سراج الحق ناظم اعلیٰ سے امارت تک

ہفتہ 22 نومبر 2014

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

یہ اگست 1995ء کا زکر ہے ۔میں مظفر آباد سے پشاور پہنچا تھا ۔جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق جو اس وقت جماعت اسلامی خیبر پختونخواہ کے سیکرٹری جنرل تھے اپنی شعلہ بیاں تقاریر کے سبب اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنان میں بہت زیادہ شہرت رکھتے تھے ۔ مجھے متعدد بار آڈیو کیسٹس پر جناب سراج الحق کی تقاریر سننے کا موقع ملا تھا لہذا مجھے ان سے ملاقات کا جنون کی حد تک شوق تھا ۔

المرکز اسلامی پشاور میں ایک رات قیام کے بعد ان سے ملاقات کیلئے جماعت اسلامی کی دفاتر کی جانب گیااور مختلف دفاترکے سامنے سے گزرتے ہوئے بلآخر میں قیم صوبہ (صوبائی سیکرٹری جنرل)کے دفتر کے سامنے جا پہنچا ۔ کمرے میں داخل ہوا تو ایک کلرک کاغذات کی جانچ پڑتال میں مصروف تھا .میں نے سلام لیا اور اس کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگیا ۔

(جاری ہے)

اس بھائی صاحب نے مجھ سے آنے کا سبب دریافت کیا میں نے عرض کیا کہ میں سراج الحق صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔

جواب ملا آپ بیٹھیں اور حکم کریں سراج الحق صاحب سے کیا کام ہے ؟۔ مجھے عجیب لگا کہ جماعت اسلامی میں اس نوع کا وی آئی پی کلچر نہیں ہونا چاہئے ۔سراج الحق صاحب کو لوگوں سے ملاقات کیلئے سیکرٹری نہیں رکھنا چاہئے ۔ کلرک بادشاہ کا جواب سن کر میں دوبارہ گویا ہوا”بھائی مجھے سراج الحق صاحب سے جو بھی کام ہے میں انہیں ہی بتاؤں گا آپ برائے مہربانی میری ان سے ملاقات کروا دیں “۔

کلرک صاحب جو کہ آستیں چڑھائے ہاتھ میں پنسل پکڑے کاغذات میں کھوئے ہوئے تھے ایک بار پھر کہنے لگا”میں نے کہا نا ! آپ حکم کریں،آپ کو کیا کہنا ہے ؟“۔ بس یہیں سے بدمزگی کا آغاز ہوا اور میں نے کلرک کو دو چار سنادیں۔ میں نے کہا آپ ایک ہی بات پر اصرار کئے جارہے ہو کہ میں آپ کو بتا دوں کہ مجھے سراج بھائی کو کیا کہنا ہے جبکہ میں متعدد بار عرض کر چکاہوں کہ آپ مجھے ان سے ملوا دیں ۔

مجھے قطعاََ امید نہیں تھی کہ جماعت اسلامی میں بھی شاہانہ کلچر گھس گیا ہے اور سراج الحق جیسے لوگ بھی اس کلچر کا شکار ہو گئے ہیں ۔ ممکن ہے میری تقریر طوالت اختیار کر جاتی کہ کلرک صاحب نے مجھے ٹوکا اور مخاطب ہوئے ”آپ بلاوجہ خفا ہو رہے ہو ، میں آپ کو اس لئے بار بار کہہ رہا تھا کہ حکم کریں کیونکہ میرا نام ہی سراج الحق ہے اور میں جماعت اسلامی صوبہ سرحد کا سیکرٹری جنرل ہوں“۔

حیرت ِ ساغر میرے مقابل تھا اور میں اس میں غوطہ زن ہونے کو پابہ رکاب ۔ حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساسات کے مرکب کو پس منظر میں رکھتے ہوئے عرض کیا ”وہ تقریروں والے سراج الحق؟“جواب ملا ”جی ہاں! تقریروں والا سراج الحق“۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور میز سے گھوم کر سراج بھائی کے سامنے آن کھڑا ہوا اور عرض کیا کھڑے ہو جائیں کیونکہ یہ کارکن آپ کو گلے ملنا چاہتا ہے ۔


جی ہاں !جماعت اسلامی کے امیر سے یہ میرا پہلا تعارف تھا ۔آج سوشل میڈیا پر سراج الحق صاحب کی اکثر ایسی تصاویر دکھائی دیتی ہیں جو ان کی سادگی اور عجز و انکساری کی غماز ی کرتی ہیں ۔ مگر درست بات یہ ہے کہ مجھے یہ تصایر دیکھ کر قطعاََ حیرت نہیں ہوتی کیونکہ میں جس سراج الحق کو آج سے انیس سال قبل مل چکا ہوں وہ تب بھی ایسا ہی تھا ۔ تکبر و زعم تو بہت دور کی کوڑی ہے وہ تو ڈھنگ کا لباس بھی زیب تن نہ کرتے تھے ۔

سادگی و عاجزی کا امتزاج بنے ہوئے وہ تب بھی زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے اور اس میں کوئی جھجک یا عار محسوس نہ کرتے ۔ متذکرہ بالا واقعہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی دوسری ملاقات کا احوال حاضر خدمت ہے ۔ دوبئی سے آئے کچھ احباب سراج بھائی سے ملاقات کے خواہشمند تھے ۔ میں نے عرض کیامیں یہ کام منٹوں میں کر سکتا ہوں ۔ کیونکہ سراج بھائی سے میری خاصی بے تکلفی ہو چکی تھی لہذا میں ان کے کمرے میں گیا اور عرض کیا کہ دوبئی سے کچھ مہمان آئے ہیں آپ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ آپ کا انٹرویو بھی کرنا چاہتے ہیں ۔

سراج بھائی سے نماز عصر کے بعد کا وقت طے ہو گیا یوں ہم مرکز اسلامی پشاور کے لان میں بیٹھے دوبئی سے آنے والے مہمانوں کی تواضع کر رہے تھے ۔ مہمانوں میں سے ایک صاحب نے ویڈیوکیمرہ نکالا اسے سٹینڈ پر ایڈجسٹ کیا اور یوں انٹرویو کا آغاز ہو گیا ۔سراج بھائی نے اشارے سے مجھے بلایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔یو ں راقم بھی ویڈیوریکارڈنگ کا حصہ بننے لگا ۔

ایک سوال کے جواب میں سراج بھائی کہنے لگے ”ہمارے پشاور میں ایک بہت بڑ ی مسجد ہے اس پر جشن عید میلاد النبی کے موقع پر لاکھوں روپے مالیت کا غلاف چڑھایا جاتا ہے اور لاکھوں روپے اس مسجد میں چراغاں کرنے کیلئے خرچ کئے جاتے ہیں ۔ میں نے کل شام کی نماز اسی مسجد میں ادا کی تھی جب نماز پڑھ کر واپس آرہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سیڑھیوں پر ایک عورت ننگے سر بیٹھے بھیک مانگ رہی تھی اور اس کی گود میں ایک برہنہ بچہ تھا ۔

میرے ذہن میں فوراََ خیال پیدا ہوا کہ ہم رسول اللہ کے فلسفہ محبت کو سمجھ نہیں سکے، ہم نے مساجد کے میناروں اور محرابوں کو قیمتی کپڑوں میں لپیٹ رکھا ہے جبکہ محمد عربی کی روحانی بیٹیوں کو برہنہ سر چھوڑ دیاہے “بظاہر یہ ایک واقعہ تھا جو سراج بھائی نے سنایا مگر بخدا میری چشم تر شاہد ہے کہ اس واقعہ میں جب انہوں نے بھکاری عورت کے برہنہ سر ہونے کا تذکرہ کیا تو ان کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔

سراج الحق اس وقت ایک صوبہ کے سیکرٹری جنرل تھے جبکہ میں ایک طالب علم تھا اس کے باوجود ان کی شفقت کا یہ عالم تھا کہ انہیں پشاور میں کسی پروگرام میں جانا ہوتا تو مجھے بلا لیتے اور میں ان کے ساتھ ہو لیتا ۔ ان کی تقاریر میں جس درد دل کا اظہار ہوتا اس سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتا ۔
آج جب وہ اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو بخدا میں اس نعرے کی روح تک رسائی حاصل کرتا ہوں کیونکہ میں اس حقیقت کا ادراک رکھتا ہوں کہ آج سے انیس سال قبل والے سراج الحق آج اگر اسلامی پاکستان کا نعرہ بلند کر رہے ہیں تو یہ ان کے نظریات و افکار کا تغیر نہیں بلکی وہ ثبات ہے جو انہیں اسلامی جمعیت طلبہ سے میسر آیا تھا ۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ سے لے کر جماعت اسلامی کی امارت تک ان کی نگاہیں ایک ہی نقطہ پر مرکوز ہیں اور وہ نقطہ اسلامی انقلاب ہے ۔ ناظم اعلیٰ ہو تے ہوئے بھی یہی کہا کرتے تھے اور جماعت اسلامی کا امیر بن کر بھی اسے دہرا رہے ہیں ۔ ان کے سیاسی طرز عمل اور حسن تدبیر سے اختلاف ممکن ہے تاہم اس بابت سماعتوں کو وا کر لیجئے اور صداقت دل کو بیدار کر لیجئے کہ وہ ایک راست اور صادق نیت کے حامل ہیں ۔

دنیا کا طالب ہونا تو موضوع ہی الگ ہے وہ تو توشہ آخرت کو ذخیرہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ جماعت اسلامی کے موجودہ اجتماع عام کی مناسبت سے میں موزوں خیال کرتا تھا کہ دیانتداری سے جماعت اسلامی کے امیر کے حوالے سے چند یادداشتوں کو بیان کروں کیونکہ نیک گواہی کو مخفی رکھنانیکو کاروں کا شیوہ نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :