30 نومبر اور امن کی فاختہ

اتوار 30 نومبر 2014

Jahid Ahmad

جاہد احمد

کوئی شک نہیں کوئی شرم نہیں کہ میں اور میرے جیسے بہت سے دوسرے نہ صرف کم عقل ہیں بلکہ کج فہم ، کمزور نظر، ناعاقبت اندیش اور بیوقوف بھی ہیں۔ شاید ہم شیزوفرینیا نامی نفسیاتی و دماغی بیماری کا شکار ہیں۔ ہمارا دماغ حقیقت کے بجائے ہمیں وہ سب کچھ دکھاتا ہے جو ہم جیسے کنویں کے مینڈک اور انقلاب کو نہ سمجھنے والے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادھر کپتان کی پر امن ریلی پارلیمان کی جانب خراماں خراماں چل رہی تھی اور ہمیں دکھا جیسے ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑا جا رہا ہے!پر امن مظاہرین شاہراہ دستور کی تزین و آرائش کرتے گملے سجاتے آگے بڑھے چلے جا رہے تھے جبکہ ہمیں پر تشدد بپھری عوام پارلیمان کے جنگلے پھلانگتی ، ایک عدد ٹرک جنگلے کو ٹکرا ٹکرا کر زمیں بوس کرتا اور کرین حفاظتی کنٹینروں سے کشتی کرتی دکھائی پڑتی تھی!پرامن ریلی کے شرکاء جو ہاتھوں میں گلدستے اٹھائے سیکیورٹی اہلکاروں پر گل پاشی کرتے گنگناتے گنگناتے منزل کی جانب رواں دواں تھے ہمیں ڈنڈا بردار مشتعل غلیل بازی کرتا ہجوم معلوم ہوتا جو ریاستی اہلکاروں کو کسی خاطر میں لانے پر تیار نہیں تھا! کپتان جو امن کی فاختہ مانند محبت اور امن کا پیغام چہچہا رہے تھے ہمیں دھمکیاں دیتے، عوام کو تشدد اور ریاست سے بھڑ جانے پر اکساتے سنائی دیئے! کم از کم میں نے تو اپنا علاج شروع کروا لیا ہے ۔

(جاری ہے)

امید ہے کہ 30 نومبر تک آفاقہ ہو گا اور میرا دماغ مجھے پرامن ریلی بارے خرافات نہ دکھائے گا نہ سنائے گا!!!
وہی لب و لہجہ وہی انداز و اطوار ہیں حضور کے جو 31 اگست کے معرکے سے قبل تھے۔شخصیت وہی معاملات وہی ترجیحات وہی سیاسی فہم وہی پھر 30 نومبر کے نتائج 31 اگست سے فرق کیسے نکلیں گے؟ یوں بھی ہوا کا رخ پیچھے آ رہے طوفان کا پتا دے رہا ہے۔ کپتان بذاتِ خود سمجھ چکا ہے یا پھر سے سمجھایا جا چکا ہے کہ احتجاج اور دھرنے پر امن رہے تو ’دھرنوں کے عالمی ریکارڈ‘ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگنے کاما سوائے اس کے کہ محترم چیئرمین صاحب روزآنہ کنٹینر سے باآوازِ بلند عالمی ریکاڈ کے توانا سے توانا تر ہونے کا اعلان فرماتے رہیں گے۔


31 اگست کے معرکے میں اسلام آباد کی دو سڑکوں،ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پرمخصوص ٹی وی چینلوں اور اینکروں کے توسط سے جو انقلاب برپا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی اسے زمینی سطح پر بالعموم عوام الناس نے مسترد کر دیا تھا اور رہی سہی کسر جاوید ہاشمی کی گوہر افشانیوں نے پوری کر دی۔ حضرتِ کپتان اس وقت بھی عوام الناس کی جانب سے ان کے حکومت و ریاست مخالف ہر ہر اقدام اور ہدایات کو مکمل طور پر رد کیے جانے کے باوجود جس انگلی کے کھڑا ہونے کا انتظار کمال یقین سے فرماتے رہے اس انگلی کو بھی متنازع ترین نہج پر پہنچے حالات کے باعث اپنے آپ کو غیر جانبدار اور غیر سیاسی ثابت کرنا ضروری ہو گیا۔

یوں کپتان اقتدار کا خواب دیکھتے دیکھتے جس انگلی کو تھامنے اور پھر تھامے ہی رکھنے کی خواہش دل میں لئے نظام الٹانے نکلے تھے بالآخر اسی انگلی کے غیرجانبدار ہو جانے کے بعد اپنے آپ کو کنٹینر کا قیدی بنانے میں کامیاب ہوئے! اب حالات یہ ہیں کہ نگلی جائے نہ اگلی جائے!کپتان کا کنٹینر دھرنا فی الوقت ایک ایسی اذیتناک کیفیت کا شکار ہے جس سے راہ فرار کا واحد رستہ جو انا کی تسکین بھی کرتا رہے 31 اگست جیسا ایک اور بڑا کھیل ہے۔

اتنا فساد برپا کر دیا جائے کہ جس کے شور میں اس اذیت سے مکمل چھٹکارے کی گونج دب کر رہ جائے۔ اگست معرکے میں کپتان کی ناکامیاں اور ناکامیوں کے ازالے کے مقصد سے دوسرے راؤنڈ میں جلسوں کی شعلہ بیانیاں، یا تم یا میں، انقلاب، تبدیلی اور گو نظام گو کے نعرے اشارہ کرتے ہیں کہ 30 نومبر کے معرکے کے پر امن احتجاج تک محدود رہنے کے امکانات انتہائی معدوم ہیں!!!کپتان اور حواری خوب جانتے ہیں کہ ایوان سے باہر بیٹھتے ہوئے آئینی طور پر حکومت گرانا ان کی جماعت کے لئے ممکن نہیں۔

دوسرا سہل اور سیدھا رستہ یہی ہے کہ تبدیلی ،دھاندلی اور کرپشن کی کے نام پر ملک کے طول و عرض میں افراتفری، ہیجان، بے یقینی اور خانہ جنگی کی ایسی صورتحال پیدا کر دی جائے جہاں انگلی والوں کے لئے قومی سلامتی کی بنیاد پر دخل اندازی کا مناسب جواز پیدا کیا جا سکے۔
کپتان نے یہ تجربہ بھی کر لیا کہ عوام اور ریاستی اداروں کا اسلام آباد کی دو سڑکوں پر آمنے سامنے آجانا من چاہے نتائج پر منتج نہیں ہو سکتا۔

پر تشدد احتجاج کا ملک گیر سطح پر سامنے آنا انتہائی ضروری ہے۔ جلسے جلوسوں کی یہ محفلیں ملک کے تمام بڑے شہروں میں حقوق کے نام پر عوام کو بھڑکانے اور تشدد کا رستہ اختیار کرنے کی حکمت ِ عملی کا واضح حصہ ہے۔ کپتان کا طرزِ عمل ان تمام عناصر کے لئے بھی مشعلِ راہ ہے جو جمہوری طریقہ سے اقتدار تک نہیں پہنچ سکتے اور تشدد کو اپنا جائز حق گردانتے ہیں۔

لیکن یقینا کپتان اس بات کا انذازہ نہیں لگا پا رہے کہ اقتدار اور انا کی اس جنگ میں جس چنگاری کو ہوا دینے کی سعی کر رہے ہیں یہ بھڑک اٹھی تو حالات قابو رکھنا ملک کے طاقت ور ترین ادارے کے بس سے بھی باہر ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان کے شمال مغربی حصے میں ایک سنگین جنگ دہشت گردی کے خلاف جاری ہے، آئی ڈی پیز کا مسئلہ ہے، مغربی سرحد غیر محفوظ ہے، مشرق کی طرف سے ہمیشہ خدشات لاحق رہتے ہیں، بلوچستان کے حالات کسی طور تسلی بخش نہیں ہیں، کراچی میں ایک عدد آپریشن جاری ہے!!! ایسی صورت میں ملک میں جو تھوڑی بہت جان باقی ہے اسے دھرنوں ، جلسوں، مرنے مارنے کی پالیسی، اقتدار کی رسہ کشی اور خانہ جنگی کی نظر کیا جا رہا ہے۔


قوی امید ہے کہ کپتان وہ سب کچھ کریں گے جو انہوں نے سوچ رکھا ہے۔ وہ پہلے ایک کھلاڑی اور بعد میں سیاست دان ہیں۔ ہار اور جیت، شکست کھانا،شکست کھا کر اٹھنا اور پھر ہر صورت جیتنے کی کوشش کرنا، نتائج سے بے پرواہ ہو کر بس کر گزرنا!! یہی ان کی فطرت بن چکی ہے جو کسی طور ایک قومی لیڈر کا خاصہ نہیں ہو سکتی ۔ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ جلسے کو روکنے کے مقصد سے کسی بھی غیر ضروری اقدام سے گریز کرے جو معاملات کو جلسے سے پہلے ہی تصادم کی طرف دھکیلے کیونکہ موصوف تو موقع ڈھونڈتے ہیں اور ڈھونڈ رہے ہیں مار ڈھاڑ اور الزام تراشی کا۔

بہر طور جلسے کے حوالے سے حدود و قیود کا تعین ضرور کیا جانا چاہیے جیسا کہ مہذب دنیا کا طرزِ عمل ہے۔ ریاست کے اداروں کی حرمت اور تقدس کی ہر صورت حفاظت کی جانی چاہیے اور کسی بھی غیر قانونی اقدام کی صورت میں ریاست کو وہ کمزوری نہیں دکھانی چاہیے جو 31 اگست کو دکھائی گئی تھی۔ شر پسند عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹناریاست کا فرض ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :