جب ساون برسنے لگا

ہفتہ 22 نومبر 2014

Shabbir Rakhshani

شبیر رخشانی

یہ دوپہر کا ٹائم اور اسی دوپہر سے لیکر شام کا وقت اور ہو بہت گرمی کا موسم تو اسکا بیت جانا ہی بہت کھٹن ہوتا ہے۔ اس میں نہ صبح والی خوشگوار لمحات کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی شام جیسی رنگینی کا۔ خیر وقت تو وقت ہوتا ہے۔ بس شام کا وقت ہوتے ہی میں حسب معمول کھیتوں کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔ شامیں اور خاص کر ان شاموں کو دیہاتی علاقے کی کسی خوبصورت وادی میں گزارا جائے تو شام کے وہ لمحے کسی جنت نظیر لمحے سے کم نہیں ہوتے ۔

بس انہی شاموں کو رنگین بنانے کے لئے میں روزانہ ہی اس ایریا کا انتخاب کرتا ہوں جہاں انہی کھیتوں کے درمیان ایک چھوٹی سی پہاڑی واقع ہے جہاں خوب گپ شپ اور دن بھر کے کام کاج کے حوالے سے اظہار خیال کا موقع ضرور مل جاتا ہے تو ہماری ہر شام اسی پہاڑی کی خوبصورت چوٹی پر اپنی یادیں سجائے ہر شام ہماری منتظر ہوا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

تو انہی لمھات کو خوبصورت یادوں میں سمیٹنے کے لئے مجھے وہاں کا دیدار اسی جانب قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

میں اسی جانب روانہ ہو گیا تھا۔ گاوٴں اور کھیتوں کے درمیان ایک چھوٹی سی ندی پڑتی ہے جو بسا اوقات طغیانی کی زد میں آکر کھیتوں اور آبادی کے درمیان فاصلے کا سبب بھی بن جاتی ہے لیکن یہ فاصلے وقتی ثابت ہو جاتے ہیں لیکن آج اسی ندی کے پتھریلی زمین سورج کی تپش سے شعلے برسا رہی تھی اور کسی بھی طغیانی کے لئے بیتاب تھا۔ بس اسکے بعد ہی کھیتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔

یہاں پر ٹیوب ویل کا conceptتو بہت کم ہے اسلئے یہاں کے زمیندار بارانی پانی سے اپنے کھیتوں کو سیراب کر لیتے ہیں آج بھی انہی کھیتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے فصلوں پر نظر پڑی جنکے پتے سوکھے سوکھے دکھائی دے رہے تھے۔ زمین انہیں بچانے کی بہت کوشش کر چکا تھا لیکن انکی زندگی بچانے کے لئے اپنے اندر کی تر و تازگی بالکل ختم کر چکا تھا۔ پتوں کے سر جھکے ہوئے تھے جبکہ انکے خوشے بالکل مرجھائے دکھائی دے رہے تھے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے سامنے بدست دعا تھے کہ کب بارش کی بوندیں ان پر ٹپک پڑیں اور وہ اپنے آپ کو تندرست و توانا محسوس کر سکیں اور انکی یہ تشنگی ختم ہو جائے۔

جبکہ درختوں پر بیٹھے پرندے پیاس کی شدت سے چہچہانا ہی بھول چکے تھے اور انکے زبان سے عاجزی کے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔ تھپتھی ہوئی دھوپ انکی شدت میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ جبکہ درختوں کی شاخیں جیسے سجدیہ ریز ہوں رب کائنات سے رحمتیں برسنے کے آرزو مند ہو جائیں۔ جبکہ قریب ہی تھکا ہارا بیل بھی کسان کی دن بھر کرائی گئی محنت کے بعدبے سدھ ہو کر زمین پر پڑا ہوا تھا ۔

میرا زہن بھی آج عجیب و غریب تذبذب کا شکار تھا کہ نہ جانے رب کائنات کو ان بے زبانوں پر کب رحم آجائے اور اپنے رحمت کی بارش ان بے زبانوں پر برسا دے ۔ میں سوچتے سوچتے اپنی مجلس گاہ پہنچ چکا تھا۔ تو پہلے سے وہاں موجود دوستوں کی گرما گرم بحث چل رہی تھی ساتھ میں کیتلی میں دودھ پتی چائے تیار ی کے آخری مرحلے میں تھا۔ جو کیفیت میں نے اپنے آنکھوں سے بے زبانوں کی حالت سے دیکھ لی تھی وہ مجھ سے بیان کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ میرے مجلس میں بیٹھے دوست شاید میری اس منظر کشی کو میری پاگل پن قرار دے کر مجھے پاگل خانے میں داخل کراتے۔

تو میں نے بھی خاموشی میں ہی مناسب سمجھا۔ چائے تیار ہو کر ہمارے سامنے پیش کی جا چکی تھی تو مجھے ہلکے پلکے بادل آسمان پر نمودار ہوتا ہوا دکھائی دےئے بس چند ہی لمحوں بعد گردبھری ہوا پہاڑیوں کی اوٹ سے نکل کر ہماری طرف اپنا رخ کر چکا تھا ہوا کا رخ دیکھتے ہی دیکھتے تمام دوست بھانپ گئے کہ ہوا کے پیچھے کوئی راز ہے جوں جوں ہوا نزدیک آتا جا رہا تھا ویسے ویسے بادل بھی آسمان کو اوڑھنے کا سامان مہیا کر رہے تھے اور بادل آسمان اور سورج کو ڈھانپ چکے تھے بس سچند ہی لمحے گزرے تھے کہ ساون نے برسنا شروع کر دیا تھا بارش اور ہوا کے درمیان زبردست کشمکش جاری تھا ہوا بادلوں کو کہیں اور لے جانا چاہ رہے تھے لیکن بادل اپنی برسات انہی بے زبانوں پر برسنا اپنا مقصود سمجھ رہے تھے اور ساون ایسے جی بھر کر برسا جیسا ایک محبوب اپنے محبوبہ کی جدائی میں نڈھال ہو کر رو پڑے۔

اور وہی جگہ جو چند لمحے پہلے ہماری مجلس گاہ بن چکا تھا اسکی جگہ اب بارش کی بوندوں نے لے لی تھی۔ پورے آدھے گھنٹے تک بارش خوب برستا رہا اور سارے درختوں کو تازگی بخش چکا تھا پرندوں نے چہچہانا شروع کر دیا تھا جیسے صدیوں پہلے کے پیاسے کو اسکا پیاس مٹانے کا موقع ملا ہو۔ اور درختوں پر جمے بارش کی بوندیں اب آہستہ آہستہ زمین پر پڑتے دکھائی دے رہے تھے اور زمین انکے گرنے سے پہلے انہیں اپنی جھولی میں بھر لیتا اور اپنی پیاس کو موتی کے برابر پانی سے بجھا دیتا۔

اور فصلیں خوشی سے جھوم اور ناچ رہی تھیں جیسے وہ اپنے خدا کا شکر ادا کر رہے ہوں ۔ اور مجھے یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد ایک چیز سوچنے پر مجبور کر گئی کہ نہ جانے کتنے سالوں سے ہاتھ اٹھائے انسانوں کی دعائیں قبول نہیں ہو پاتیں جتنا آج میں نے چند بے زبانوں کی دعاوٴں کو اثر ہوتے دیکھا تھا تو شاید انکی اور انسانوں کے دعا مانگنے میں سب سے بڑا فرق چاہت سے مانگنے میں پایا۔ میں بھی ندی پار کرنے کے لئے اپنے شلوار کے پانچے ٹخنوں تک لاچکا تھا اور ندی کی طغیانی بھرا پانی مجھے اس پار جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :