کھلائیں گے کمزوروں کا ساتھ دینے سمیت 5 دیگر وعدے اور خود بھی لاکھوں کی موجودگی میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا عام بات نہیں ہے سراج الحق کی سادگی، درویشی، نیک نیتی ان کی مقبولیت کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں تیزی سے منزل کی طرف لے جا رہی ہے اجتماع عام کے ناظم میاں مقصود احمد اور ان کی ٹیم نے جس تن دہی سے 40 دن سے زائد عرصہ تک دن رات ایک کیا وہ بھی قابل ستائش ہے۔

یقیناً امیر جماعت اسلامی مبارک باد کے مستحق ہیں بہت ہی کم عرصے میں جماعت اسلامی کو ایک دفعہ پھر فعال کرنے میں کامیاب رہے اور تاریخی اجتماع عام کا انعقاد ممکن ہو سکا۔
آج کے کالم میں جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار کا گلاقارئین کے سامنے رکھنا ہے جو انہوں نے میڈیا گروپس اور میڈیا مالکان سے کیا ہے جماعت اسلامی کے ذمہ دار کا گلا درست ہے فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کتنا درست ہے کتنا غلط ان کے علاوہ مجھے بہت سے احباب بھی میڈیا کی طرف سے توقعات کے برعکس کم کوریج کئے جانے پر کیا ہے گلا یہ ہے کہ صحافت کیا ہے صحافی حضرات کی ذمہ داریاں کیا ہیں رپورٹنگ کا معیار کیا ہے الیکٹرونک میڈیا کے لئے لائیو کوریج کا کیا معیار ہے دو لاکھ ، تین لاکھ شرکاء تھے یا چار لاکھ اس بحث سے قطع نظر ہم میڈیا مالکان سے پوچھنے میں حق بجانب ہیں کیامیڈیا کوریج لینے کے لئے توڑ پھوڑ ضروری ہے، بندوں کا مرنا، زخمی ہونا ضروری ہے؟ ایک طرف آپ عمران خان، طاہر القادری، الطاف حسین کے جلسوں کی تیاریوں کا آغاز کرسیاں لگانے ، سٹیج بنانے کے مراحل تک کو لائیو دکھاتے ہیں کئی کئی گھنٹے دکھاتے ہیں اور پھر تقریریں دو گھنٹوں کی ہوں یا چار گھنٹوں کی اس کا حساب نہیں تمام لائیو دکھایا جاتا ہے۔

میڈیا ، سکالر درس دیتے ہیں پر امن رہنے تنظیم سازی کرنے اور پر امن اجتماعات کی ترغیب کا، ٹریفک بلاک نہ کرنے بیماروں کا خیال کرنے اور جب جماعت اسلامی نے عوامی خواہشات اور اسلامی قواعد ضوابط کے عین مطابق اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے سلوگن کے ساتھ تین روز تک لاکھوں شرکاء کے ساتھ منتظم انداز میں تاریخی مقام پر اجتماع عام کا انعقاد کیا اس میں کس میڈیا گروپ نے کتنی لائیو کوریج کی اس کا وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کیا اجتماع عام کے موقع پر آگ لگ جاتی، گولی چل جاتی پھر کتنی لائیو کوریج کرتے۔

؟
افسوس اس بات کا بھی ہوا بعض صحافی حضرات کیمروں کے ساتھ منفی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لئے کوشاں رہے ملک بھر سے آئے ہوئے لاکھوں شرکاء کا قصور تو پر امن اجتماع عام کا انعقاد ہو سکتا ہے لیکن پوری دنیا سے 25 سے زائد ممالک کے نمائندوں کی تین دن تک مینار پاکستان کے سائے تلے موجودگی کا بھی کسی نے احساس نہیں کیا الیکٹرونک میڈیا تو شاید اخلاقیات سے عاری ہو چکا ہو، پرنٹ میڈیا کے شاید کسی ایک دو کے علاوہ مصر، سوڈان، افغانستان، ترکی، ہندوستان اور دیگر ممالک سے آنے والے جید علماء کرام اور سکالر حضرات کا انٹرویو کی خواہش کا اظہار کیا ہو۔

میڈیا گروپس سے اجتماع عام کے آخری روز سراج الحق کے خطاب اور لاکھوں افراد کی موجودگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اجتماع عام کے روز اخبارات نے عمران خان کے گوجرانوالہ کے جلسے کی لیڈز اور سپر لیڈ لگائی مگر لاہور میں موجود لاکھوں افراد تین کالم سے آگے نہ بڑھ سکے۔
لاکھوں کے اجتماع سے چند افراد سڑک بلاک کر دیتے تو شاید اخبارات بھی لیڈ لگانے سے دریغ نہ کرتے یہ سطور کارکن جماعت اسلامی اور ادنیٰ ذمہ دار اجتماع عام کی حیثیت سے میڈیا مالکان اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے دوست احباب سے میرا محبت بھرا گلا ہے دل دُکھانے کے لئے نہیں نہ ناراض ہونے کے لئے ہے صحافتی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھیں بطور مسلمان جائزہ ضرور لیں کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کر رہے۔


یہ گلا میرے دوست نے کر دیا ہے کالم کے ذریعے میڈیا گروپس تک پہنچ جائے گا ایڈیٹر حضرات جائزہ لیں گے رپورٹنگ، نیوز روم کہاں کہاں کمی رہ گئی ہے یہ سب کچھ جماعت اسلامی کی میڈیا ٹیم خود مل کر بھی کر سکتی ہے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات امیر العظیم کے لئے نہ پرنٹ میڈیا نیا ہے اور نہ الیکٹرونک میڈیا۔ میرا امیر العظیم سے ذاتی احترام کا تعلق ہے انہیں میڈیا کا سردار قرار دیا جا سکتا ہے۔
امیر العظیم اور ان کی ٹیم نے اجتماع عام میں صحافی حضرات اور میڈیا ٹیموں کی خدمت، رہنمائی اور پریس ریلیز اور فوٹو کی بروقت فراہمی کا انتظام کیا ہے بہت شاندار رہا ہے سراج الحق کا امیر اعظیم کا انتخاب درست اور تاریخی فیصلہ ہے۔ اس کے دورس نتائج سامنے آئیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :